”یوں دی ہمیں آزادی“ سے ”کیوں دی ہمیں آزادی تک“


قائد اعظم محمد علی جناح کا اس قوم پر احسان ہے کہ انہوں نے ہمیں آزادی جیسی نعمت حاصل کر کے دی۔ یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران۔ اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان۔ یہ نغمہ گاتے ہمارا بچپن گزرا۔ جب ملک خداداد میں ایک ٹی وی چینل تھا۔ صبح کا آغاز چاچاجی کی نشریات سے ہوتا تھا۔ مرات العروس کی اصغری فجر کی نماز کے بعد گھر کی صفائی کرتی دکھائی دیتی تھی۔ کارٹون ابھی چل ہی رہا ہوتا تھا کہ اسکول بس آجاتی اور ہم سب چھوڑ چھاڑ بھاگتے۔ اسکول میں آٹھ بجے والے ڈرامے پر بڑی کلاس والی لڑکیاں تبصرے کرتیں۔ لوڈشیڈنگ کا عفریت ابھی قابو میں تھا اور موسمی لوڈشیڈنگ تک محدود تھا۔

کچھ باتیں ہمیں واضح یاد ہیں اور کچھ دھندلی اس لئے واقعات کے لئے وقت کا تعین تھوڑا مشکل ہے۔ اسی کسی زمانے کی بات ہے کہ پی ٹی وی پر ایک ڈرامہ روش شروع ہوا اور شاید اس زمانے میں اردو کے ساتھ رومن میں نام لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا ہو کہ اس ڈرامے کا نام ravish لکھا گیا اور اچانک ہی پتہ چلا کہ عوام کی طرف سے نام کی اسپیلنگ پر اعتراض اٹھایا گیا ہے اور جلد ہی اس کا نام rawish کر دیا گیا۔ یہ کیسی عوام تھی ایک نام کی اسپیلنگ تک پر سمجھوتہ نہیں کرتی تھی۔ یونہی اسی کسی زمانے میں لکس صابن کے اشتہارات ہر عوام ناراضگی کا اظہار کیا کرتی تھی۔ دور کچھ آگے بڑھا یاداشت کچھ واضح ہونے لگی۔ ایک میوزیکل نائٹ میں لڑکے لڑکیوں نے ہاتھ کیا ہلائے کہ طوفان اگیا۔ یہاں تک کہ پڑوسی ملک تک کہہ بیٹھا اس دن کے لئے بنایا تھا ملک۔ بات ہاتھ ہلانےکی نہیں یا نام کی اسپیلنگ کی نہیں بات اتنی ہے کہ عوام اس زمانے میں اتنی باشعور اور با اعتماد تھے کہ ان نقطوں کو پکڑ لیتے تھے، اعتراض اٹھاتے تھے اور تبدیلیاں بھی لاتے تھے۔

اس کے بگاڑ کے لئے آزادی کو استعمال کیا گیا۔ پھر امپورٹڈ رنگین چینلز کی بھرمار ہوئی اور اچھے اچھوں کی مت ماری گئی۔ ایسے اشتہارات آنے لگے کہ اللہ کی پناہ۔ میڈیا کا زمانہ ہے۔ اس سے کچھ نہیں ہوتا۔ ہم پیچھے رہ جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ کچھ ایسا ہی سنائی دیتا تھا۔ ایک جنرل نے سختی کی مار دی تھی اور بولنے پر پابندی عائد کی تھی تو دوسرے نے سوچا کوئی نیا حربہ ہو۔ تو اس نے بولنے پر سے ساری پابندیاں ہٹا دیں۔ بولو بولو کھل کر بولو بس کچھ کرنا نہیں۔ میڈیا کی آزادی کا نیا اور خوفناک ترین دور شروع ہوتا ہے۔

آئیے بات کریں ان موضوعات پر جن پر پہلے کبھی کسی نے بات نہیں کی۔ اس طرح کی آوازیں آنے لگیں۔ شروع میں ملک کی ترقی اور عوام کی آزادی کا دھوکہ دے کر چند اچھی چیزیں دکھا کر عوام کا اعتماد حاصل کیا گیا۔ اور پھر واقعی ایسے موضوعات پر بات کی گئی جن پر پہلے کبھی نہیں کی گئی تھی۔ آزادی کا عفریت پھیل رہا تھا۔ اعتراض کرنے والوں کی آواز گھر میں ہی دب جاتی کہ ایک گھر کے افراد بھی متفق نہ ہوتے کہ کیا ہونا چاہیے کیا نہیں کیا دیکھنا چاہیے کیا نہیں۔ بس بولو اور بولتے جاؤ۔ دو قومی نظریہ ہو قائداعظم کی شخصیت ہو کہ اقبال کا خواب ہو دیں ہو کہ دنیا ہو سب کی دھجیاں بکھیر دو کہ آزادی ہے بس اس آزادی دینے والے کو بھول جاؤ اور اس نئی آزادی دینے والے کے گن گاؤ۔ لطیفے جس پر چاہے بناؤ کوئی بات نہیں مزاح ہی تو ہے۔

لطیفے بناتے بناتے ہم دکھوں پر رونا بھی بھول گئے۔ عزت و تکریم دینا بھول گئے۔ بس کچھ ہوا نہیں اور لطیفہ حاضر۔ امپورٹڈ رنگین چینلز کے بعد دیسی چینلز کے رنگین ہونے کا دور شروع ہوا۔ ڈرامہ انڈسٹری نے وہ کروٹ بدلی کہ پہلے کچھ حیرانی یوئی۔ لیکن اس بار یہ دھوکہ دیا گیا کہ کم از کم اپنے ڈرامے تو ہیں۔ باہر کے رنگین چینلز سے چھٹکارےکا یہی حل ہے۔ عوام پھر چکر کھا گئے۔ یوں برین واش ہوتے ہوتے سب نارمل لگنے لگا۔ لیکن کیا سب واقعی نارمل ہے۔

جو کچھ ہم آزادی کے نام پر دکھا رہے ہیں وہ سب ٹھیک ہے۔ ڈرامہ تو ہوتا ہی علامتی ہے اسے حقیقت کے قریب لے جانے کے چکر میں ہم اپنی نسلوں کا جو نقصان کر رہے ہیں اس کا ازالہ کون کرے گا۔ سماجی خدمت کا ڈھونگ رچا کر جو موضوعات دکھائے جا رہے ہیں ان سے فائدہ نہیں مزید نقصانات ہو رہے ہیں۔ جو واقعہ کروڑوں کی آبادی میں چند ایک بار ہوا ہو اسے تشہیر دے کر اس کی روک تھام تو نہیں ہوئی البتہ جو نہیں جانتے تھے ان کے لئے نئی راہیں کھل گئیں۔ میری اماں نے اپنی پسندیدہ دکھیاری حسینہ کو اتفاقاً چینل بدلتے ہوئے ایوارڈ کی تقریب میں دیکھ لیا تو ان کی چیخ نکل گئی۔

جو کچھ میوزک کی تقریبات میں دکھایا جاتا ہے اس کے مقابلے میں وہ نوجوانوں کا ہاتھ ہلانا کیا معنی رکھتا ہے۔ جو لباس ڈائلاگ اور موضوعات چل رہے ہی اس میں تو روش کا v شرمندہ ہو رہا ہے کہ اسے w بنانے والے عوام کہاں ہیں۔ لکس ایوارڈ کی تقریبات اور بابرہ اور نیلی کے اشتہار میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہم کس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ سب ٹھیک ہے نارمل ہے۔ یہ نئی آزادی ہمیں کس سمت لے کر جا رہی ہے۔ اس سمت تو ہر گز نہیں جس کے لئے قائداعظم محمد علی جناح نے آزادی حاصل کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).