ہر سال 25 دسمبر ہم سے کیا مطالبہ کرتا ہے


وہ لان میں وہیل چیئر پر بیٹھے تھے جب میں ان کے پاس گیا۔ انہوں نے مجھے دیکھتے ہی کہا: آؤ بیٹا آؤ، آج اتوار ہے ناں؟ جی، میں نے انہیں سلام کرتے ہوئے جواب دیا۔ انہوں نے گرم جوشی سے مصافحہ کیا، مجھے گلے سے لگایا اور بولے: میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا۔ مجھے پتا تھا آج تم آؤ گے۔ چھٹی کے دن ان کے پاس جانا میرا معمول ہے۔ آج بھی اتوار کی چھٹی تھی سو صبح ہی صبح ان کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔

انہوں نے اپنی وہیل چیئر کے ٹائروں پر ہاتھ رکھا اور اس کا رخ دوسری طرف موڑتے ہوئے مجھے قریب رکھے موہڑے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ پھر اپنا چشمہ اتار کر اس کے شیشوں پر تھتھکارا اور بولے: اچھا! تو کل 25دسمبر، بابائے قوم کی 141ویں سالگرہ ہے۔ کل بھی چھٹی ہے؟ جی، میں نے مختصراً جواب دیا۔ انہوں نے میری طرف دیکھا، چشمہ پہنا اور گویا ہوئے: کل ہمارے ہاں قائد کا یومِ ولادت منایا جائے گا۔ سرکاری سطح پر بڑی شان و شوکت سے تقاریب منعقد ہوں گی۔ بڑی بڑی تصویریں آویزاں کر کے قائد کو خراج تحسین پیش کریں گے۔ اخبارات بڑے صفحے چھاپیں گے۔ ٹی وی چینلز پر شور شرابا ہو گا۔ ہر کوئی یہی ثابت کرے گا کہ وہ قائد اعظم کے بتلائے راستوں پر چلتے ہوئے ملک کی باگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہے۔ سیاستدان قائد کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے افکارِ قائد پر روشنی ڈالیں گے۔ لیکن پچیس دسمبر کے گزرتے ہی قائد کے فرامین ان کے افکار و نظریات پر اوس پڑ جائے گی۔ میں چپ چاپ انہیں سن رہا تھا۔

تم جانتے ہو، قائد اعظم 25دسمبر 1876ء کو پیدا ہوئے۔ بانئی پاکستان دیانت و اخلاص کے پیکر تھے۔ ان کی اصول پسندی و عزم کی دنیا قائل ہے۔ وہ عظیم مدبر، اعلی کردار اور برصغیر کے ہر دلعزیز رہنما تھے۔ جنہوں نے اس ملک خداداد کے لیے دن رات محنت کی اور پھر ان کی محنت رنگ لائی اور کرہ ارض پر ہمارا پیارا وطن پاکستان وجود میں آیا۔

وہ سانس لینے رکے پھر مجھے متوجہ پا کر گویا ہوئے: اور پتا ہے، قائد نے کس مطالبے پر اس ملک کو حاصل کیا؟ میں نے نفی میں سر ہلایا تو انہوں نے کہا: 13اپریل1948 میں ایک تقریر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: ”ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا۔ بلکہ ہم ایسی جائے پناہی چاہتے ہیں۔ جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ آپ اسلام کو ہی انسانیت کی فلاح و بہبود اور کامیابی کے لیے بہترین مذہب سمجھتے تھے۔

قائد اعظم کی زندگی کا اعلیٰ محور یہ نظریہ تھا کہ برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو سیاسی، معاشی، معاشرتی، مذہبی حقوق سے بہرہ ور کر کے ان کو آزادی کی نعمت سے بہرہ ور کرنے کے ساتھ باوقار شہری بنایا جائے۔ جی بالکل، مگر افسوس کا مقام ہے ناں! آج اسی قائد کے پاکستان میں ان کے ارادوں، ان کی آرزوؤں کی تو ہین ہو رہی ہے۔ وہ خاموش ہوئے تو میں نے کہا۔

ہاں! 21مارچ 1948 کے ایک خطاب میں آپ نے فرمایا تھا:“پاکستان میں کسی ایک طبقہ کی لوٹ کھسوٹ اور اجارہ داری نہیں ہوگی۔ اس ملک میں بسنے والے ہر ہر شخص کو ترقی کے برابر مواقع میسر ہوں گے۔ پاکستان غریبوں کی قربانیوں پر بنا ہے اس پر غریبوں کو حکومت کا حق ہے۔ لیکن صد حیف کہ قائد کی دنیا سے رخصتی کے ساتھ ہی پاکستان پر اجارہ داری قائم ہو گئی۔ وہ رکے چائے کا گھونٹ بھرا پھر بولے: بلاشبہ زندہ قومیں اپنے اسلاف کو یاد رکھتی ہیں لیکن ساتھ میں ان کے کردار و عمل کو سامنے رکھ کر لائحہ عمل بھی تیار کرتی ہے۔

جانتے ہو ہر سال 25 دسمبر ہم سے کیا مطالبہ کرتا ہے؟ یہی کہ قائد کے جنم دن پر عہد کرنا، جیسے بابائے قوم نے صاف ستھری، اصولوں کے مطابق زندگی گزاری ان کے نقش قدم پر چلنے کو نصب العین بنانا۔ میں نے ان کے استفسار پر جواب دیا۔ ہاں بالکل! ضرورت اسی بات کی ہے کہ جنم دن، سالگرہ منانے کے ساتھ ساتھ ہم قائد کے افکار سے شناسائی حاصل کریں۔ خود بھی بیدار ہوں اور اپنے دیگر ہم وطنوں کو بھی بیدار کریں۔ محمد علی جناح کی سچائی، ایمانداری اور نظریاتی زندگی کو اپنائیں۔

لیکن قائد کے پاکستان کو مستحکم کیسے بنایا جاسکتا ہے؟ میں نے پوچھا۔ انہوں نے چائے کی چسکی لی اور کپ رکھتے ہوئے بولے: دیکھو! پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے جس کو صرف اس صورت میں مستحکم بنایا جا سکتا ہے جب ہمارے ملک میں خوفِ خدا، احترام آدمیت، جمہوریت کا نفاذ اور شہری آزادیوں کے تحفظ کا دور دورہ ہوگا۔ عوام کی امنگوں کی تکمیل اسی وقت ہو گی جب عدل و انصاف کا پرچم بلند ہو گا۔ جب قانون کی حکمرانی ہوگی۔

وہ مسکرائے، دور فضاؤں میں گھورتے ہوئے بولے: قانون سے یاد آیا، آزادی سے پہلے انگریز نے ایک قانون بنایا تھا کہ جس کسی کے پاس سائیکل ہے اس کے آگے لائٹ لگائے۔ بابائے قوم ایک بار چند نوجوانوں سے بات کر رہے تھے تو فرمایا پاکستان میں کون کون شامل ہوگا؟ مسلمان بچوں نے ہاتھ کھڑا کیا۔ تو آپ نے پوچھا: کس کس سائیکل پر لائٹ لگی ہے؟ جواب میں ایک بچے نے ہاتھ اٹھایا تو قائد نے کہا یہ بچہ پاکستان جائے گا۔ وجہ پوچھنے پر آپ نے فرمایا: جو قانون پر عمل نہیں کرتا اسے ہمارے ملک میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

آج جب جب قانون کے ساتھ کھلواڑ ہوتا دیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ انہوں نے آنکھوں کی نمی صاف کرتے ہوئے کہا۔ پھر مٹھی بھینچتے ہوئے بولے: قائد تو پاکستان بنا گئے اب قائد کے افکار، قائد کا اثاثہ ہم نے سنبھالنا ہے۔ قائد کے پاکستان کے استحکام کا فریضہ ہم نے سرانجام دینا ہے۔ ساتھ ہی ہم نے اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر فیصلہ کرنا ہے کہ قائد کیسا پاکستان چاہتے تھے؟ ان کے پاکستان کے لیے ہم نے کیا کرنا ہے؟

وہ خاموش ہوئے اور پھر میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولے: تمہارا کیا خیال ہے؟ میں متفق ہوں دادا٬ ہم نے قائد کے پاکستان کو مستحکم بنانے میں کردار ادا کرنا ہے۔ ان کے افکار سے روشنی حاصل کرنی ہے۔ میں نے کہا تو انہوں نے شاباش دی اور کہا اچھا اب تم جاؤ، آج بہت وقت لے لیا۔ انہوں نے دونوں ہاتھ پھیلائے مجھے گلے لگایا، ماتھے پر چوما اور کہا: قائد کی زندگی کا مطالعہ کرو۔ میں حامی بھری اور اجازت لے کر گھر آگیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).