بی بی شہید کے لیے: وہ ہمیں تحفے میں خنجر بھیجتے ہیں!


70 سال سے پاکستانی سیاست میں’ تسلسل کا ایک جھولا رواں’ ہے۔یہ سب کھلی آنکھوں سے دیکھنے کے لیےایک خاص تلازمہ فکر یا تلازمہ خیال چاہیے۔ 27 دسمبر کے حوالے سے بے نظیر کو یاد کیا جا رہا ہے۔ دیکھتا ہوں کہ عرصہ پانچ سات برس میں ہی قوم کسی حد تک بے نظیر کو بے مثال رہنما مان چکی ہے۔ قوم زندہ کو محبوب بنانے سے قاصر ہے عجب واسوخت رویہ ہے۔ بے نظیر جب تک زندہ رہیں بدعنوانی اور بھائی کو قتل کرنے کے الزامات سہتی رہیں۔ وہی بے نظیر آج بی بی شہید ہیں۔

عجب تسلسل کا ایک جھولا رواں ہے۔ آج کا نواز شریف کل کی بے نظیر ہے۔ آنے والے وقتوں کا عمران خان آج کا نواز شریف ہو گا۔ اس عمران خان کے مد مقابل۔۔۔ کوئی اور۔۔۔ عمران خان کے لئے 90 کی دہائی کا نواز شریف ہوگا۔ کھیل جاری رہے گا۔ ایک ہی چہرہ اپنی سیاسی زندگی میں دو چہرے اپناتا رہے گا۔ پاکستان میں سیاست اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین کشمکش کے تسلسل کا جھولا رواں رہے گا۔’عوام کثیر تعداد میں جاہل ہے ‘ کا ورد جاری رہے گا اورغیر منتخب اشرافیہ پیٹ کے درد کو آرام دینے کے لیے دماغ کی سرجری جاری رکھے گی۔

خیر چھوڑیے بے نظیر بھٹوکے کچھ ارشادات پڑھیے۔ آج کے حالات سے مماثلت کو یا تو اتفاقیہ سمجھا جائے اور یا اس کو “کولہو کے بیل ” کے تناظر میں سمجھا جائے۔ دقت ہو تو منیر نیازی کے اس شعر سے مدد لی جا سکتی ہے۔۔

منیر اس ملک پر آسیاب کا سایہ ہے یا کیا ہے

کہ حرکت تیز تر ہے اورسفر آہستہ آہستہ

“بے نظیر جب کراچی کی عدالت میں ایک برطانوی کمپنی کو سستے داموں کپاس فروخت کے الزام میں پیشی بھگتنےگئیں تو بہت جذباتی تھیں۔ کہنے لگیں یہ سارا طریقہ کار سیاسی انتقام ہے۔ مجھ پر ظلم کیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی بے نظیر نے کہا پاکستان تیسری دنیا کا ملک ہے۔ خود امریکہ میں جہاں دو سو سال سے جمہوریت قائم ہے وہاں بھی وہاں بھی ایسے ہتھکنڈے استعمال ہوتے ہیں۔ درحقیقت پاکستان کے انتہائی پیچیدہ معاشی نظام میں بدعنوانی اور سرپرستی میں واضح لکیر کھینچنا مشکل کام ہے۔ اسے سفارش کہہ لیں اثرورسوخ کہہ لیں سرپرستی کہہ لیں لیکن اس کے بغیر پاکستان میں کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ حتیٰ کہ ریل گاڑی میں ایک نشست مخصوص کروانے کے لیے بھی سفارش کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ طریقہ کار پاکستان میں انتہا کو پہنچا ہوا ہے” کرسٹینا لیمب کی کتاب سے اقتباس

نواز شریف پر جب ہائی جیکنگ اور دہشت گردی کا مقدمہ چلا اور ان کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تو بے نظیر کا ردعمل پڑھئے۔۔۔” چار دہائیوں میں عدالتوں نے چار وزرائے اعظم کو مجرم قرار دیا ہے۔ کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں یہ انوکھا ریکارڈ ہے۔ مقدمات انہوں نے بنائے جو ان کو سیاسی منظر سے ہٹا کر اپنے اقتدار کو مستحکم کرنا چاہتے تھے ۔ مخالفین کو ختم کرنے کی ہر کارروائی نے ایک نیا پینڈورا باکس کھول دیا جس سے ملک کے مستقبل کا منظرنامہ پیچیدہ ہوتا چلا گیا۔ منظر سے ہٹانے کے لیے پہلی عدالتی کارروائی پچاس کی دہائی میں ہوئی جب بنگالی وزیر اعظم پر کرپشن کا مقدمہ چلا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے اثر ورسوخ سے ایک ٹھیکہ دیا۔ وہ اپنے بے گناہ ہونے کے متعلق چیختے رہے مگر عدالت ان کے خلاف بھری بیٹھی تھی۔ ان کو نااہل قرار دینے سے ملک کے مشرقی حصے میں تلخی بڑھ گئی۔ بنگالی عوام کو نظر انداز کرنے میں یہ ایک اہم عنصر تھا۔ ساٹھ کی دہائی می متوقع وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمان مجرم قرار پائے۔ 1970 کے انتخابات میں کامیابی ہی ان کی ناکامی بنی۔ غداری کا الزام لگا کر انہیں جیل میں بند کر دیا گیا” (یاد رہے کہ بھٹو نے بڑی مشکل سے ان کو رہا کروا کر بنگال واپس بھیجا تھا)

بے نظیر آگے لکھتی ہیں۔ ” ضیا کو خوف تھا کہ عوام میں مقبول بھٹو دوبارہ اقتدار میں آ جائیں گے اور ان پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے گا۔ پاکستان کے آئین کے مطابق غداری کی سزا موت ہے اسی لیے وہ کہا کرتے تھے آدمی دو ہیں اور قبر ایک۔ بھٹو کے عدالتی قتل نے پاکستان کے معاشرے کو بے دست و پا کر دیا۔ بھٹو کے حامیوں کو ختم کرنے کی کوشش میں سول اور فوجی ادارے تباہ کر دیے گئے۔ ضیاء جرم کے ارتکاب کے احساس سے چھٹکارا پانا چاہتے تھے اور اسی کوشش میں انہوں نے پاکستان کی سیاسی ترقی کو تباہ کیا”

مزید اپنی یعنی پیپلز پارٹی کی حکومتوں کی برطرفی پر کچھ ایسا لکھا جو ہمارے لیے سوچ کے ہزاردریچے وا کر دیتا ہے۔۔۔”بے سروپا سکینڈلز کی تلوار کو استعمال کر کے انہوں نے صدارتی اختیارات کے ذریعے پی پی پی حکومتوں کو برطرف کیا۔ ناجائز کارروائی کو جائز بنانے کے لیے عدالتی ٹھپہ استعمال کیا گیا اور عدلیہ میں بھی سیاست کو داخل کر کے اس کو کمزور کر دیا گیا۔ پی پی پی کی حکومت کی برطرفی کو جائز قرار دینے کے صلہ میں ایک چیف جسٹس کو ملک کی صدارت کا اعزاز دیا گیا جبکہ دوسرے تین جسٹس صاحبان کو مختصر عرصے میں برطرف کر دیا گیا۔ ایک جمہوری معاشرے میں قانون اور انصاف کی بنیاد عدلیہ ہوتی ہےحکومت کا ایک خود مختار شعبہ ہونے کی حیثیت سے عدلیہ سول معاشرے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ حکومت کی تبدیلی کے لیے پارلیمنٹ کا مقام عدلیہ کو دے کر پاکستان میں اس توازن کو ختم کر دیا گیا ہے “۔

اب نواز شریف کی سزا اور پھر جلاوطنی پر یہ ذہین و فطین رہنما بے نظیر کیا کہتیں ہیں۔۔”نواز شریف کی بدقسمتی کہ جب طاقتور شرفاء کا ملک کے اقتدار کے ڈھانچے پر غلبہ تھا اور وہ انہیں بر سراقتدار رکھ سکتے تھے مگر انہیں مستحکم کرنے میں ناکامی کی وجہ سے وہ ان سے حمایت کھو بیٹھے۔ کسی فریق کو بھی ان اقتصادی نتائج کا احساس نہ ہوا جو اپوزیشن کو مٹانے کے لیے نظم و نسق کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں پیدا ہو رہے تھے۔ کسی فریق کو بھی احساس نہ ہوا کہ کسی ناجائز مہم کے سنگین اثرات مابعد ہوا کرتے ہیں “

بے نظیر نے اپنے ایک مضمون میں لکھا، ” ٹالسٹائی نے اپنی کتاب ‘جنگ اور امن’ کے آخری حصہ میں لکھا ہے کہ تاریخ خیالات کا بہاؤ ہےجس میں سیاسی رہنما ایک چھوٹا سا کردار ادا کرتا ہے۔ میں یہاں بات کو آگے بڑھانا چاہتی ہوں کہ بعض اوقات خیالات بہت تیزی سے آتے ہیں لیکن کبھی خیالات اتنے آہستہ آتے ہیں جیسے کہ برف کا تودہ آہستہ آہستہ پگھلتا ہے۔ خیالات کا بہاؤ ایک آزاد جمہوری فضا میں ہوتا ہے اس فضا میں مخالفت اور کسی بات سے اتفاق نہ کرنے کی آزادی ہوتی ہےاگر ایسا نہ ہو تو تاریخ منجمد ہو جاتی ہے”

چھوڑیے بے نظیر کو وہ تو بہت کچھ لکھ گئیں ہیں کسے فرصت اور دماغ کہ پڑھتا پھرے۔ افضال احمد سید کی نظم پڑھئے

وہ زندگی کو ڈراتے ہیں

موت کو رشوت دیتے ہیں

اور اس کی آنکھ پر پٹی باندھ دیتے ہیں

وہ ہمیں تحفے میں خنجر بھیجتے ہیں

اور امید رکھتے ہیں

ہم خود کو ہلاک کر لیں گے

وہ چڑیا گھر میں

شیر کے پنجرے کی جالی کو کمزور رکھتے ہیں

اور جب ہم وہاں سیر کرنے جاتے ہیں

اس دن وہ شیر کا راتب بند کر دیتے ہیں

جب چاند ٹوٹا پھوٹا نہیں ہوتا

وہ ہمیں ایک جزیرے کی سیر کو بلاتے ہیں

جہاں نہ مارے جانے کی ضمانت کا کاغذ

وہ کشتی میں ادھر ادھر کر دیتے ہیں

اگر انہیں معلوم ہو جائے

وہ اچھے قاتل نہیں

تو وہ کانپنے لگیں

اور ان کی نوکریاں چھن جائیں

وہ ہمارے مارے جانے کا خواب دیکھتے ہیں

اور تعبیر کی کتابوں کو جلا دیتے ہیں

وہ ہمارے نام کی قبر کھودتے ہیں

اور اس میں لوٹ کا مال چھپا دیتے ہیں

اگر انہیں معلوم بھی ہو جائے

کہ ہمیں کیسے مارا جا سکتا ہے

پھر بھی وہ ہمیں نہیں مار سکتے

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik