شرم، غیرت اور گناہ پر مبنی معاشروں میں با اثر عورتوں کا انجام


2009 میں نمائش کے لئے پیش کی جانے والی علیجا ند رو امینہ بار کی فلم اگورا (Agro) ایک تاریخی ڈرامہ ہے جس کی مرکزی کردار چوتھی صدی عیسوی کی خاتون فلسفی اور ریاضی دان ہاپیشیا ہے جس نے پہلی بار ٹولومی کے زمین مرکزی نظام ِ فلکی کو سائنسی بنیادوں پر رد کرکے یہ ثابت کیا کہ ہمارے نظام ’شمسی ‘ کا مرکز زمین نہیں بلکہ سورج ہے۔ ہاپیشیا کو مظاہر پرست (pagan) اور با اثر خاتون ہونے کی پاداش میں کلیسا کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔

اس دور کے مذہبی پیشوا نے (جسے بعد ازاں سینٹ کا درجہ دیا گیا ) اس کے خلاف خطبات دیے جن کے نتیجے میں ایک روز مشتعل مسیحی گروہ نے اسے پکڑا، برہنہ کرکے گلیوں میں گھسیٹا اور سنگسار کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ تاہم ہاپیشیا سنگسار کیے جانے سے پہلے مرچکی تھی۔ اس کا سابقہ غلام اور عاشق ڈیویس بھی اس مشتعل ہجوم کا حصہ تھا۔ جب ہجوم فرش پر پڑی فلسفی کو مارنے کے پتھر اٹھانے کے لئے گیا تو ڈیویس نے ہاپیشیا کی سانس روک کر اُسے مار دیا تاکہ اُسے پتھر لگنے سے تکلیف نہ ہو۔

یہ فلم اگرچہ فلسفہ اور سائنس کی مظاہر پرستانہ (pagan) یا پھر وحدت الوجودی (pantheistic) بنیادیں واضح کرتی ہے بلکہ اس کا ایک سین انسانوں کو نکیل ڈالنے والے بنیادی تصورات ( شرم، غیرت اور گناہ ) کے مابین ایک انسان کے باطن میں ہونے والی کشمکش کو بھی بھرپور انداز میں سامنے لاتا ہے۔ یہ وہ سین ہے جس میں مسیحی ہجوم سکندریہ کی لائبریری جلانے کے لئے حملہ کرتا ہے۔ ہاپیشیا کے دوست، طالب علم اور غلام ڈیوس بھی کتابیں اور قلمی نسخے جمع کرکے فرار ہونے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں کہ اچانک ڈیویس کتابیں اور نسخے جمع کرنا ترک کر دیتا ہے، ہاپیشیا اُسے آوازیں دیتی رہتی ہے مگر وہ اس کی ایک نہیں سنتا۔ کچھ دیر رُک کر سوچتا ہے اور پھر مشتعل ہجوم کے لائبریری میں داخل ہونے سے پہلے لائبریری میں موجود بت توڑنا شروع کردیتا ہے۔ ہجوم اندر داخل ہوتا ہے تو اُسے بت توڑتا دیکھ کر اُس کے حق میں نعرے لگاتا ہے۔

اگرچہ ہاپیشیا اُس کے ساتھ اچھا سلوک کرتی رہی ہے مگر ڈیویس پھر بھی ایک غلام ہے اور اس کے ماتھے پر ندامت کا ٹیکہ ہے۔ اگر وہ کتابیں اور قلمی نسخے اٹھا کر ہاپیشیا کے ساتھ فرار ہوجاتا ہے تو اُس نے غلام ہی رہنا ہے۔ غلام ہونے کی ندامت بالکل واضح اور سب پر عیاں ہے۔ اس کے برعکس اگر وہ مشتعل ہجوم کا حصہ بن کر مسیحیت قبول کرلیتا ہے تو سب کو دکھائی دینے والا غلامی کا داغ چھپ جائے گا اور اس کی جگہ ’گناہ ‘ لے لے گا جو غلامی کے داغ کے برعکس واضح نہیں بلکہ مخفی، مستور اور چھپا ہوا ہے۔ وہ اس موقع پر ندامت بیچ کر گناہ خرید لیتا ہے۔

ڈیویس کا کردار حقیقی نہیں افسانوی ہے۔ ڈیویس ایک کہانی ہے۔ کہانی سچی نہیں ہوتی مگر اُس میں سچائیاں ہوتی ہیں۔ ڈیویس کا دوراہا (dilemma) مذہبی تاریخ کے ماہرین نزدیک دنیا بھر میں لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کا باطنی تنازعہ رہا ہے جنہوں نے سامی مذاہب قبول کیے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ان مذاہب کو قبول کرنے سے ندامت کے مول گناہ خرید ا۔

علم البشریات کے نزدیک تمام زرعی کلاسیکی معاشرے شرم اور غیرت (shame-honour) پر مبنی معاشرے تھے یعنی شرم اور غیرت جیسے تصورات کی مدد سے ان معاشروں میں لوگوں کو نکیل ڈالی جاتی تھی۔ اس کے بعد جہاں جہاں سامی مذاہب پھیلے وہاں ندامت اور غیرت کے ساتھ گناہ کے تصور کا اضافہ ہوا۔ لوگوں نے یہ مذاہب قبول کرلیے مگر پھر بھی وہ ان کہنہ نکیلوں سے آزاد نہ ہوسکے۔

شرم اور غیرت پر مبنی معاشروں میں ان نکیلوں کی پرستش کی جاتی ہے اور نتیجتاً ان میں اس احساس کا فقدان پیدا ہوجاتا ہے کہ شرم ایک متصادم نتائج مرتب کرنے والا ہتھیار ہے۔ شرم بچوں کی تربیت کے ابتدائی دور میں ان کے پر کاٹ دیتی ہے کیونکہ اس تصور کی مدد سے بچوں کو جذبات کے اظہار کی بجائے انہیں دبانے کی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے۔

ماہرین نفسیات، خاص طور پر انتہا پسند رویوں کا مطالعہ کرنے والے، یہ سمجھتے ہیں کہ شرم کے تصور کی مدد سے کنٹرول کیے جانے والے بچوں کی مثال ایسی کیتلی سی ہوجاتی ہے جو اوپر سے پرسکون دکھائی دیتی ہے لیکن اس کے اندر کچھ کھول رہا ہوتا ہے۔ جن معاشروں میں بچوں پر قابو پانے کے لئے شرم اور غیرت جیسے تصورات کا اطلاق کیا جاتا ہے وہاں آزاد فکر نہیں بلکہ اندھی اطاعت کو فروغ ملتا ہے۔ چونکہ یہ سب کچھ غیر ارادی طور پر کیا جارہا ہوتا ہے ؛ اس لئے اس عمل کے قبیح پہلو نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں۔ ایسے میں والدین کو یہ محسوس ہی نہیں ہوپاتا کہ وہ بچوں کو شرم اور غیرت جیسے تصورات کی مدد سے دبا کر خود اپنے خوف کا اظہار کررہے ہیں۔ لہٰذا والدین اپنے خوف پر قابو پانے کی بجائے یہ خوف معصوم بچوں میں منتقل کردیتے ہیں۔ شرم اور غیرت کی مدد سے بچوں کو اطاعت پر مجبور کرنے والے معاشروں میں خوف کی یہ حرکیات نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ اس طرح ایک ہر نسل پچھلی نسل کی نسبت زیادہ صدماتی اذیت میں مبتلا ہوتی ہے۔

شرم کے بارے میں بات کرنا شرمندگی کا شکار کردیتا ہے اور شرم کے مارے لوگ اپنے آپ کو بدل نہیں پاتے۔ یہی وجہ ہے کہ شرمندہ معاشروں میں صدماتی اذیت کے واقعات کو بار بار دھرایا جاتا ہے۔ ایسی تاریخ پر بار بار عمل کیا جاتا ہے جس سے صدمہ اور تکلیف پیدا ہو۔ پھر یہ اذیت معمول بن جاتی ہے اور اذیت کا شکار بچوں کی تکلیف خود والدین کو بھی دکھائی نہیں دیتی۔
شرم، غیرت اور گناہ کی مدد سے لوگوں کو نکیل ڈالنے والے معاشروں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں عورت کو شرم اور غیرت کا مرکزہ (locus) مانا جاتا ہے اور اس طرح عورت ان معاشروں میں یا خاندانوں کی سب سے بڑی کمزوری (Achilles heel ) بن جاتی ہے۔

مثال کے طور پر جنگ اور ایسے خون آشام تنازعا ت کے دوران عورت ایک خطرہ بن جاتی ہے۔ ایک طرف وہ شرم اور غیرت جیسے جذبوں کا بوجھ اٹھاتی ہے تو دُوسری طرف وہ اس وقت شرمناک چیز (thing of shame) بن جاتی ہے جب دشمن اُسے جنسی شکار کے طور پر لیتا ہے۔ اس سب میں عورت یا ماں کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔ اُس کی شعور سازی کا مرحلہ ’پتھروں کے نگر ‘ میں پل کر طے پاتا ہے اور پھر اُس سے بچوں کے کردار و شعور سازی جیسا لطیف کام بھی لیا جاتا ہے۔ یوں ان معاشروں میں کا عورت سے متصادم رشتہ جنم لیتا ہے۔ ایک طرف وہ طاقتور چیز ہے۔ دُوسری طرف بے حُرمت۔ اس لئے اس کی طاقت مسموم اور زہریلی دکھائی دیتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس کی طاقت کا احساس ہوتے ہی اُسے تباہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پُر تشدد معاشروں کے قیام میں اس تلخ تضاد کے کردار کو ابھی پوری طرح نہیں سمجھا جارہا۔ عورت کی طاقت سے حسد اور پھر نفرت کا راستہ تشدد کی طرف جاتا ہے۔ کسی کو یقین نہ آئے تو وہ انتہا پسندی پر مائل مذہبی جنونی سے بات کرے۔ وہ اسے بتائے گا کہ طاقتور عورت کو تباہ کرنا لازم ہے۔ جیسے پشاور آرمی پبلک سکول کے سانحے میں خاتون استاد کو مزاحمت کرنے پر زندہ جلا دیا گیا۔ جیسے بے نظیر بھٹو کو گولی کا نشانہ بنایا گیا۔ جیسے فلم اگورہ میں مذہبی رہنما علمی و فکری میدان میں خود سے کئی گنا طاقتور ہاپیشیا کو برداشت نہ کرسکا اور اُسے مشتعل ہجوم کے ہاتھوں مروا دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).