مسافروں کو نگلنے والا لعل شھباز قلندر کی نگری کا خونی رستہ


تین روز قبل ضلع جامشورو میں سن کے نزدیک دو مسافر کوچز اور وین کے روڈ ایکسیڈنٹ میں ایک ہی گھر کے 10 افراد کے جاں بحق ہونے کے بعد پورے خاندان کے واحد بچ جانے والے 16 سال کے نوجوان جنید شیخ نے کراچی چھوڑ کر اپنے گوٹھ نور احمد شیخ ضلع قمبر شھداد کوٹ میں واپس بسنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے میرا پورا گھر ختم ہو گیا۔ پیچھے کوئی نہیں رہا۔ اس لئے میں اپنے گوٹھ میں رہ کر پیارے والدین، بہن، بھائیوں کی قبروں کی دیکھ بھال کروں گا۔

اس گھرانے کی بے انتہا دکھ کی مختصر کہانی یہ ہی ہے کہ جمال الدین شیخ کا پورا گھرانہ موسم سرما کی اسکولوں کی چھٹیوں کی وجہ سے کراچی سے لاڑکانہ کے نزدیک اپنے آبائی گوٹھ جا رہا تھا کہ انڈس ہائی وے پر سن کے نزدیک ایک مسافر کوچ نے ان کی چھوٹی سی پک اپ وین کو ٹکر ماری اور وین سامنے سے آنے والی دوسری مسافر کوچ کے ساتھ ٹکرا گئی۔ جس میں جنید کے گھر کے دس افراد جاں بحق ہو گئے۔ جاں بحق ہونے والوں میں 35 سالہ جمال الدین شیخ، ان کی زوجہ ریشماں شیخ، ساس، دو بیٹے، 6 سالہ جمشید احمد، 8 سالہ جمیل، بیٹیاں، اقرا، اجوا، خوشبو، بھتیجی صائمہ اور ایک عزیز عورت شامل تھے۔

اگر یہ عام حادثہ ہوتا تو میں اس دکھ بھرے معاملے پر بلکل نہ لکھتا کہ حادثے ہوتے رہتے ہیں مگر یہ تو وہ قتل ہیں جن کی ذمیدار وفاقی سطح پر نیشنل ہائی وے اٹھارٹی، موٹروے پولیس اور سندھ سطح پر سندھ پولیس اور سندھ حکومت خاص کر وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ ہیں کیوں کہ یہ خونی انڈس ہائی وے ان کے حلقہ میں ہے اور وہ ان حادثات سے اچھی طرح واقف بھی ہیں اور انہوں نے اس کی روک کے لئے کچھ نہیں کیا۔

لعل قلندر شہباز کے سہون سے لے کر جامشورو تک انڈس ہائی وے کوالٹی کے لحاظ سے بہت اچھا بنا ہوا ہے جو تقریبا بیس سال قبل کوریا کی کمپنی نے بنایا تھا اور یہ ہی بہتر کوالٹی، کوئی رکاوٹ نہ ہونے کی وجہ سے تیز رفتاری کے سبب مسافروں کی جان کی دشمن بن گئی ہے۔ روڈ سنگل ہونے، پولیس کی کوئی روک ٹوک نہ ہونے، اور رشوت لے کر اوورلوڈ گاڑیاں چھوڑنے کی وجہ سے اس روڈ پر آئے دن انتہائی خطرناک حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ ان حادثات کی وجہ سے یہ روڈ سندھ میں خونی روڈ کے نام سے مشہور ہو گئی ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ نیشنل ہائی وے پرکچھ نہ کچھ سختی ہوتی ہے اس لئے اوور اسپیڈ اور اوور لود مسافر اٹھانے والے مسافر کوچز، اوور لوڈ والے ٹرک، ٹریکٹر، پولیس کو رشوت دے کر سب وہیں سے گزرتے ہیں

اس خونی روڈ پر تباہی کا اندازہ صرف اس بات سے لگائیں کہ 100 کلومیٹر روڈ پراس سال ستمبرکے صرف ایک ماہ میں 35 حادثات کے نتیجے میں 22 افراد کی ہلاکت ہوئی اور 109 افراد زخمی ہوئے ۔ اس روڈ پر حادثات کا مہینہ وار تناسب یہ ہی ہے۔

اس خونی روڈ پر حادثات روکنے کے لئے حکومت کی طرف سے کوئی قدم نہ اٹھانے کی وجہ سے وکیل سعید میرجت نے سندھ ہائی کورٹ حیدرآباد میں جامشورو سہون انڈس ہائی وے پر بڑھتے ہوئے حادثات کے خلاف درخواست کی دائر کی اور سندھ ہائی کورٹ حیدرآباد سرکٹ بینچ میں دائر درخواست پر دورکنی بینچ جسٹس اقبال کلہوڑو اور جسٹس خادم حسین شیخ نے سماعت کی تھی۔ عدالت میں موٹروے پولیس، نیشنل ہائی وے اتھارٹی اور جامشورو پولیس کے نمائندے پیش ہوئے تھے اور اسی درخواست کی سماعت کے دوران ہی سرکاری طور پر عدالت میں یہ رپورٹ جمع کرائی گئی کہ اس روڈ پر صرف ایک مہینے میں 35 حادثات کے نتیجے میں 22 افراد کی ہلاکت ہوئی اور 109 افراد زخمی ہوئے۔

جامشورو سہون انڈس ہائی وے سندھ حکومت کے اتحت ہے اوریہ ایک سو کلومیٹر خونی روڈ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے حلقہ میں واقع ہے۔ ان کے والد عبداللہ شاہ بھی اسی حلقے سے الیکشن جیتتے اور ہارتے رہے ہیں۔ مگر باوجود تمام خطرناک حادثات کے، روڈ کو ڈبل روڈ کرنا تو دور کی بات، سہون سے جامشورو تک سرکاری سطح پر ایک ایسی ایمبولینس سروس تک نہیں جو زخمیوں کو وقت پر لیاقت میڈیکل یونیورسٹی اسپتال جامشورو تک پہنچا سکے۔ ( یہ ہی وجہ ہے کہ حال ہی میں کراچی کے سماجی کارکن ارشد عباسی صاحب کی خدمتِ سندھ فاؤنڈیشن نے اپنی مدد آپ کے تحت اس روڈ پر چار چھوٹی گاڑیوں پر مشتمل ایمبولینس سروس شروع کی ہے)

ضلع جامشورو کی اپنی کمائی اربوں روپے ہے قیمتی معدنیات۔ دیوار چین کی طرز کا بنا رنی کوٹ کا تاریخی قلعہ، سمندر کی طرح وسیع منچھر جھیل ، سندھ یونیورسٹی، لیاقت میڈیکل یونیورسٹی اور مہران انجنیئرنگ یونیورسٹی سب اسی انڈس ہائی وے پر ضلع جامشورو میں موجود ہیں۔ مگر سب سے زیادہ آمدنی قلندر شہباز کی درگاہ سے ہوتی ہے جس سے ہونے والی نذرانے کی ہی اگر کمائی خرچ کی جائے تو اس جگہ پر دس موٹروے بن جائیں۔ مگر حکمرانوں کی ترجیحات عوام کی تباہی اور تکلیف دور کرنا نہیں ہیں۔ یہ لوگ خود تو ہیلی کاپٹر پر آتے ہیں اور اگر روڈ سے سفر کرتے بھی ہیں تو ان کے آگے پیچھے پولیس کی گاڑیاں ہوتی ہے جن سے باہر لٹکے ہوئے سپاہی کبھی ہاتھوں کے اشاروں سے اور کبھی بندوق سیدھی کرتے ہوئے عوام کی گاڑیوں کو روڈ سے ہٹاتے جاتے ہیں تاکہ صاحب کی گاڑی گزر سکے۔
اندرون سندھ بہت بری حالت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).