قاتل ہم سے چپ رہنے کا وعدہ لے گئے


بینظیر بھٹو کے قاتل ہم سے یہ وعدہ لے کر گئے کہ ہم اس کے قاتلوں کا نام کبھی اپنے ہونٹوں پر نہیں لائیں گے

1995 کے موسم بہار میں کچھ مہینوں کے لیے میں بے نظیر بھٹو کا ہمسایہ بن گیا۔ میں نے بلاول ہاؤس کے سامنے ایک آٹھ منزلہ بلڈنگ کے آٹھویں فلور پر ایک فلیٹ کرائے پر لیا۔ میری نئی نئی شادی ہوئی تھی اور یہ کراچی میں میرا پہلا فلیٹ تھا۔ فلیٹ کے سامنے ایک بڑی بالکونی تھی جہاں سے لٹک کر میں دیکھتا تو کلفٹن بیچ پر پھڑپھڑاتے شاپر بیگ نظر آجاتے۔

مجھ سے لوگ پوچھتے کہ کہاں شفٹ ہو رہے ہو تو میں نو دولتیوں کی طرح شیخی مار کر کہتا بلاول ہاؤس کے سامنے پنتھ ہاؤس میں۔ وہاں سے میں بے نظیر کے ڈرائنگ روم میں جھانک سکتا ہوں جو کہ ظاہر ہے غلط بیانی تھی لیکن میں بالکونی سے بلاول ہاؤس کی دیواروں پر لگی خاردار تاریں اور اُسکے اندر لان کی ایک جھلک دیکھ سکتا تھا۔

فلیٹ میں رہتے ابھی چند ہی دن ہوئے تھے کہ میں صبح بالکونی پر نکلا اور دیکھا کہ فلیٹ کی چھت پر ایک پولیس والا کھڑا ہے۔ وہ آگے جھک کر فلیٹ میں جھانکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میری پہلی سوچ تھی کہ چھاپہ پڑ گیا۔ دوسری سوچ یہ تھی کہ آخر کیوں۔ میں نے ہمت کر کے پوچھا کہ چھت پر کیا کر رہے ہو۔ اُس نے بلاول ہاؤس کی طرف اشارہ کر کے کہا بی بی آ رہی ہیں۔ کچھ پانی وانی ملے گا۔

اُسکے بعد یہ ایک روٹین بن گئی۔ ہر ویک اینڈ پر ہماری آنکھ چھت پر پولیس والوں کے بوٹوں سے کھلتی پھر وزیر اعظم بےنظیر کے قافلے کے سائرن بجنے لگتے۔ شروع میں یہ کوئی خاص مسئلہ نہیں تھا۔ پھر کراچی کے حالات خراب ہونا شروع ہوئے اور بے نظیر بھٹو کی سکیورٹی کے بارے میں خبریں بھی پھیلنے لگیں۔

اس زمانے میں یہ خبر بھی آئی کہ رمزی یوسف بلاول ہاؤس کے پاس ایک گٹر میں بم رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میری تشویش بڑھنے لگی۔ امریکہ، رمزی یوسف کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے الزام میں پوری دنیا میں ڈھونڈ رہا تھا اور رمزی یوسف میرے محلے کے گٹروں کا معائنہ کر رہا تھا۔

میں ایک دن صبح اٹھا اور مجھے بےنظیر کے قاتلوں کا پورا پلان سمجھ میں آگیا۔ وہ جمعہ کی رات کو ہمارے فلیٹ پر آئیں گے۔ میں نے اپنی بیوی کو بتایا۔ ہمیں یر غمال بنا کر ہمارے ہاتھ باندھ دیں گے آنکھوں پر پٹیاں باندھیں گے۔ رات یہیں گزاریں گے اور صبح جب بے نظیر کا قافلہ بلاول ہاؤس پہنچے گا تو ہماری بالکونی سے اس پر راکٹ فائر کریں گے۔ اتنا کم فاصلہ ہے نشانہ خطا نہیں جائے گا اور پھر کیا ہوگا۔ میری بیوی نے پوچھا۔ پھر ظاہر ہے جانے سے پہلے وہ ہمیں گولی ماردیں گے کیونکہ ہم ان کے چہرے دیکھ چکے ہوں گے۔ کوئی وزیراعظم کو مارنے کے بعد عینی شاہدوں کو زندہ کیوں چھوڑے گا۔ اور ہمارے کتے کا کیا ہوگا۔ میری بیوی نے اداس ہو کر پوچھا۔ کتے کو زندہ چھوڑ دیں گے میں نے بیوی کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔

بےنظیر کی دوسری حکومت پہلی حکومت سے بھی زیادہ ہچکولے لے رہی تھی۔ مسٹر ٹین پرسنٹ کے لطیفے گھس پٹ چکے تھے اور بے نظیر بھٹو نے اپنی حکومت چلانے کے لیے جادو ٹونے کا سہارا بھی ڈھونڈنا شروع کر دیا تھا۔ اُس کی تسبیح گھومتی رہتی تھی اور کالے بکرے ہر موقع پر صدقے کے لیے تیار رکھے جاتے۔

1995 میں بےنظیر بھٹو کے قاتل میرے فلیٹ پر نہیں آئے۔ لیکن بلاول ہاؤس سے تھوڑے فاصلے پر پہلے اُن کے بھائی مرتضیٰ بھٹو قتل ہوئے پھر بے نظیر بھٹو کی حکومت گئی۔

اگلے دو سال کے اندر اندر ہم دونوں لندن پہنچ گئے۔ بے نظیر نوکری سے نکالے جانے کے بعد اور میں ایک نئی نوکری ملنے کی وجہ سے۔ وہ بعض دفعہ بُش ہاؤس انٹرویو دینے آتیں۔ ہم بعض دفعہ ان کی پریس کانفرنس میں جاتے۔ ہمارے درمیان پرانے ہمسائیوں کا کوئی تعلق نہیں تھا لیکن ایک بات مشترک تھی۔ ہم دونوں ہر سال یہ دھمکی دیتے تھے کہ ہم واپس پاکستان جا رہے ہیں۔

بے نظیر نے جب گذشتہ سال (2007) پاکستان آنے کا ارادہ کیا تو میں لندن میں ان کی آخری پریس کانفرنس پر گیا۔ یہ پریس کانفرنس ان کی سکیورٹی کے انچارج رحمان ملک کے فلیٹ پر ہو رہی تھی (رحمان ملک آج کل پاکستان کی سکیورٹی کے ساتھ بھی وہی کھلواڑ کر رہے ہیں جو انہوں نے بے نظیر کی سکیورٹی کے ساتھ کیا) وہاں پر ایک سو سے زیادہ صحافی تھے۔ صحافیوں کے سوالوں میں اور بےنظیر کے جوابوں میں کوئی نئی بات نہیں تھی۔ لیکن کانفرنس کے آخر میں لگا کہ وہ دل کی بات کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں میرا باپ مارا گیا، میرا بھائی مارا گیا۔ ہزاروں پاکستانی شہری مارے جارہے ہیں ہمیں کسی طرح سے اس لہر کو روکنا ہے اور اسے روکنے کے لیے مجھے جو بھی کرنا پڑے میں کروں گی۔ میں لندن میں ہی رہا وہ پاکستان آئیں۔ ایک بار بچ گئیں دوسری بار ان کے قاتل ان تک پہنچنے میں کامیاب رہے اور جائے وقوعہ سے شہادتیں غائب کرنے والے بھی انتہائی مستعد ثابت ہوئے۔

اب میں بھی کراچی میں ہوں۔ کبھی بلاول ہاؤس والی سڑک سے گزرتا ہوں تو اپنے پرانے فلیٹ کی بالکونی پر نظر ڈالتا ہوں پھر بلاول ہاؤس کے اردگرد پھیلتا ہوا حفاظتی حصار دیکھتا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ بے نظیر کے قاتل میرے فلیٹ پر تو نہیں آئے لیکن جب آئے تو یوں آئے کہ پوری قوم کے ہاتھ پشت پر باندھ دیے، آنکھوں پر پٹی باندھی اور جاتے ہوئے گن پوائنٹ پر ہم سے یہ وعدہ لے کر گئے کہ ہم اس کے قاتلوں کا نام کبھی اپنے ہونٹوں پر نہیں لائیں گے۔
26 دسمبر 2008


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).