گلگت بلتستان احتجاج۔ ہوش سے کام لیا جائے


موجودہ حکومت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کو بات سو پیاز کھانے کے بعد سو جوتے کھا کر ہی سمجھ آتی ہے۔ بات جب شروع ہو تی ہے تو اس کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے مذاق میں ٹالنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کے لئے مزاحیہ قوالوں کی ایک ٹولی دانیالوں، نہالوں اور طلالوں کی سامنے آتی ہے جس کے ہمنوا ترنم میں ایک ہی راگ الاپتے ہیں جس کےسر تال نہ خود سے ملتے ہیں نہ دوسروں سے۔ جب دباؤ بڑھ جاتا ہے تومذاحیہ قوالوں کی جگہ ایک اور ٹولی آتی ہے جو سنجیدہ ہوتے ہوئے بھی سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی اور آخر میں سو جوتے کھاکر ہی ٹلتی ہے۔

گلگت بلتستان میں فنکاری سے انتخابات جیت جانے کے بعد مسلم لیگ(ن) کو حکومت بنانے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔ مسلم لیگ (ن) گلگت بلتستان میں اپنے ووٹ جمع کرکے انتخابات نہیں جیتی بلکہ اس نے مخالف ووٹ کو تقسیم کرکے یہ فنکاری دکھائی ہے۔ ایک فرقے کے مذہبی راہنماؤں نے اس معاملے میں تخت لاہور کی بھر پور مدد کی اور اپنی بساط ہمیشہ کے لئے لپیٹ کر مسلم لیگ کو بلا شرکت غیرے حکومت بنانے کا موقع فراہم کر دیا۔

حکومت بنانے کے بعد حسب روایت مسلم لیگ (ن) والےبھی بلدیاتی انتخابات سے کنی کترانے لگے، چونکہ پاکستان کے قوانین کا حسب ضرورت ہی گلگت بلتستان میں نفاذ ہوتا ہے اور یہ خطہ عدالتوں کا بھی دائرہ اختیار میں نہیں آتا اس لئے سپریم کورٹ کے احکامات پر پورے ملک میں بلدیاتی انتخابات ہونے کے باوجود گلگت بلتستان میں نہ ہوسکے۔ بلدیاتی حکومتوں کے قیام کے لئے اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے یو این ڈی پی کے تعاون سے مقامی غیر سرکاری ادارہ گلگت بلتستان پالیسی انسٹیٹیوٹ کے تیار کردہ ایک قانونی مسودے کی منظوری پیپلز پارٹی کی اکثریت والی سابقہ قانون ساز اسمبلی نے دی تھی جس پر گورنر کے دستخطوں کے بعد عمل ہونا تھا، مگر التوا کا شکار ہوا۔ بہانہ یہ تھا کہ اس کو گیزٹ آف پاکستان میں شائع کرنے کے بعد ہی عمل درآمد ہوگا اور ایسا کرنے کے لئے پرنٹنگ پریس کے پاس فرصت نہیں ہے۔ حالانکہ اس کے بعد کئی نوٹیفیکیشن گیزٹ میں شائع ہوئے مگر اس قانونی مسودے کی باری نہ آسکی۔

مسلم لیگ کی حکومت نے بلدیاتی حکومتوں کے کڑوے کو تھو تھو کرنے کے بعد میٹھا ہپ ہپ کرنے کے لئے اس مسودے کے اندر سے بلدیاتی ٹیکس کو نافذ کرنا شروع کردیا۔ لوگوں کو جب اپنی زمین پر بغیر ٹیکس دیے مکان بنانے کے جرم میں جرمانے ہونے لگے اور غریب لوگوں کی زرعی پیداوار پر ٹیکس کا نفاذ ہوا تو بے چینی بڑھنے لگی۔

پیپلز پارٹی کی حکومت نے جاتے جاتے انکم ٹیکس کے گلگت بلتستان میں نفاذ کا حکم نامہ جاری کیا تھا جس پر مسلم لیگ نے بلدیاتی ٹیکس کے بعد اپنی آمدنی بڑھانے کے لئے عمل درآمد شروع کردیا۔ انکم ٹیکس کے نفاذ سے عام لوگوں کے علاوہ تاجر اور ملازمین سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور اس کی مخالفت کرنے لگے۔ تاجروں اور عوام پر مشتمل ایک ایکشن کمیٹی بنادی گئی جس نے گلگت بلتستان کے دس اضلاع میں رابطوں کے بعد پہیہ جام ہڑتال کی کال دی جو انتہائی کامیاب ہوئی۔ مسلم لیگ کی حکومت نے ہڑتال سے گھبرا کر بلدیاتی ٹیکس کو ختم کرنے کا اعلان کیا لیکن انکم ٹیکس کے معاملے پر اپنا راگ الاپنا بند نہیں کیا۔ اس دوران ہزہائینس پرنس کریم آغا خان کے گلگت بلتستان کے دورے کے شیڈول کا اعلان ہوا تو تاجروں اور عوامی ایکشن کمیٹی نے کئی دنوں سے جاری اپنی شٹر ڈاون اور پہیہ جام ہڑتال کو موخر کردیا۔ ایکش کمیٹی اور انجمن تاجران کی اپنے علاقے میں آنے والے مہمان کی آمد پر خیر سگالی کے جذبے کو مسلم لیگ کی حکومت نے اپنی فتح قرار دیتے ہوئے ان کے ساتھ مزید مذاکرات اور معاملے کو سلجھانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

پرنس کریم آغا خان کے دورے کے بعد عوامی ایکش کمیٹی اور انجمن تاجران نے انکم ٹیکس کے خلاف اپنی تحریک کو پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ وہیں سے دوبارہ شروع کیا جہاں پر موخر کر دی گئی تھی۔ ان دنوں شٹر ڈاون اور پہیہ جام کی کال پر گلگت بلتستان کے دس اضلاع میں نہ صرف ٹرانسپورٹ اور کاروبار بند ہے بلکہ ہر شہر اور قصبے میں دسمبر کی خون جما دینے والی سردی میں بھی لوگوں کے دھرنے بھی جاری ہیں۔ سکردو سے ہزاروں لوگوں کا قافلہ گلگت کی طرف رواں ہے جہاں پہلے سے موجود لوگوں کے علاوہ دیامر، استور، ہنزہ، نگر اور غذر سے آنے والے قافلے اس میں شامل ہوں گے اور اپنے مطالبات کی منظوری تک وہیں بیٹھے رہیں گے۔

گلگت بلتستان میں ٹیکس کے نفاذ کی مخالفت عمومی طور پر اس بنیاد پر کی جاتی ہے کہ یہ علاقہ پاکستان کےآئینی حدود میں نہیں آتا اور یہاں کے لوگوں کی پاکستان کے پارلیمان میں نمائندگی نہیں اس لئے ٹیکس کا جواز نہیں۔ چونکہ بغیر نمائندگی کے ٹیکس کے نفاذ کی مخالفت ہی 1776 میں امریکہ کی برطانیہ سے آزادی کی بنیاد بنی تھی جس میں ٹیکس دھندگان کی نمائندگی کو مسلمہ حقیقت قرار دیا گیا تھا۔ اس امر کو مدنظر رکھ کر گلگت بلتستان کے لوگوں کا کہنا ہے کہ چونکہ پاکستان کے کے قانون ساز اداروں میں ان کی نمائندگی نہیں تو ان پر ٹیکس بھی لاگو نہیں ہوسکتا۔

گلگت بلتستان سیلف گورننس آرڈر 2009 کے صدارتی حکم نامے میں یہاں قانون ساز ساز اسمبلی کے علاوہ وزیر اعظم پاکستان کی ماتحت ایک گلگت بلتستان کونسل بھی تشکیل دی گئی ہے۔ ٹیکس دھندگان کی نمائندگی کی شرط کو پوری کرنے کے لئے انکم ٹیکس کا نفاذ بھی گلگت بلتستان کونسل کے ذریعے کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ چونکہ گلگت بلتستان کونسل کی تشکیل کے لئے چھے ارکان کا انتخاب براہ راست انتخابات کے بجائے قانون ساز اسمبلی کے ممبران کرتے ہیں اور باقی چھے وزیر اعظم کی صوابدید پر نامزد ہوتے ہیں اس لئے اس کونسل میں ایسی نمائندگی کو گلگت بلتستان کے عوام اپنی حق تلفی سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کو ٹیکس کے نفاذ کے لئے جواز بنانے کو نا انصافی سمجھ کر قبول کرنے کو تیار نہیں۔ لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ انکم ٹیکس کا نفاذ چونکہ پاکستان کے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ذریعے ہوا ہے تو اس کے لئے نمائندگی کی شرط بھی پاکستان کے قانون ساز اداروں میں ہی قابل قبول ہے نہ کہ ملک کے آئین سے باہر کسی ایوان میں۔

پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہ داری کا داخلی راستہ ہونے کہ بنا پر گلگت بلتستان پورے ملک کی ترقی میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے مگر سی پیک میں اعلان کردہ منصوبوں میں سے کوئی ایک بھی یہاں نہیں۔ پاک چین تجارتی محصولات سے ہونے والی آمدنی کے علاوہ سیاحت، جنگلات اور معدنیات کی آمدن بھی براہ راست وفاقی حکومت وصول کرتی ہے جس میں سے گلگت بلتستان کو کوئی حصہ ادا نہیں کیا جاتا۔ اب دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے بعد اس سے ہونے والی آمدنی میں بھی گلگت بلتستان کے حصے کا کوئی ذکر نہیں جس کی وجہ سے یہاں اس معاملے پر سخت بے چینی پائی جاتی ہے۔

پاکستان میں وفاقی اکائیوں کے درمیان محصولات اور آمدنی کی تقسیم کے لئے ایک آئینی ادارہ موجود ہے جس کو کونسل آف کامن انٹرسٹ یا مشترکہ مفادات کونسل کہا جاتا ہے۔ اس آئینی ادارے میں ہر صوبے کی نمائندگی ہے اور یہاں پر تمام صوبوں کے بیچ معاملات طے پا جاتے ہیں۔ اس ادارے میں چونکہ گلگت بلتستان کی نمائندگی نہیں ہے اس لئے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان پر حکومت پاکستان کی طرف سے کسی قسم کا ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔

گلگت بلتستان میں اختیارات کے نام پر بے اختیار ادارے بنانے، چند لوگوں کو مراعات دینے یا کاغذی منصوبے بنا کر عام لوگوں کو بیوقوف بنانے کی کوششوں سے یہاں پر رہنے والوں کی داد رسی ممکن نہیں۔ مستقبل میں پاکستان اور چین کی اقتصادی راہ داری کے علاوہ اس ملک کی تونائی اور آبی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے دیامر بھا شا ڈیم سمیت کئی اہم منصوبوں کا دارومدار گلگت بلتستان پر ہے۔ اگر آج عوام کے بنیادی مسائل پر توجہ نہیں دی گئی اور معاملات مذاکرات کی میز پر حل نہیں کیے گئے تو وقت کے ساتھ پیچیدیاں اور بڑھ جائیں گی اور ہم پھر سے ایک نادیدہ دشمن کی سازشوں کو دہائی دیتے رہ جائیں گے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan