بے نظیر سے میری آخری ملاقات


2007 کے نومبر کی بات ہے، مشرف کا دوسرا مارشل لاء چل رہا تھا اور وکلا تحریک زوروں پر تھی، شام چھ یا سات بجے کا وقت ہو گا میں اپنے گلبرگ میں واقع دفتر میں کام سمیٹ کر گھر جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ محبوب صاحب کی کال آئی۔ بولے بےنظیر سے ملنا ہے؟ مجھے یقین تو نہ آیا لیکن فورا کہا جی بالکل۔ کہنے لگے شام آٹھ بجے عاصمہ جہانگیر کے گھر آ جاؤ۔ آٹھ بجے سے دس پندرہ منٹ پہلے ہی وہاں پہنچ گیا۔ اور بھی کچھ لوگ جنھیں ان دنوں سول سوسائٹی کے طور پر جانا جاتا تھا وہاں موجود تھے۔ سب کو تو میں نہیں جانتا تھا لیکن حسین نقی، مدیحہ گوہر، رحیم، رابعہ باجوہ اور پروفیسر قزلباش سمیت چند ایک دیگر کے ساتھ میری شناسائی تھی۔

آٹھ بج کر دس منٹ پرمحترمہ تشریف لائیں۔ ان کے ہمراہ ناہید خان اور شیری رحمان تھیں۔ پتہ چلا کہ لطیف کھوسہ کے گھر پچھلے کچھ دن نظر بند رہنے کے بعد رہا ہونے پر سیدھی یہیں آئیں ہیں۔ بات چیت کے آغاز میں ہی محترمہ نے سب کو اعتماد میں لینے کی کوشش شروع کر دی کہ ہمیں چاہیے کہ آئین میں انسانی حقوق اور سیاسی اصلاحات سے متعلق جن ترامیم کی سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں مطالبہ کرتی رہتی ہیں انہیں مشرف پر دباؤ ڈال کر پی سی او کے ذریعے آئین میں شامل کروا لیا جائے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ اس طرح ایک طرف تو سیاستدانوں کے احتلافات کی وجہ سے جو ترامیم ممکن نہیں ہو پاتیں وہ آئین میں شامل ہو جائیں گی اور دوسری طرف ہر مارشل لاء کے بر عکس اس پی سی او کے ذریعے آئین کا حلیہ نہیں بگڑے گا۔

ان دنوں چونکہ این آر او اور مشرف سے ڈیل کا شور تھا لہذا محترمہ کو خاصے تندوتیز سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ زیادہ تر بات چیت انگریزی میں ہی ہوتی رہی۔ محترمہ اپنے جوابات میں بہت کلیئر تھیں۔ لگتا یہ تھا کہ محترمہ جذباتی باتوں میں الجھنے کی بجائے جمہوریت کی بحالی اور دوام کے لئے زمینی حقائق اور پاکستان کی سیاسی تاریخ کو مدنظر رکھ کر ہی آگے بڑھنا چاہتی تھیں۔ وہ بار بار اسے transition towards democracy کا نام دیتیں۔

ایک موقع پر حسین نقی کو تائید میں سر ہلاتے دیکھا تو بات بیچ میں چھوڑ کر بولیں شکر ہے کہ نقی صاحب کو کم از کم میری اس بات سے تو اتفاق ہے۔ کسی نے پوچھا کہ آپ کیوں پھنسے ہوے مشرف کو سہارا دے رہی ہیں تو محترمہ نے سہارا دینے کو تو تسلیم نہ کیا لیکن جوابا پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں کہ مشرف کی جگہ پر جنرل یحیی کی طرح کا کوئی جانشین حکومت سنبھال لے۔ پھر کسی اور نے سوال داغا کہ جنرل یحیی کی طرح کا جانشین ہمیشہ کمزور ہوتا ہے تو محترمہ نے اسے تاریخ کے مطالعہ کا مشورہ دینے کے ساتھ اس بات کی نفی کی کہ یحیی کمزور جانشین تھا۔

کسی نے محترمہ کے پاکستان میں شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کے موقف پر کومنٹ چاہا تو جواب ملا کہ بموں کے جواب میں پھول تو نہیں پیش کیے جاتے۔ کسی کو اس بات پر بھی اعتراض تھا کہ محترمہ نے امیر المومینین بننے کی کوشش کرنے والے نوازشریف کے ساتھ کیوں ہاتھ ملا رکھا ہے۔ محترمہ کا کہنا تھا کہ وہ نوازشریف سے جلا وطنی کے دوران کافی عرصہ سے رابطہ میں ہیں یہاں تک کہ لطیف کھوسہ کے گھر نظربندی کے دوران بھی ان کی ٹیلی فون پر نوازشریف کے ساتھ طویل گفتگو رہی ہے (نوازشریف اس وقت ابھی جلا وطن ہی تھے) محترمہ کا خیال یہ تھا کہ نوازشریف اب بدل چکے ہیں اور جمہوریت کی بحالی اور نظام میں اصلاحات کے حوالے سے سنجیدہ ہیں۔

اسی دوران جیو ٹی وی کا نمائندہ اور کیمرہ مین اندر آے اور محترمہ سے درخواست کی جیو کو آف ائیر کیا جا رہا ہے اس پر محترمہ کچھ کومنٹ کر دیں۔ محترمہ نے استفسار کیا کہ اور کس لیڈر نے کومنٹ کیاہے۔ جواب ملا ابھی کسی نے نہیں کیا تو محترمہ نے یہ کہتے ہوے کومنٹ کرنے سے انکار کر دیا کہ I don’t want to be the first one to comment on this سوال پوچھنے کی اپنی باری پر میں نے دریافت کیا کہ مطلوبہ ترامیم کو پی سی او کے ذریعے آئین میں شامل کروانے سے مشرف کے اس موقف کو تقویت نہیں ملے گی کہ پاکستان میں جمہوریت کےڈلیور کرنے کے لئے ساز گار ماحول نہیں۔ اس کے جواب میں محترمہ نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں ہر پی سی او کی بعد میں پارلیمنٹ نے توثیق ہی کی ہے۔ جب توثیق ہی ہونی ہوتی ہے تو کم از کم اس کو اچھائی کے لئے ہی استعمال کر لیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).