ہولی: درد اور خوشی کے آئینے میں


ہولی موسم بہار میں منایا جانے  والا ہندو مت کا مقدس مذہبی اور عوامی تہوار ہے۔ یہ پھاگن کے مہینے (مارچ-اپریل) میں چاند کی پندرھویں تاریخ کو منایا جاتا ہے۔اس دن ہندو مت کے ماننے والے ایک دوسرے پر رنگ پھینک کر محظوظ ہوتے ہیں، گھروں کے آنگن کو رنگوں سے نقشین کرتے ہیں اور بہار کو خوش آمدید کرتے ہیں ۔

آج ہولی پر کچھ لکھنے سے پہلے کسی شاعر کے یہ الفاظ بار باریاد آ رہے ہیں کہ

لائے اس بٰت کو التجا کر کے

کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے

جی ہاں! کیوںکہ اس بار کی  ہولی ہر سال سے اس لیے بھی مختلف ہے کہ اس بار حکومت وقت نے اس کو قومی تہوار قرار دیا ہے، 70 سال بعد بہرحال یہ کوشش کامیاب ہو ہی گئی۔ لوگوں کی التجا سن ہی لی گئی اور پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کو پاکستان کے آئین(سماجی معاہدے) کی ایک اور کڑی سے جوڑا گیا۔

ویسے تو ہولی کا تہوار پوری دینا میں موسم بہار کی آمد کی نوید کےطور پر منایا جاتا رہا ہے، برصغیر میں مذہبی عقیدت سے اور ترقی پسند لوگوں کے لیے یہ ایک ثقافتی تہوار ہے۔ اگر اس کو منطق کی عینک لگا کر بھی دیکھا جائے تو سچ میں ہولی اس خطے کا ثقافتی تہوار ہے۔ ہندو مت کی تاریخ سے مورخین نے یہ دلائل بھی دیئے ہیں کہ ہولی کی شروعات ملتان سے ہوئی، اس کے شواہد ملتان کے پرہلاد مندر سے ملتے ہیں جو کہ اس وقت خستہ حالی میں آخری سانسیں لے رہا ہے، سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کو وہ پرانا پرھلاد مندر اوقاف والوں نے کچھ نائیوں اور کیٹرنگ والوں کو لیز پر دے دیا ہے۔ جہاں یہ حال اپنی تاریخی ورثے کے ساتھ کیا جائے، اور ہر اس ورثے کو باہر کے حملہ آوروں کی ثقافت کا لبادا اوڑھا کر فخر کیا جائے، جہاں رام باغ کو آرام باغ، امر کوٹ کو عمرکوٹ، کرشن نگر کو اسلام پورہ اور نیروں کوٹ کو حیدرآباد کیا جائے ، جہاں امن سے رہنے والے کو ڈرپوک اور غلام کہاجائے، اور ہر حملہ آور کو ہیرو بنا کر پیش کیا جائے ایسے میں بھلا لوگ کس طرح اپنے مذہبی اور ثقافتی تہوار منا سکتے ہیں!

 بہرحال ہولی تو پوری دینا کے لیے رنگوں کا تہوار ہے،اب ہولی سندھ، ھند، برصغیر کی سرحدیں پار کر کے امریکا، یورپ سے ہوتی ہوئی آسٹریلیا کے گوروں تک پہنچ گئی ہے، مختلف کمپنیاں اسے اپنے ورکرز کے ساتھ ایک جشن کے طور پر مناتے ہیں!  مگر پاکستان میں بسنے والے ہر ہندو لیے یہ عذاب سے کم نہیں رہی، جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے میں کوئی بھی ہولی خوشی کےطور نہیں منائی، ہر سال سندھ میں ہولی پر کہیں نہ کہیں توہیں مذہب کے فتوے لگتے رہیں ہیں، مندر توڑے گئے ہیں، یا تو لوگوں کو مارا گیا ہے، 2014 میں بھی میرے گاؤں کے کچھ بچوں پر توہیں مذہب لگ چکی ہے۔۔۔۔۔۔!

مزے کی بات تو یہ ہے کہ ھم اتنے منافق ہیں کہ ہم کافروں کی دی ہوئی امداد اور بھیک تو مزے سے کھا لیتے ہیں مگر کسی کا تہوار منانے یا خوشیوں میں شریک ہونے سے ہمارے ایمان ڈگمگا جاتے ہیں! جہاں مذاہب امن کا درس دیتے ہیں وہیں انہیں مذاہب کو ماننے والے مذاہب کی بنیادی تعلیمات کی دھجیاں اڑاتے ہیں، محض اپنی ذاتی دشمنیاں پالنے کے لیے۔

اس وقت میں ایک اور وضاحت کرتا چلوں کہ ہندوازم کسی مذہب یا عقیدے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک علائقائی پہچان ہے، باقی قدیم ہند میں رہنے والے لوگوں کو ھندو کہا جاتا رہا، جس طرح اب ریاستی لیول پر سندھی، پنجابی، بلوچ اور پختون کی پہچان ہیں، باقی ہندو کو اگرزیادہ باریکی سے دیکھا جائے تو یہ تہذیب کا نام ہے جس میں اسلام سے قبل، جین مت، بدھ مت، سناتن دھرم، اور سکھ مت کے مذہبی عقائد کے لوگ تھے۔ جو تہذیبی، ثقافتی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوے ہیں! آج بھی برصغیر کے مختلف لوگوں میں مذھبی عقائد تو مختلف ہیں، مگر کافی ساری ثقافتی چیزیں ایک ہی ہیں! ہولی کو تاریخ میں مذہب کے ساتھ جوڑنا ایک الگ بات ہے مگر جب ہولی کی شروعات ہوئی تو اس وقت ہندوازم صرف مذہبی عقیدہ نہیں تھا بلکہ ایک پوری تہذیب کا حصہ تھا۔ میرا یہ کامل یقین ہے کہ ثقافت بہت بڑی اور پرانی ہے اور مذاہب ان ثفاقتوں کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں، آپ تمام مذاہب کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، مذہب کی تاریخ انسان کی تاریخ سے پرانی نہیں ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے جو بھی تہوار شخصیات کے علاوہ کسی رسم، اور موسم کی آمد کے لیے منائے جاتے ہیں وہ تہوار اور دن کبھی بھی کسی ایک مذہب کا نہیں ہوسکتا۔ اس لیے میری نظر میں ہولی ایک علاقائی اور ثقافتی تہوار ہے، رنگوں سے کھیلنا مطلب ہم خوشیوں کو خوش آمدید کھنا۔ اور خوشی اور غم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، ہاں مگر انسانوں سے ازلی رشتا ضرور ہوتا ہے۔

بہرحال ریاستی طور پر ہولی کی چھٹی کرنے کی منظوری دینا اچھی پیش رفت ہے، مگر اس کے ساتھ اس پر عمل کروانا بھی حکومت کے ساتھ ساتھ نوکرشاہی کی بھی ذمے داری ہے، اس امر میں سندھ حکومت کا فیصلہ باعث فخر ہے جس نے ہولی کی اس تعطیل پر عمل بھی کروایا ہے۔

گو کہ سندھ بشمول پاکستان میں بسنے والی تمام مذہبی اقلیتوں سمیت ہندو برادری بھی پچھلی تین دہائیوں سے خوف و ہراس کا شکار ہیں، 2015 کی ایک رپورٹ کے مطابق سندھ میں 250 سے زیادہ ہندو لڑکیوں کا جبری مذہب تبدیل کرایا گیا، 30 سے زائد مندر توڑے گئے، بدین میں بھورو بھیل کی قبر کھود کر اس کی لاش کی بے حرمتی کی گئی، کافی ہندو تاجروں کو اغوا براۓ تاوان کیا گیا، ہولی اور دیگر مذہبی تہوار منانے پر توہین رسالت کے جھوٹے مقدمات درج کیے گئے، اس ڈر کی وجہ سے سندہ کے متعدد خاندان انڈیا جانے پر مجبور ہوئے۔

کتنی عجیب بات ہےکہ صرف مذہب کے نام پر اس ہی دھرتی کے لوگوں کو اپنی دھرتی ماں سے بے دخل کر دیا جاتا ہے اور وہ بھی اپنے ہی لوگوں کی جانب سے، مگر کسی کے سر سے کوئی جوں تک نہیں رینگتی۔ سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمیں ہماری تاریخ بھی غلط پڑھائی جا رہی ہے، پتہ نہیں نصابی کتابوں میں ہماری تاریخ 704 یا پھر 1947 سے کیوں شروع ہوتی ہے، حالانکہ مہرگڑہ، موئن جو دڑو اور انڈس سولازیشن کی تاریخ تو دس ہزار سال پرانی ہے، ہمیں کیوں بابا بھلے شاہ، بابا فرید، شاہ عبدالطیف بھٹائی، سچل کی تعلیمات سے دور رکھ کر صرف حملہ آوروں کی تاریخ پڑھائی جاتی رہی ہے۔ اور ان پر فخر کرنا سکھایا جاتا ہے، شاید یہی وجہ ہے ہمیں پچھلی دو دہائیوں سے انتہاپسندی، دھشت گردی ہی نصیب ہوئی۔ مجھے لگتا ہے اتنا کچھ بھگتنے ک بعد اب لوگوں کو سمجھ  آ رہا ہے کہ اس خطے میں جو چیز ہمیں ایک دوسرے سے جوڑتی ہے وہ ہے ثقافت، تہذیب، اور یہاں کا صوفی ازم۔ شاید اس سال کی اقلیتوں کے لیے پیش رفت بھی اسی بات کی ایک کڑی ہے۔

امید کرتا ہوں کہ اس سال ہولی ہر زندگی کو رنگین بنایے، اس ملک میں ہمیشہ ہولی خوشیوں کے رنگ لاتی رہے، ریاست بنا کسی امتیاز ے تمام شہریوں کو برابری کی بنیاد پر تحفظ فراہم کرے اور ثقافتی سرگرمیاں اور تیز کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments