نواز شریف کا دکھ اور پاکستانی سیاست کا چہرہ


پاکستانی سیاسی تاریخ قابل فخر نہیں ہے، جمہوریت کے نام پر بے شک عوام کے ووٹ اور سیاسی شعور پر ڈاکہ ڈالا گیا۔ اس ڈاکہ زنی میں آمریت اور جمہوری پارٹیاں برابر کی حصہ دار ہیں۔ برادری ازم، لسانیت، علاقیت اور مذہب کے نام پر عوام کے جذبات کا استحصال کرکے انہیں نظریئے کی بجائے مفادات کے تحت ووٹ ڈالنے کے لئے اکساتے رہنا، یہ سب ہماری سیاسی جماعتوں کی تاریخ ہے۔ اسی طرح پلی الیکشن ریگنگ، دھاندلی عوام کے سیاسی شعور اور ووٹ کے حق پر ڈاکہ ہی تو ہے، یہ کام بے شک سیاسی پارٹیاں اپنے کارندوں کے ذریعے انجام دیتی ہیں، چھانگا مانگا کی سیاست کا داغ پاکستان کے سیاسی افق سے کبھی نہ مٹ پائے گا۔ مذہب کے نام پر سیاسی ووٹ اور مخالف سیاسی جماعتوں کے لئے فتوے ابھی کل کی بات ہے۔ اپنے مخالفین کی کردار کشی اور ان کے خلاف سیاسی بنیادوں پر مقدمات قائم کرنا بھی پاکستانی سیاست کا ایک سیاہ باب موجود ہے۔ اسی طرح آمروں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے جاگیردار، سرمایہ دار سیاستدانوں اور ماہرین قانون کی قانونی موشگافیوں سے فائدہ اٹھایا۔ تاریخ سے کسی کی رشتہ داری نہیں ہوتی۔ بس غیر جانبداری سے چیزوں کو دیکھنا پڑتا ہے۔ آمروں کا اقتدار پہ قابض ہونا بھی بنیادی طور پہ سیاستدانوں کی غلط پالیسیوں اور باہمی ناچاقیوں کا نتیجہ ہی تھا۔ ضیاء الحق کے اقتدار پہ قابض ہونے کے پیچھے وہ محرکات تھے، جنھیں تحریک نظام مصطفٰی کہا جاتا ہے۔

اس تحریک کی اٹھان اور اسے مہمیز کرنے میں بے شک عالمی قوتوں نے بھی کردار ادا کیا، مگر ذوالفقار علی بھٹو اور مقامی سیاستدانوں کی غلطیاں بھی بہرحال شامل تھیں۔ پاکستانی سیاسی تاریخ کا یہ دور بہت تکلیف دہ اور کرب ناک ہے۔ بھٹو جیسے عظیم لیڈر کو پھانسی دی گئی۔ جتنی سزا دی گئی، اتنا بھٹو کا قصور نہیں تھا، مگر وہ تحریک نظام مصطفٰی والے اپنی تحریک کو بھول کر بھٹو کی پھانسی پہ راضی ہوگئے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے۔ پاکستانی سیاست میں پیپلز پارٹی کا کردار بڑا توانا اور مزاحمتی رہا، اب مگر نہیں ہے۔ جارحانہ سیاست اب عمران خان کی پہچان ہوئی۔ اگرچہ خان کی زبان پہ مجھے اور کئی دیگر افراد کو تحفظات ہیں۔ یہ رویہ کسی بھی طور مہذب سیاسی رویہ نہیں۔ مگر کردار کشی کے اس رویے کی بنیاد بھی تو نون لیگ والوں نے ڈالی ہوئی ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور ان کی والدہ کی کردار کشی، محترمہ بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری کو کرپشن کنگ اور مسٹر ٹین پرسنٹ مشہور کرنے کے لئے بھی نون لیگ نے ایک مکمل کمپین چلائی تھی۔ عمران خان اور سیتا وائٹ سکینٖڈل بھی نون لیگ کو بڑا مرغوب رہا اور جمائما پر ٹائلوں کی سمگلنگ کا الزام بھی۔ یہ حقائق ہماری سیاسی تاریخ کے دامن پہ داغ کی طرح موجود ہیں۔

کیا یہ سچ نہیں کہ ایک آڈیو ٹیپ لیک ہوئی تھی، جس میں شہباز شریف صاحب جسٹس (ر) ملک قیوم کو نواز شریف صاحب کی جانب سے ہدایات دے رہے ہیں۔ ججوں سے من پسند فیصلے لینے کی تاریخ رکھنے والے آج اپنے خلاف فیصلہ آنے پر دل گرفتہ ہیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ کی عدالت پہ حملہ کرنے والے پھر سے آتش پا ہیں۔ اگر میڈیا بیدار نہ ہوتا اور سوشل میڈیا کا پہاڑ سامنے نہ آجاتا تو یقین مانیے تاریخ اپنے آپ کو دہراتی۔ ایسا نہ ہوسکا تو اب میاں نواز شریف صاحب نے اداروں کو آڑے ہاتھوں لیا ہوا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی ترقی صرف اور صرف ان کی ذات سے جڑی ہوئی ہے۔ اگر وزیراعظم کی کرسی پہ وہ نہ رہے تو خدانخواستہ پاکستان کی ترقی رک جائے گی، بلکہ وہ تو کہہ رہے ہیں کہ رک گئی ہے۔ ایسا وہ کیوں سوچتے ہیں؟ اس لئے کہ انہوں نے ہمیشہ افراد کی طاقت پہ یقین کیا ہے، کبھی بھی ان کے سیاسی یقین کا محور اداروں کی طاقت نہ رہا۔ نون لیگ سمیت ساری سیاسی پارٹیاں تو اپنی اپنی جماعتوں میں جمہوریت نہ لاسکیں۔ اگرچہ جماعت اسلامی کو استثنٰی حاصل ہے کہ اس کا انٹرا پارٹی الیکشن بڑا منظم اور جمہوری ہوتا ہے۔ میاں صاحب ہوں یا زرداری صاحب، ان کے نزدیک جمہوریت، اور اہلیت کا مرکز ان کا اپنا خاندان اور اولادیں ہیں۔ عمران خان کے بچے باہر ہیں، یقیناً وہ پاکستانی سیاست میں کردار ادا نہیں کریں گے، مگر جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کے بچے ضرور پی ٹی آئی کے اعلٰی عہدوں پہ آئیں گے۔ یہ سیاسی تاریخ ہے ہمارے ملک کی، اس سے مفر ممکن نہیں ہے۔ میاں صاحب کا یہ کہنا کہ مشرف کو بھی کوئی عدالت سزا دے گی؟ اپنی اصل میں کمزور اور غیر متعلق سوال ہے۔ اگر نون لیگ واقعی سابق آمر پرویز مشرف کو سزا دینے میں سنجیدہ ہوتی تو اس حوالے سے ضرور کردار ادا کرتی۔

اللہ والو، مشرف تو ملک سے باہر بھی اس وقت گئے، جب حکومت نون لیگ کی تھی۔ عوام کے سیاسی شعور کو ورغلانے کے بجائے میاں صاحب ان غلطیوں کی طرف دیکھیں، جو وہ چار عشروں سے بحثیت حکمران کرتے چلے آ رہے ہیں۔ سماج کو انہوں نے اقربا پروری، سفارش، رشوت اور مافیا ازم کی طرف دھکیلنے میں خاص ”محنت“ کی۔ بے شک پیپلز پارٹی بھی یہی کرتی آئی۔ ہاں مشرف کے بعد جب پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو سیاسی مقدمات سے اس پارٹی نے اجتناب کیا۔ آج اگر پاکستانی سماج ہیجان کا شکار ہے، مفلسی نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، انتہا پسندی کے مہیب سائے پھیلے ہوئے ہیں، لاقانونیت اور تھانہ و پٹواری کلچر عام ہے تو اس میں سیاسی جماعتوں کا کردار منفی مگر مرکزی ہے۔ اے کاش، اس مرحلے پر جبکہ داعش جیسی خوفناک دہشت گرد تنظیم نے افغانستان میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، میاں صاحب اپنی ذات کے بجائے ملک کے لئے سوچیں۔ اداروں کو مضبوط کرنے کی بات کریں۔ انہیں تو اپنی ذات اور خاندان کے سوا کوئی نظر ہی نہیں آتا۔ نعرہ لگا دیا کہ ملک کے اگلے وزیراعظم شہباز شریف ہوں گے۔ ارے کیوں؟ موروثی سیاست کا تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ ساری جمہوریت، سارا اقتدار گھوم پھر کر اپنے گھر تک ہی آتا ہے۔ بے شک اس وقت میاں صاحب ہیجان پیدا کرکے عوام کے سیاسی شعور کو ورغلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی نا اہلی کے بعد ہر وہ شخص بھی عمر بھر کے لئے نا اہل ہو جائے، جسے ان سے سیاسی اختلاف ہے۔ تحریک ِعدل کیا ہوگی؟ یہی کہ مجھے کیوں نکالا؟ یہی کہ میرے بعد دیگر سیاستدانوں کو بھی نا اہل قرار دیا جائے۔ یہی کہ عدل وہی ہوگا جو مجھے پسند آئے؟ یہ میاں صاحب کا دکھ ذاتی ہے، جسے وہ عالمگیر بنا کر پیش کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).