خام تیل پر انحصار: کیا ایران کی معیشت ڈوب جائے گی؟


سعودی عرب میں نئے منصوبوں کا مقصد معدنی تیل پر انحصار کم کرنا ہے

حالیہ برسوں میں تیل برآمد کرنے والے ممالک اپنی آمدنی کے نئے ذرائع اپنانے اور تیل پر انحصار کم کرنے کے لیے مختلف منصوبوں پر عمل درامد کر رہے ہیں۔ سعودی عرب کی سیاست اور معاشرت میں تیزی سے آنے والی تبدیلیوں کو بھی اسی پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ سعودی عرب مین عورتوں کی آزادی کے حوالے سے متعدد اقدامات کا حقیقی مقصد آنے والے برسوں میں عورتوں کو معیشت کا فعال حصہ بنانا ہے۔ اسی طرح سنیما اور موسیقی پر پابندیاں کم کرنے کا مقصد انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے لئے راستہ ہموار کرنا ہے۔ سعودی عرب میں گزشتہ کئی دہائیوں سے کام کرنے والے جنوبی ایشیائی باشندوں کی ملازمتیں ختم کی جا رہی ہیں تا کہ مقامی افراد کے لئے روزگار پیدا کیا جا سکے۔ سعودی ولی عہد نے ملک میں کچھ ایسے منطقے قائم کرنے کا اعلان کیا ہے جہاں سعودی عرب کے اسلامی قوانین لاگو نہیں ہوں گے تاکہ کاروباری افراد  اور سیاحوں کو سعودی عرب آنےکی ترغیب دی جا سکے۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں معدنی تیل کے متبادل وسائل دریافت کئے جا رہے ہیں چنانچہ تھوڑے عرصے میں تیل پیدا کرنے والے ملک صرف معدنی تیل کی بنیاد پر اپنی آمدنی، معیشت اور معیار زندگی برقرار نہیں رکھ سکین گے۔ واضح رہے کہ فی کس آمدنی کے اعتبار سے سعودی عرب اس وقت دنیا بھر میں بارہویں نمبر پر ہے۔

ان حالات میں حیران کن طور پر ایران کی معیشت میں خام تیل پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔ ایران کے آئندہ سال کے بجٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی معیشت میں گزشتہ تین برسوں سے بھی زیادہ حد تک تیل پر انحصار کرے گا۔ ایران کے آئندہ برس کے بجٹ کا جائزے لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ 35.9٪ متوقع آمدنی تیل کی فروخت سے حاصل ہو گی۔ واضح رہے کہ موجودہ بجٹ میں تیل سے حاصل آمدنی کا تناسب 35% رہا جب کہ 2015 میں 27.3% اور 2014 میں 35.1% تھا۔

تیل پر یہ بڑھتا ہوا انحصار ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایران کی تیل کی برآمدات کو مسائل اور حجم میں بڑی حد تک کمی کا سامنا ہے۔ گزشتہ ماہ جنوبی کوریا نے ایران سے اپنی تیل کی درآمدات 2016 کے اسی عرصے کے مقابلے میں 25.2% کم کر دی۔

اس سے قبل ایرانی نائب وزیر تیل منی لانڈرنگ کے انسداد کے قانون کے حوالے سے مشکلات اور چین کے ساتھ مالی معاملات میں پریشانیوں کا ذکر کر چکے ہیں۔ ایران میں بعض ذرائع ابلاغ نے تو اس امر کو “ایرانی پیٹروکیمیکلز پر چینی پابندیوں” سے تعبیر کیا ہے کیوں کہ ایران کی پیٹروکیمکل مصنوعات میں 40% سے زیادہ حصّہ چین کو برآمد کیا جاتا ہے۔

ایران میں بے روزگاری پھیل رہی ہے

برطانوی خبر رساں ایجنسی نے رواں برس اپریل میں اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ ایران جوہری معاہدے کے بعد برسوں سے آئل ٹینکروں میں ذخیرہ کیے گئے تیل کو فروخت کرنے میں کامیاب ہو گیا تاہم وہ بینکنگ پابندیوں اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی کمی کے باعث اپنی برآمدات کو بڑھانے میں دشواری کا سامنا کر رہا ہے۔

پابندیوں کے اٹھائے جانے کے بعد ایران نے اپنی تیل کی فروخت کو دوبارہ سے پرانی سطح پر پہنچانے کی سر توڑ کوشش کی اور وہ تمام تر جمع شدہ تیل فروخت کر کے اس سطح کو یومیہ 36 لاکھ بیرل تک لے جانے میں کامیاب ہو گیا۔ تاہم بڑی کمپنیوں اور عالمی بینکوں نے امریکا کی جانب سے عائد کردہ نئی پابندیوں کے اندیشے کے سبب ایران کے ساتھ منصوبوں اور سرمایہ کاری میں شریک ہونے سے اجتناب کیا۔ اس کے نتیجے میں ایران کو عالمی منڈی میں تیل کی برآمدات میں اپنا حصّہ برقرار رکھنا بھی مشکل ہو گیا۔

یاد رہے کہ رواں برس نومبر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی نوعیت کے پہلے فیصلے میں امریکی حکومت کو ایران سے تیل کی خریداری کم کرنے کے اختیارات دینے کا اعلان کیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).