بے نظیر قتل کا معمہ نظام کی پیداوار ہے


پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرمین اور ملک کی دو مرتبہ وزیر اعظم رہنے والی بے نظیر بھٹو کو دہشت گردی کی ایک واردات میں آج سے دس برس قبل لیاقت باغ راولپنڈی میں قتل کردیاگیا تھا۔ اس خود کش دھماکہ میں 24 دیگر افراد بھی جاں بحق ہوئے تھے لیکن اس میں شبہ نہیں ہے کہ یہ حملہ بے نظیر کو قتل کروانے کے لئے کیا گیا تھا۔ اسی لئے خود کش حملہ آور نے دھماکہ کرنے سے پہلے بے نظیر پر گولی چلائی تھی۔ ان کی ہلاکت اسی گولی کی وجہ سے ہوئی تھی۔ ان دس برس کے دوران پانچ برس پیپلز پارٹی کی حکومت بھی رہی لیکن مقدمہ میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی۔ حالانکہ اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے معاملہ کی تہہ تک پہنچنے کے لئے اقوام متحدہ سے بھی اس خود کش حملہ اور بے نظیر قتل کی تحقیقات کروائی تھیں لیکن اس کے باوجود پولیس کسی ایسے شخص کو گرفتار کرنے یا مقدمہ قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی تھی جو اس سانحہ کا اصل ذمہ دار ہو۔

اس سال اگست میں دہشت گردی کی ایک عدالت نے مقدمہ میں ملوث پانچ افراد کو بری کردیا تھا اور سابق صدر پرویز مشرف کو مفرور قرار دیا تھا۔ مفرور قرار دینے کے باوجود عدالت نے پرویز مشرف کے خلاف ان کی غیر حاضری میں مقدمہ چلانے کی کارروائی شروع نہیں کی۔ البتہ دو پولیس افسروں کو طویل المدت سزائیں دی گئی تھیں۔ یہ دونوں افسر اس فیصلہ کے خلاف اپیل کرچکے ہیں اور ضمانت پر رہا ہیں۔ اب پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے بی بی سی کو ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ پرویز مشرف کو ذاتی طور اس قتل کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ کیوں کہ انہوں نے بے نظیر کو ملک واپس آنے سے پہلے فون کرکے دھمکی دی تھی اور اکتوبر 2007 میں بے نظیر کی واپسی پر کراچی میں ان کے جلوس پر خود کش حملہ کے باوجود انہیں مکمل سیکورٹی فراہم کرنے سے گریز کیا تھا۔ بلاول کا کہنا ہے کہ وہ ان ہرکاروں کو اس قتل کا ذمہ دار نہیں سمجھتے جنہوں نے بے نظیر پر حملہ کیا اور انہیں شہید کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

اسی طرح اس سال اگست میں سامنے آنے والے فیصلہ کو بھی وہ انصاف کا خون قرار دیتے ہیں۔ البتہ اس بات کا جواب پیپلز پارٹی کے زعما کبھی نہیں دے سکے کہ پانچ برس تک حکومت میں رہنے کے باوجود پارٹی کی حکومت اکتوبر میں کراچی اور 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں بے نظیر پر جاں لیوا حملوں کی مناسب تفتیش کروانے میں کیوں کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس مقدمہ کا ایک عینی شاہد اور بعد میں مقدمہ کی پیروی کرنے والا استغاثہ کا وکیل یکے بعد دیگرے قتل ہوئے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں کردار اس گتھی کو سلجھانے میں اہم کردار ادا کرسکتے تھے۔ سابق صدر پرویز مشرف اس وقت دوبئی میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ مختلف انٹرویوز میں بے نظیر بھٹو کے قتل میں ملوث ہونے کے الزام کے بارے میں کہتے رہے ہیں کہ انہیں اس الزام پر ہنسی آتی ہے کیوں کہ وہ تو میرے ساتھ سمجھوتہ کے بعد واپس آئی تھیں۔ لیکن پیپلز پارٹی اور بے نظیر کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ ستمبر میں پرویز مشرف نے دوبئی میں بے نظیر کو ٹیلی فون کرکے دھمکی دی تھی کہ اگر مجھ سے تعاون نہ کیا تو پاکستان میں ان کی زندگی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ امریکی مصنف مارک سیگل شہادت دے چکے ہیں کہ وہ اس فون کال کے وقت بے نظیر کے ساتھ تھے اور بے نظیر نے فون پر بات کرنے کے بعد اس بارے میں انہیں بتایا تھا۔ تاہم پرویز مشرف اس فون کال سے انکار کرتے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ انہوں نے اس وقت بے نظیر کو کوئی کال نہیں کی تھی۔ اس کے باوجود وہ بے نظیر قتل کیس سے مفرور رہے ہیں اور عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت نہیں کرسکے۔

بے نظیر بھٹو کے قتل کی دسویں برسی کے موقع پر بی بی سی بات کرتے ہوئے البتہ پرویز مشرف نے یہ اعتراف کیا ہے کہ ان کی حکومت میں (اسٹیبلشمنٹ) شامل بعض شر پسند عناصر اس قتل میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارا معاشرہ مذہبی طور پر بٹا ہؤا ہے۔ ان عناصر کی موجودگی شاید بے نظیر کی موت کا سبب بنی ہو‘۔ بی بی سی کے نمائیندے نے جب ان سے پوچھا کیا شرپسند ریاستی عناصر کی ایسی حرکت کے بارے میں ان کے پاس خصوصی معلومات تھیں تو ان کا کہنا تھا کہ ‘ میرے پاس حقائق تو نہیں ہیں لیکن میرے خیال میں میرا اندازہ کافی حد تک درست ہے ۔ ایسی خاتون جو مغربی ممالک کی جانب مائل ہو، وہ ان عناصر کی نظر میں آسکتی ہے‘۔ پرویز مشرف اگر بے نظیر کے قتل میں براہ راست ملوث نہ بھی ہوں تو بھی ان کا یہ اعتراف ایک فوجی حکومت کی ایک سنگین کوتاہی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ پرویز مشرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے قریبی حلیف ہونے کا سہرا باندھ کر فخر کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اس بیان سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے ہی حکومتی ڈھانچہ میں مذہبی انتہا پسندوں کو کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں تھے۔ انہیں ان کی موجودگی کا اندازہ تھا لیکن وہ مکمل بااختیار صدر اور فوج کے سربراہ ہو نے کے باوجود ان شر پسند عناصر کی روک تھام کرنے میں ناکام رہے تھے۔ اسے پرویز مشرف کی بد نیتی یا ناکامی کوئی بھی نام دیا جا سکتا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے اگرچہ پرویز مشرف پر براہ راست بے نظیر قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ وہ یہ نہیں بتا سکتے اور نہ ہی انہیں ایسی معلومات حاصل ہیں کہ پرویز مشرف نے یہ کام کرنے کے لئے کس طرح اور کن لوگوں کو ہدایات دی تھیں۔ البتہ ان کا یہ کہنا ہے کہ پاکستانی ریاست ابھی تک اتنی مضبوط نہیں ہے کہ وہ ایک سابق آرمی چیف کو ان کے جرائم کی سزا دے سکے۔ بلاول کے اس دعویٰ کا ایک ثبوت پرویز مشرف کا پاکستان سے فرار اور غداری کے مقدمہ سے بچ کر نکلنا بھی ہے۔ وہ پاکستانی سیاست پر میڈیا کے ذریعے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن خود پر عائد الزامات کا کسی عدالت میں سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ بے نظیر سے پہلے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو بھی لیاقت باغ راولپنڈی میں ہی اکتوبر 1951 میں قتل کردیا گیا تھا۔ 66 برس گزرنے کے باوجود اس قتل کے بارے میں بھی کہانیاں ہی موجود ہیں لیکن ذمہ داروں کا تعین نہیں ہو سکا ہے۔ اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ پرویز مشرف جیسے لیڈروں کی نگرانی میں کام کرنے والا ملک کا نظام دراصل اس لاقانونیت کا ذمہ دار ہے۔ اسی لئے نہ جرم کا سراغ ملتا ہے اور نہ ہی مجرم سامنے آتے ہیں۔ لیاقت قتل کیس کی طرح بے نظیر قتل کیس بھی اس وقت تک پہیلی بنا رہے گا جب تک نظام کی گرفت کرنے اور خفیہ ہاتھوں کو اپنی پسند نافذ کرنے سے روکنے کے لئے کوئی قابل عمل طریقہ کار تلاش نہیں کیا جاتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali