تین کام جو عمران خان کو پہلے ہفتے میں کر دینے چاہئیں


معاشی گڑھے سے نکلنے کے لیے تو خیر عمران خان کو کچھ طویل المیعاد منصوبوں پر کام کرنا پڑے گا۔ جن میں سے تین اہم ہیں۔ اول: ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں اضافہ، دوم: درآمدات کے بل میں کمی اور سوم: جن افراد نے گزشتہ عشروں میں قرضے معاف کرائے، (سابق سپیکر فہمیدہ مرزا جیسے با اثر سیاستدان بھی ان میں شامل ہیں) ان سے ان بھاری رقوم کی واپسی۔ مگر تین کام ایسے ہیں جو عمران خان کو حکومت میں آنے کے بعد پہلے ہفتے کے اندر کردینے چاہئیں۔ اول: وزیراعظم ہاؤس کو جو دراصل ایک محل نہیں، محلات کا مجموعہ، فوراً کسی ادارے کے نام وقف کردے۔ یہ تجویز اس کالم نگار نے پرسوں دوپہر کو 92 نیوز چینل پر پیش کی۔ خوشگوار اتفاق یہ ہوا کہ اسی دن شام کی تقریر میں عمران خان نے اسی عزم کا اظہار کیا۔ مگر مسئلہ یہاں اور ہے۔ سکیورٹی کا حصار کھینچنے والوں نے ایک نام نہاد ”ریڈزون‘‘ بنایا ہوا ہے۔

اعتراض یہ کیا جائے گا کہ اگر وزیراعظم ہاؤس کو لائبریری، عجائب گھر یا یونیورسٹی بنایا گیا تو حفاظتی پہلو متاثر ہوں گے۔ اس لیے کہ عوام کی آمدورفت زیادہ ہوگی۔ عوام کی آمدورفت تو اس نام نہاد ریڈ زون میں پہلے ہی زیادہ ہے۔ سپریم کورٹ کے علاوہ تمام وزارتیں یہیں ہیں۔ پورے ملک سے لوگ اپنے کام کروانے کے لیے ان وزارتوں میں آتے ہیں۔ عمران خان کو سکیورٹی کی بنیاد پر کھڑی کی گئی اندیشوں کی ان دیواروں کو گرانا ہوگا۔ وزیراعظم ہاؤس میں ان متعدد وفاقی دفاتر کو بھی منتقل کیا جا سکتا ہے جو اس وقت کرائے کی عمارتوں میں کام کر رہے ہیں اور پورے شہر میں بکھرے پڑے ہیں۔ کروڑوں روپے ہر ماہ حکومت کرائے کی مد میں ادا کر رہی ہے۔

اگر سکیورٹی اہلکاروں کے اٹھائے گئے اعتراضات کو بنیاد بنا کر عمران خان اس عزم سے پیچھے ہٹ گیا تو تضحیک کا نشانہ بننے کے علاوہ یہ عمل رجعت قہقری کا افسوسناک نمونہ ہوگا۔ دوم: پولیس کو سیاسی مداخلت کی غلاظت سے پاک کرنے کا کام عمران خان کو دارالحکومت سے شروع کرنا چاہیے اور فوراً شروع کرنا چاہیے۔ وفاقی دارالحکومت کے آئی جی پولیس کو بلا کر حکم دیا جائے کہ شہر کو چوریوں، ڈاکوں اور ٹریفک لاقانونیت سے پاک کرے۔ اسے یہ یقین دلایا جائے کہ اس کے فرائض منصبی میں مداخلت نہیں ہوگی اور یہ کہ اسے کسی وزیر، ایم این اے یا با اثر فرد کی سفارش پر کان ہرگز نہیں دھرنے ہوں گے۔ وہ اپنے اہلکاروں کی تعیناتیاں اپنی مرضی سے کرنے کا مجاز ہوگا۔

وفاقی دارالحکومت نے وہ دن بھی دیکھے ہیں جب پولیس کا ایک افسر پنجاب کے شہزادے کا قریبی عزیز تھا اور اپنے سینئر افسروں کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ صرف مارچ 2018ء میں بیس کاریں اور اکتیس موٹرسائیکلیں دارالحکومت سے چوری ہوئیں۔ سیف سٹی پراجیکٹ پر اربوں روپے لگ گئے۔ کیمرے نصب کیے گئے مگر چوریاں اور ڈاکے جتنے تھے اتنے ہی رہے۔ ڈاکوؤں کے گروہوں نے سیکٹر بانٹ رکھے ہیں۔ دارالحکومت کی پولیس ہمیشہ پروٹوکول کے عذاب سہتی رہی ہے۔

پولیس کا سربراہ خودمختار ہوگا تو سرطان کی ان سب مکروہ علامتوں کا خاتمہ کرسکے گا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے خیبر پختونخوا میں پولیس کی خودمختاری کا یہ ماڈل چلایا ہے اور اس میں بہت حد تک کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ تیسرا کام اپنے وزیروں، پارٹی کے منتخب نمائندوں اور سینئر افسروں کو یہ حکم دینا ہے کہ وہ اپنے اور اپنے اہل خانہ کے علاج کے لیے وفاقی ہسپتالوں میں جائیں اور پروٹول کے بغیر، کسی ترجیحی سلوک کا انتظام کیے بغیر، عام مریضوں کے ساتھ قطار میں کھڑے ہوں۔ یہ ایک ایسا طلسمی عمل ہوگا جو ان دونوں بڑے ہسپتالوں میں کھل جا سم سم کا سحر آفریں اثر دکھائے گا۔ ہسپتالوں کے سربراہ اس گہری نیند سے ہڑ بڑا کر اٹھ کھڑے ہوں گے جس سے مدتوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ نا اہل اور راشی، کیا اہلکار کیا ڈاکٹر، سب کا صفایا ہو جائے گا۔

عمران خان کو ان خوشامدی جونکوں سے بچنا ہو گا جو ہر حکمران کو چمٹ جاتی ہیں۔ ان گنہگاروں نے ایسے ایسے شرم ناک مناظر دیکھے کہ آنکھیں ڈھانپ لینے کو دل کرتا تھا اور ایسے ایسے فقرے زہر بھرے عمران خان کے خلاف سنے کہ حیرت ہوتی تھی۔ ٹی وی پر ایسے ایسے انٹیلیکچول کم اور انٹا غضیل زیادہ دیکھے جنہیں کوئی جانتا ہی نہیں تھا اور ان کی پہچان ہی پانامہ گیٹ کے دفاع اور عمران خان کی تضحیک و تنقیص سے بنی۔ کہاں وہ وقت کہ عمران خان کی تقریر سن کر، زہر خند سے کہتے تھے کہ تقریر سن کر ایک ہی بات معلوم ہوئی کہ عمران خان کو تقریر کرنا ہی نہیں آتی اور کہاں یہ دن کہ عمران خان کی تقریر کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں۔

آج اچانک ان مرغان بادنما کو یہ بھی معلوم ہو گیا کہ پرویز خٹک چھوٹے گھر میں رہتا تھا، آج ان کی آنکھوں نے یہ بھی دیکھ لیا کہ ڈیرہ اسماعیل خان سے لے کر پشاور تک تجاوزات نہیں ہیں۔ آج انہیں یہ امید بھی لاحق ہوگئی ہے کہ کے پی میں پولیس کا کلچر بدلا ہے تو پنجاب میں بھی تبدیلی آئے گی۔ کل ان کا موقف تھا کہ عمران خان جمہوریت کا دشمن ہے اس لیے کہ وہ پانامہ گیٹ کے مسئلے کو حل نہیں ہونے دیتا اور زندہ رکھنا چاہتا ہے۔ کل جو دانش کے گڑھوں سے حکمت نکال نکال کر پانامہ کیس کے گرد بُنی ہوئی ”سازش‘‘ کو سیخ کباب سے تشبیہہ دیتے تھے کہ گوشت سیخ کے گرد لپٹا ہوتا ہے۔ آج وہ ضمیر کی گٹھڑی سر پر لادے پھر بازار میں نکل آئے ہیں۔

کل وہ عمران خان سے پوچھ رہے تھے کہ آپ ایک مفروضے پر بات کر رہے ہیں کہ جو سامان برآمد ہوا ہے وہ چوری کے پیسوں سے خریدا گیا ہے اور عمران خان انہیں کہہ رہا تھا کہ آپ لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ Beneficiaries کا یہ گروہ پتیلے، دیگچیاں، تھیلے، کشکول اٹھائے عمران خان کے آگے رکوع میں جھکنے کے لیے تیار ہوگا۔ عمران خان کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان لوگوں نے ہوا کا رخ تبدیل ہوتا دیکھتے ہی میاں نوازشریف کو چھوڑ دیا۔ نہ صرف چھوڑ دیا بلکہ ان کے خلاف بولنا شروع ہو گئے۔

خوشامدیوں سے بچنا کامیابی کی اولین شرط ہے۔ ہر حکومت کا ساتھ دینے والے خوشامدیوں اور شعبدہ بازوں کو خاطر میں نہ لانے کے لیے ایک ایسا مزاج چاہیے جسے خوشامد سے نفرت ہو۔ یہ مزاج اگر عمران خان میں نہیں ہے تو پھر اس کے لیے دعا ہی کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ روغن قاز کی شیشیاں اٹھائے، تولیے کاندھوں پر رکھے، نچلی سطح کے یہ سوداگر اپنی خدمات بیچنے کے لیے گلی گلی کوچہ کوچہ آوازیں لگاتے پھر رہے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).