امریکہ میں جنسی ہراسانی


8 اکتوبر 1991

ڈیر مس ہل،
میں ایک سیاہ فام خاتون قانون دان ہوں اور ایک چھوٹی سی فیڈرل ایجنسی میں ایک اٹارنی ایڈوائزر کے طور پر کام کررہی ہوں۔ میں‌ قانون کے پیشے اور حکومت کی مشینری سے بخوبی واقف ہوں۔
میں‌ اس لیے آپ کو خط لکھ رہی ہوں کیونکہ آپ کی کہانی سن کر میں‌ رو پڑی۔ اس کہانی سے میری ذاتی زندگی میں‌ گزرے ہوئے نسلی اور جنسی ہراسانی کے واقعات میرے ذہن میں‌ تازہ ہوگئے۔ ان سے مجھے وہ بھی تمام واقعات یاد آگئے جو میرے ساتھ کام کرنے اور پڑھنے والی خواتین نے مجھے بتائے تھے۔

میں‌ بس یہ چاہتی ہوں‌ کہ آپ کو پتا ہو کہ میری دعائیں اور سپورٹ آپ کے ساتھ ہیں۔ میں اس خوف اور تکلیف کو محسوس کرسکتی ہوں جو آپ نے اس جنسی ہراسانی سے محسوس کیا ہوگا۔ میں جانتی ہوں کہ آپ کو کتنی مایوسی ہوئی ہوگی کہ آپ کو شکار بنانے والا حکومت میں‌ ایک طاقت اور سیاہ فام آدمی تھا۔ جس وقت میں ہم نے قانون کے پیشے میں‌ قدم رکھا، سیاہ فام خواتین کے سامنے کوئی راستہ نہیں‌ تھا۔ ”بلیک بالنگ“ اس پیشے میں‌ ایک بہت اصلی خطرہ ہے۔

میں بس یہ کہنا چاہتی ہوں کہ آپ بہادر ہیں۔ میں بس یہ چاہتی ہوں‌ کہ اس مشکل وقت میں جب آپ خود کو کمزور محسوس کریں‌ تو ان تمام سیاہ فام خواتین کی طاقت اپنے اندر محسوس کریں جن کو کبھی سامنے آکر اپنی شکایت پیش کرنے کا موقع نہیں ملا۔ آپ خود کو کبھی اکیلا محسوس نہیں‌ کریں‌ گی۔

فقط : نامعلوم

جب سے وہ سمندری کچھؤے والی وڈیو دیکھی تھی جس میں‌ اسٹرا اس کی ناک میں‌ پھنسی ہوئی تھی اور سائنسدان فورسیپس سے اس کی اسٹرا نکال رہے تھے، وہ تکلیف سے بلبلا رہا تھا اور اس کا خون بہہ رہا تھا، میں‌ نے ڈسپوزبل اسٹرا استعمال کرنا چھوڑ دی تھی۔ ہمارا پلاسٹک کا کوڑا سمندروں‌ میں‌ جمع ہورہا ہے۔ 2050 تک سمندر میں‌ مچھلیوں‌ سے زیادہ پلاسٹک ہونے کی توقع ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ پڑھیں‌ اور سمجھیں‌ کہ وہ دوسرے انسانوں‌ کو اپنی ذات سے کتنی تکلیف دے رہے ہیں اور شاید وہ اپنے طور طریقے بدلیں۔ جو بھی جرائم ہمارے ارد گرد ہوتے ہیں‌ ان کو کرنے کوئی مریخ سے نہیں‌ آتا، وہ ہمارے اردگرد کے لوگ ہی ہیں، وہ ہم ہی ہیں۔

پاکستان میں‌ جنسی ہراسانی کے بارے میں‌ شعور اور آوازیں اٹھنا ابھی شروع ہی ہورہے ہیں اور وہاں‌ پر جو واقعات اور حالات اور ان کے نتیجے میں‌ عوامی ردعمل ہیں‌ وہ ہوبہو امریکہ کہ 1960 سے پہلے کے حالات کی طرح ہیں۔ میں‌ بار بار وہی اعتراضات سن رہی ہوں‌ جو 1970 اور 1980 میں‌ کہے گئے تھے اور ان کو سمجھا جاچکا ہے۔

آج کے مضمون کے لیے پروفیسر انیٹا ہل کی کتاب ”اسپیکنگ ٹروتھ ٹو پاور“ سے مدد لی گئی ہے۔ یہ کتاب انہوں نے اپنے ہاتھ سے سائن کی تھی اور کئی ہاتھوں سے گزرتے ہوئے میری اچھی دوست نیڈین جیول سے مجھے ملی ہے۔ پروفیسر ہل ٹلسا، اوکلاہوما میں پیدا ہوئیں اور ییل یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لے کر کچھ عرصہ واشنگٹن ڈی سی میں‌ کام کرنے کے بعد اوکلاہوما واپس آئیں جہاں‌ انہوں‌ نے پہلے ٹلسا کی اورل رابرٹس یونیورسٹی اور پھر نارمن کی یونیورسٹی آف اوکلاہوما میں‌ پڑھایا۔ آج ہم امریکہ کو جیسا جانتے ہیں، اور یہاں‌ خواتین کی زندگی اور ان کو ہراسانی سے بچانے کے لیے جو حالیہ قوانین موجود ہیں، ان میں پروفیسر ہل کی ذاتی زندگی کے حالات اور ان کی جنگ کا ایک بڑا ہاتھ ہے۔

ییل یونیورسٹی سفید فام مردوں‌ کو قانون دان بنانے کے لیے قائم کی گئی تھی اور یہاں‌ 1969 سے پہلے کوئی خاتون اسٹوڈنٹس نہیں‌ تھیں۔ پروفیسر انیٹا ہل 1970 کی دہائی میں‌ وہاں‌ پڑھنے گئیں۔ ایک سیاہ فام خاتون ہونے کی حیثیت سے ان کی پچھلی کتنی نسلوں‌ نے کتنی قربانی دی اور وہ کس طرح‌ ییل تک پہنچی ہوں‌ گی، وہ پڑھنے والے خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنا مشکل ہوگا۔ یہ کتاب ساڑھے تین سو صفحے کی ہے۔ اس موضوع میں‌ دلچسپی رکھنے والے افراد خاص طور پر خواتین کو میرا مشورہ ہے کہ آپ انیٹا ہل کی زندگی پر بنی ہوئی مووی دیکھیں اور اپنے اندر حوصلہ پیدا کریں۔ لاطینی میں‌ ایک کہاوت کے مطابق ایک نا انصاف قانون قانون نہیں ہوتا۔ آپ لوگوں‌ کو ہی آگے آکر حالات بدلنے ہوں گے۔
An unjust law is no law at all

انیٹا ہل نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد کلیئرنس تھامس جو آج سپریم کورٹ کے ایک جج ہیں، کی ماتحت کے طور پر کام کیا جہاں‌ انہوں‌ نے پروفیسر انیٹا ہل کو جنسی طور پر ہراساں‌ کیا اوران کو اپنی پسندیدہ نوکری اور اپنا بوائے فرینڈ چھوڑ کر واپس اوکلاہوما چلے جانا پڑا۔ وہ ایک نوجوان نئی قانون دان کے طور پر کسی کو اس طرح‌ نہیں‌ جانتی تھیں‌ جن سے وہ اس طاقت ور آدمی کی شکایت کرسکتیں۔ شکایت کرنے سے ان کا اپنا کیریر بھی خراب ہوسکتا تھا جیسا کہ ہم جانتے ہیں‌ کہ کئی ایسے کیسوں‌ میں‌ خواتین کی نوکری چلی جاتی ہے اور آدمی کو پروموشن مل جاتا ہے۔ جب وہ ٹلسا جانے والے جہاز میں‌ بیٹھی تھیں اور وہ ڈی سی سے اڑا تو وہ رونے لگیں‌ کیونکہ وہ اس آدمی کی وجہ سے اپنی زندگی کے خواب پیچھے چھوڑ کر جارہی تھیں۔ وہ اپنے دادا پردادا کے دکھ یاد کرکے بھی روئیں جو اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ کر ٹلسا آبسے تھے۔ اس وقت انہوں‌ کلئیرنس تھامس کے خلاف آواز کیوں‌ نہیں‌ اٹھائی؟ وہ 1980 تھا اور اپنی آواز اٹھانے کے لیے پہلے اپنی آواز اور ہمت تلاش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

دس سال کے بعد جب بش نے کلئیرنس تھامس کو سپریم کورٹ کے جسٹس کی پوزیشن کے لیے نامزد کیا تو ان کے بیک گراؤنڈ کی ان کوائری شروع ہوئی۔ اتنی بڑی پوزیشن پر نامزد ہونے کے لیے گڑے مردے اکھڑ جاتے ہیں۔ انیٹا ہل نے بھی ان کے ساتھ کام کے دوران اپنے تجربات کو ریکارڈ کروایا۔ اس سے تمام امریکہ میں‌ کھلبلی مچ گئی تھی۔ سارے ٹی وی چینل، ریڈیو اور اخبارات اسی خبر کے گرد گھومنے لگے۔ سارے ملک سے لوگوں‌ نے ان کی حمایت اور مخالفت میں‌ خط لکھے۔ اس مسئلے کو ری پبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹ پارٹی کے درمیان ایک سیاسی مسئلہ بنا لیا گیا اور پروفیسر ہل کی کردار کشی کی گئی حالانکہ اس قضیے میں‌ ان کا قصور نہیں‌ تھا۔

7 اکتوبر 1991 کو ایریزونا کے سینیٹر نے بیان دیا، ”اگر آپ کو جنسی طور پر ہراس کیا گیا ہے تو آپ کو غصہ آنا چاہئیے، آپ کو اس بارے میں‌ کچھ کرنا چاہئیے اور آپ کو شکایت کرنی چاہئیے بجائے اس کے کہ آپ خاموشی سے اتنا وقت گزار دیں اور اچانک سے نامعلوم فرد کی طرح‌ کال کر کے کہیں کہ ہمیں‌ شکایت کرنی ہے۔ “

اس بات پر اعتراض ہوا کہ اگر ان کا ریپ نہیں‌ ہوا تو یہ جنسی ہراسانی نہیں‌ تھی حالانکہ الفاظ سے بھی جنسی ہراسانی ہوتی ہے۔ قانون دان کے دفتر میں ان کے بار بار موضوع بدل دینے کی درخواست کے باوجود ان سے بار بار تعلقات بنانے کی کوشش کرنا اور برہنہ مذاق کرنا بھی جنسی ہراسانی کے دائرے میں‌ آتا ہے۔ سینٹ میں یہ بھی بار بار کہا گیا کہ انیٹا ہل نے فوری طور پر اس جنسی ہراسانی کے خلاف شکایت درج کیوں‌ نہیں کرائی؟ انیٹا ہل نے اس کا جواب یہ دیا کہ میں‌ تو بس یہ چاہتی تھی کہ یہ رویہ بند ہوجائے اور میں نے اس کو ختم کرنے کے لیے یہی راستہ چنا کہ یہ نوکری چھوڑ کر دور چلی جاؤں۔ میرے سامنے ڈپارٹمنٹ کے سربراہ کی اس جنسی ہراسانی کو روکنے کا اور کوئی بہتر راستہ نہیں تھا۔ میرے سامنے ایسی کوئی مثالیں موجود نہیں تھیں جہاں شکایت کردینے سے کسی کا بھلا ہوا ہو۔ جن خواتین نے شکایت کی، ان کا اپنا کیریر خراب ہوا اور ان کی ساکھ کو دھچکا لگا۔ چونکہ وہ کمزور پوزیشن میں تھیں، ان میں سے کئی خواتین نے شہر یا نوکری بدل دینے کو ترجیح دی۔ وہ کہتی ہیں کہ میں‌ نے اپنے سامنے موجود راستوں‌ پر غور کیا اور ان میں‌ سے اپنے لیے ایک کو چنا اور اس چناؤ کا مجھے ذاتی حق حاصل ہے۔

اس طرح‌ کی بہت ساری خواتین ہیں جنہوں‌ نے خاموشی اختیار کی اور اس کی وجہ سے وہ اپنی نوکریاں اور اپنی سماجی اور معاشی حیثیت کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہیں۔ لوگ یہ بہت آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ ان خواتین کو شکایت کردینی چاہئیے تھی لیکن وہ یہ نہیں‌ دیکھتے کہ شکایت کرنے والی خواتین کی کس طرح‌ بے عزتی کی جاتی ہے۔ وہ ان خواتین کو ایسا قدم اٹھانے کا مشورہ دے رہے ہیں‌ جن کے نتائج ان خواتین کو خود بھگتنے ہوں گے۔ ساؤتھ ایشین سوسائٹی میں‌ یہ نتائج سماجی دھتکار کے علاوہ عزت کے نام پر قتل پر بھی مبنی ہوسکتے ہیں۔ جب لوگ آسانی سے یہ کہتے ہیں کہ جنسی ہراسانی کی شکار خواتین کو کس طرح رد عمل دکھانا چاہئیے، وہ اس بات کو قطعاً نظرانداز کردیتے ہیں کہ ہر انسان کا تجربہ اور اس کی ذہنی اور جذباتی حالت دوسرے انسانوں سے مختلف ہے اور ہم ہر کسی سے ایک صورت حال میں‌ ایک ہی رد عمل کی توقع نہیں‌ کرسکتے۔ انیٹا ہل کے کیس میں‌ سینیٹ کو اپنی توجہ انیٹا ہل کے بیان کی سچائی یا جھوٹ کے علاوہ اس بات پر مرکوز کرنے کی ضرورت تھی کہ کیا کلئیرنس تھامس سپریم کورٹ کے جسٹس بننے کے لائق ہیں‌ یا نہیں۔

امریکہ میں ایک اندازے کے مطابق زیادہ تر جنسی ہراسانی کی شکایات درج تک نہیں کرائی جاتیں۔ ان خواتین کو شکایت درج کرانے کا مشورہ دینے والے افراد کو نظام کے بارے میں‌ بھی معلومات ہونی چاہئیں۔ جس ادارے میں جنسی ہراسانی کی شکایات درج کرانے کا اور اس کے نتیجے میں‌ ہونے والے اقدام کے بارے میں‌ نظام موجود نہ ہو، وہاں ان معاملات میں آپ خود کو دوسروں‌ کے رحم وکرم پر چھوڑ رہے ہوتے ہیں۔ ایسے نظام میں‌ بآسانی گٹھ جوڑ کر کے ان خواتین کو نوکری سے نکالا جاسکتا ہے۔ صرف ادارے کا یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ یہاں جنسی ہراسانی ممنوع ہے۔ ان کو باقاعدہ یہ پہلے سے طے کرنا ہوگا کہ ان شکایات کی کس طرح تفتیش کی جائے گی اور ان سے کس طرح نبٹا جائے گا۔ اس زمانے میں امریکہ میں‌ یہ سب موجود نہیں تھا۔ امریکہ نے اپنے ماضی سے اور لوگوں کی غلطیوں‌ سے سیکھا ہے جس کی وجہ سے ادارے اس طرح کا ماحول تخلیق کرنے میں‌ کامیاب رہے جہاں‌ عام خواتین بغیر خوف کے تعلیم حاصل کریں‌ اور اپنے اپنے شعبوں‌ میں‌ کام کرسکیں۔ اسی پر ملک کی ترقی کا دارومدار ہے۔ آج کی پروفیشنل امریکی خواتین، جن میں میں بھی شامل ہوں، پروفیسر انیٹا ہل کی شکر گزار ہیں جنہوں‌ نے استقامت سے حالات کا دھارا بدل دیا۔


اسی بارے میں

جنسی ہراسانی کا مطلب بدل ڈالنے والی عورت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).