میں میڈیا کے بازار میں بکنے آیا ہوں۔۔۔۔


ستمبر 2009 میں، میں نے ملازمت کو خیرباد کہا اور دل میں ٹھانی کہ اب کاروبار کرنا ہے اور معاشرے کا اک سرگرم رکن بن کر زندہ رہنے کی کوشش کرنی ہے۔ مؤخرالذکر رومانویت کو اب ہلکے درجہ حرارت پر رکھ ڈالا ہے اور اول الذکر پر توجہ عموما رہتی ہے کہ ”بھیا، باپ بڑا نہ بھیا، سب سے بڑا روپیہ!“

ملازمت کے بعد کاروبار شروع کرنے کی رومانویت بمعہ تمام جمع پونجی ایک سال میں بہہ گئی اور خادم نے سوچا کہ کیوں نہ کاروباری کوششوں کے ساتھ ساتھ، معاشرے کی عظیم تر خدمت کے لیے میڈیا میں کچھ بامقصد پروگرامز کے لیے کوشش کی جائے تو اس ”مشنری“ جذبہ کے تحت اس دریا میں چھلانگ لگانے کا سوچ کر اس کے کنارے آن کھڑا ہوا۔ آس پاس سے کوشش شروع کی تو فطری طور پر انتخاب پاکستان کے چار پانچ چوٹی کے چینلز میں اینکری کرنے کا سوچا، اور ان چینلز کے ذمہ داران سے میل ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا۔ جوں جوں اس دریا کے کنارے سے اس کے درمیان جانے کا سلسلہ شروع کیا تو حقائق کہ جن کا پہلے مناسب اندازہ تھا، ان کی اصلیت کا علم ملنا شروع ہو گیا۔

سچ کہوں گا، سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گا کہ میڈیا کو بھی اک کاروبار ہی پایا کہ جہاں ہزار بارہ سو ریموٹ کنٹرولز کی بنیاد پر ٹی آر پی کی اک کاروباری جنگ تھی، ہے، اور رہے گی کہ جس کی بنیاد پر چینلز اور اینکر صاحبان کی ”ریٹنگز“ کے فیصلے ہوا کرتے تھے، اور ابھی بھی ہوتے ہیں۔ میڈیا اپنے تئیں سماج سدھار اور معاشرتی معاملات کو درست کرنے کے مشن پر گامزن تھا، مگر بنیادی طور پر یہ میڈیا مالکان کی ترجیحات کا غلام تھا، اور اب بھی ہے۔ اینکر صاحبان میں کئی ایک اپنے پروگرامز پراپر فروخت کیا کرتے تھے، اور اب بھی کرتے ہیں کہ ”جناب، آپ کے معاملہ کو ہم پرائم ٹائم میں اتنا وقت دیں گے تو اس کی اتنی قیمت ہو گی۔ بتائیے کیا کہتے ہیں؟“ جس کو تقریبا تمام پاکستان میڈیا کا کُل جانتا ہے، یعنی اینکران و نیوز کاسٹران، وہ میڈیا کی چوٹی کی چوٹی بھی نہیں۔ یہ بمشکل تمام ڈیڑھ دو درجن لوگ ہیں کہ جن کو لوگ ٹی وی پر دیکھتے اور اخبارت میں ان کے کالمز کی شکل میں پڑھتے اور جانتے ہیں، جبکہ میڈیا کی صنعت، کہ یہ مشن وغیرہ کچھ نہیں، سے وابستہ کارکن صحافی کوئی اٹھارہ ہزار سے زائد ہیں۔ ڈمی چینلز ہیں، ڈمی اخبارات ہیں اور چند اک منظورِ نظر ”صحافی“ ہیں جو ریاست و سرکار کے ساتھ جڑ کر ان کے شعبہء نشرو اشاعت سے پیسے کماتے ہیں، خوب کماتے ہیں، اور کمائے ہی چلے جاتے ہیں۔

اسی دور میں ٹی وی پر سیاسی پروگرامز میں شرکت اور چند اک معاملات پر اپنی رائے دینے کا بھی اتفاق ہوا۔ اصل گفتگو آن لائن نہیں، بلکہ وقفوں کے درمیان آف لائن ہوا کرتی تھی، اور اب بھی یہی معاملہ ہے۔ کسی بھی معاملے پر رائے دینے والوں کو رائے لینے والا ”صحافی“ پہلے پراپر سکھاتا ہے کہ ”چن جی، گل ایہہ کرنی اے پئی۔ “ وغیرہ وغیرہ۔ وہ اینکران جو سکرینز پر بیٹھ کر آپ کو عظمت، ہمت، حریت، تحقیق، بیانیے، سچائی، غیرت اور دلیری وغیرہ کے منارے لگتے ہیں، ان میں سے اکثر اپنے اپنے سمارٹ فونز پر ہدایات لے رہے ہوتے ہیں، یا اپنے اپنے پروگرامز کی تیاری کے مراحل کے دوران گائیڈلائنز لیتے ہیں۔

کبھی تو خدارا سوچئیے کہ پاکستانی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں کانٹینٹ تقریبا سو فیصد ہی سیاسی کیوں ہوتا ہے؟ کبھی تو خدارا سوچئیے کہ آخری مرتبہ یہ کب ہوا تھا کہ پاکستانی میڈیا نے کوئی ”پھٹے توڑ“ قسم کی بریکنگ نیوز دی کہ جس کے نتیجے میں بہت ساری اتھل پتھل کے بعد اک سماجی، معاشرتی و سیاسی بہتری نمودار ہوئی۔ آپ اگر پانامہ لیکس کا حوالہ دینگے تو صاحبان، اس سلسلہ کا اوریجن بھی پاکستان نہ تھا، بلکہ چند اک رپورٹرز نے اک عالمی سلسلہء تحقیق میں مدد فراہم کی تھی، اور بس!

پاکستان میں میڈیا کا سب سے بڑا گروپ اپنے کارکنان کی تنخواہیں اک اک ماہ سے بھی زائد عرصہ روک کر رکھتا ہے۔ اس گروپ کے ہاں انتظامی امور پر کام کرنے والوں کی تنخواہوں میں انکریمنٹ تین سے پانچ سال کے عرصہ میں آتی ہے، اور وہ بھی کوئی مبلغ تین سے پانچ ہزار روپے۔ نظریہ پاکستان کا خود ساختہ وارث اک میڈیا گروپ اگر اپنے ملازمین کو وقت پر تنخواہیں دے دے تو شاید ان کے ملازمین کی اک اکثریت کو خوشی سے ہی دل کا دورہ پڑ جائے۔ عمومی پاکستانی لیبر قوانین کے بالکل خلاف، نظریہ پاکستان کا یہ وارث گروپ اپنے ملازمین سے طویل گھنٹوں کا بےگار لیتا ہے۔ لاہور کے اک میڈیا گروپ کے پرنٹنگ سیکشن میں ایک ملازم نے کوئی ڈیڑھ سال تنخواہ نہ ملنے پر خود کو آگ لگا لی تھی، اور اسی ترقی پسند میڈیا گروپ میں اک اور ملازم نے عمارت میں خودکشی کر لی۔ خبریں پہنچانے والے اک دوسرے میڈیا گروپ کے سربراہ، جب پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے نمایاں صحافی تھے تو لاہور میں ان کا کاریڈور اک نہایت ہی غیرپارلیمانی ایکسپریشن سے جانا جاتا تھا اور اس وقت کی اک مشہور فلم ایکٹریس کو وہ عاجز کرکے اپنے دفتر تک بھی لے آئے تھے۔ اب وہ پاکستان کی نظریاتی و دینی اساس پر لیکچرار ہیں۔ اسلام آباد میں موجود اک میڈیا گروپ نے پاکستان کے دفاع و ایٹمی معاملات کو خود سے ہی اپنی ڈومین بنا ڈالا، اور پھر اک مرحوم صاحب نے اپنے فلیٹس کئی کئی سال تین تین گنا کرایوں پر اٹھائے رکھے، تاحال یہ صورتحال جاری ہے۔

اسلام آباد سے ہی قوم، ملک و سلطنت کو راہ راست پر لانے والا اک نیا میڈیا گروپ اپنے ملازمین کو کئی ماہ تنخواہیں نہ دے پایا اور ان کو اک دستخط سے فارغ کر دیا۔ ان کے پروگرامز میں ترقی پسندی اور روشن خیالی کی موم بتیاں مسلسل جلائی جاتی ہیں۔ تنخواہیں دینا روشن خیالی کے خلاف تھا گویا!

تو صاحبان، جن اینکران اور نیوزکاسٹران کو آپ پاکستان کے میڈیا کی ”لش پش اور چمکتی“ ہوئی حقیقت سمجھتے ہیں، وہ بنیادی طور پر اک کاروباری سلطنت میں جڑی ہوئی اینٹیں ہیں جو اپنی اپنی تنخواہیں حلال کرتے ہیں، گو کہ تنخواہیں حلال کرنے کے معاملے میں، میں ان کے ساتھ ہوں، مگر اس کے ساتھ سمارٹ فونز پر ہدایات لیتے ہوئے اپنے ہی میڈیا گروپ میں موجود کارکن صحافیوں کی حالت زار پر بالکل بھی بات نہیں کرتے۔ کیونکہ ان پر بات کرنے سے اپنے بھڑولے میں آتے دانوں پر ضرب لگتی ہے۔ یہاں پر اپنے تبلیغ کردہ آدرشوں، کہ جس پر وہ آپ کو مسلسل چلانا چاہتے ہیں، پر عمل کرنے کی خود کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔

کسی بھی دوسری صنعت کی طرح، میڈیا کی صنعت کے معاملات بھی بہت دلچسپ ہیں۔ آپ مگر میڈیا کے پروگرامز دیکھ اور عظیم انسانوں کے کالمز پڑھ کر اپنی ذہن سازی کرنے کی عادت میں مبتلا ہیں، تو میرے یارو، میری تعزیت، پرسا اور اک اداس مسکراہٹ قبول کیجیے کہ آپ کو اپنے ذہن اور اپنی ذہنی صلاحیت کی توہین کا خود ہی اندازہ نہیں تو بسم اللہ، لگے رہیں!

دُم: میرے پاس بھی اک سمارٹ فون ہے، لیپ ٹاپ ہے، انگریزی، اردو اور پنجابی بول لیتا ہوں، کیمرے کا بھی کوئی خوف نہیں، سرخی غازہ لگا کر کیمرے کے سامنے اکشے کمار کے آس پاس کی مخلوق لگ سکتا ہوں۔ میں بھی اس صنعت کا پُرزہ بننے کو تیار ہوں۔ بس قیمت اچھی لگائیے گا تو آدرش بہت اچھے بیچوں گا۔ بہت شکریہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).