فزکس کے سات سبق


کائنات کو سمجھنے اور اس کے اسراروں سے پردہ اٹھانے کی جستجو ازل سے ہی انسان کے اندر موجود رہی ہے۔ اس زمین پر جب بھی کسی پہلے انسان نے آسمان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا ہو گا تو بہت سارے سوالات نے اس کے دماغ میں جنم لیا ہو گا۔ دن کو جب وہ دیکھتا ہو گا کہ سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور پھر زمین کا طواف کرتا ہوا مغرب کے راستے غروب ہو کر ہمیں تاریکی میں چھوڑ جاتا ہے۔ اس نے سوال کیا ہو گا کہ یہ ایسا کیوں کرتا ہے۔ اس نے شاید اس پر بھی سوال اٹھایا ہو کہ کیا یہ ہماری نظر کا دھوکہ تو نہیں ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ جیسا ہم دیکھ رہے ہیں ویسا نہ ہو۔ یعنی سورج کی بجائے زمیں گھوم رہی ہو؟رات کو ستاروں سے مزین آسماں کو دیکھ کر اس نے ضرور قیاس کیا ہو گا کہ ضرور کسی ہستی نے اپنے گھر کو قمقموں سے سجایا ہے۔

اولین انسان ایسے سوالوں کا جو جواب سوچتے تھے اسی کی وجہ سے کائنات کے بارے میں ہماری موجودہ فہم یہاں تک پہنچی ہے۔ اسی جستجو کا نام سائنس ہے۔ لیکن آج کی سائنس ہمیں ان سوالوں کے کیا جواب فراہم کرتی ہے اور وہ کس حد تک مستند ہیں اس کا جواب کارلو راویلی (Carlo Rovelli) نے اپنی کتاب سات سبق فزکس کے(Seven brief lessons on physics) میں دینے کی سعی کی ہے۔ اس چھوٹی سی کتاب میں اتنے بنیادی سوالات کی وضاحت کرکے مصنف نے دریا کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کی ہے اور میں سمجھتا ہوں وہ اس میں کافی حد تک کامیاب رہا ہے۔

آئن سٹائن کا نام ہر کسی نے سن رکھا ہے اور کم از کم اتنا ہر کوئی جانتا ہے کہ اس نے کوئی ایسا کام کیا تھا جس نے اسے گھر گھر مقبول بنا دیا۔ وہ کون سا ایسا کام تھا جس نے اسے راتوں رات شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا یہ اس کتا ب کے پہلے سبق کا موضوع ہے۔ اس نظریے کو روسی نوبل انعام یافتہ سائنسدان لیو لنڈاؤ(Lev Landau) نے خوبصورت ترین نظریے کا نام دیا ہے اور سائنسی حلقوں میں “عمومی اضافیت” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ نظریے کی خوبصورتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی مساوات ایک انچ کی لمبائی میں سما جاتی ہیں لیکن اپنے مضمرات میں ساری کائنات کو سموئے ہوئے ہے۔ یہ نظریہ چیزوں کےزمین پر گرنے، چاند کا زمین اور زمین کا سورج کے گرد گھومنے کی وضاحت کرتا ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ جب سورج کی طرح کے ستارے اپنا ایندھن استعمال کر چکے ہوتے ہیں تو وہ اپنی ہی کششِ ثقل کے تحت منہدم ہو کر سپیس میں خم ڈال دیتے ہیں۔ ان اجسام کو بلیک ہول کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مثلاً یہ نظریہ ہمیں بتاتا ہے کہ زیادہ کمیت والے اجسام کے پاس وقت بھی آہستہ بہنے لگتا ہے ۔ کارلو راویلی کی طبیعت میں فلسفیانہ اور شاعرانہ عنصر بھی موجود ہے اور اسی وجہ سے وہ کہتا ہے کہ یہ آئن سٹائن کا شاہکارہے۔ بالکل ایسا ہی شاہکار جیسا کہ موزارٹ کا ریقویم (Requiem) یا شیکسپیئر کاکنگ لیئر King Lear ہے۔

دوسرے سبق کا موضوع کوانٹم نظریہ ہے جس کی بنیاد ایک بار پھر آئن سٹائن نے ہی فراہم کی۔ لیکن آئن سٹائن کبھی بھی کوانٹم فزکس کے نتائج سے مطمئن نہ ہوا۔ اس کی وجہ کوانٹم میکانیات کی اوٹ پٹانگ ماہیت تھی۔ مثال کے طور پر کوانٹم فزکس ہمیں بتاتی ہے کہ ذرات جیسا کہ برقیہ یا الیکٹران ہے ان کا کوئی مستقل مقام نہیں ہوتا بلکہ یہ سپیس میں ہر جگہ پھیلے ہوتے ہیں اور کسی مقام پر اسی وقت ظہور پذیر ہوتے ہیں جب ہم ان کی پیمائش کرتے ہیں۔ یعنی ہماری پیمائش الیکٹران کا مقام متعین کرتی ہے۔ یعنی آپ یقین سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ الیکٹران یہاں پر ملے گا بلکہ صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس جگہ پر اس کے ملنے کا اتنا امکان ہے۔ آئن کبھی اس کو قبول نہ کر پایا تھا۔ وہ آخری عمر تک یہ کہتا رہا کہ ضرور کوئی ایسی چیز ہے جس کو ہم سمجھ نہیں پا رہے۔

تیسراسبق کائنات کی ساخت کے بارے میں بنائے گئے انسانی نظریات کو بیان کرتا ہے۔ پہلے پہل یہ سمجھا جاتا تھا کہ زمین ایک طشتری کی مانند اور جامد ہے جب کہ آسمان اس کے اوپر ہے اور سورج زمین کے گرد چکر لگاتا ہے۔ پھر انا کزیمنڈر نے یہ قیاس کیا کہ کیسے ممکن ہے کہ سورج ، چاند اور دوسرے ستارے زمین کے گرد چکر لگاتے ہوں جس میں اوپر اور نیچے کا تصور ہو۔ اس سوچ نے یہ تصور دیا کہ زمین سپیس میں تیر رہی ہے جس کے چاروں اطراف آسمان ہے۔ فیثا غورث نے سوچا کہ اناکزیمنڈر کی زمین کے لیے کرّہ ایک بہترین شکل ہے اور پھر ارسطو کے زمین کے کرّوی ہونے کے حق میں کافی دلیلیں پیش کر دیں۔ کارلو راویلی یہاں پر کہتا ہے کہ کائنات کے بارے میں یہ وہ انسانی نقطہ نظر ہے جس کو دانتے اور شیکسپیئر نے پڑھا ۔ اس جستجو میں اگلا انقلابی دھکا کوپر نیکس نے دیا۔ اس نے بتایا کہ زمین جامد نہیں بلکہ سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ اور یوں زمین کے ساکن ہونے کے پچھلے تمام نظریات رد کر دیے گئے۔

آج ہم جانتے ہیں کہ ہمارا سورج بھی ساکن نہیں ہے بلکہ کہکشاں میں ایک جنونی کی طرح حرکت کر رہا ہے۔ مزید یہ کہ ہماری کہکشاں بھی کوئی خاص نہیں ہے بلکہ اربوں کہکشاؤں میں سے ایک ہے جن میں اربوں ستارے موجود ہیں۔اور ان ستاروں کے گرد زمین کی طرح کے اربوں سیارے گردش کر رہے ہیں جن میں سے بہت ساروں پر زمین کی طرح ہی کا ماحول موجود ہونے کے افضل امکانات ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ ہم کوئی خاص نہیں ہیں بلکہ کائناتی گرد کا ایک ادنیٰ سا ذرہ ہیں۔

چوتھا سبق اس مربوط ماڈل پر ہے جو اب تک کی ہماری سائنسی فہم کو بیان کرتا ہے۔ اسے معیاری نمونہ یا سٹینڈرڈ ماڈل کہتے ہیں۔ یہ ماڈل اب تک کے معلوم تمام ذرات اور قوتوں) ماسوا گریوٹی )کو بیان کرتا ہے۔ اس ماڈل کو 1950 سے ے کر 1970 تک بہت سارے سائنسدانوں نے مل کر بنایا۔ لیکن اس میں ابھی بہت خامیاں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر یہ تاریک مادہ یا تاریک توانائی کے بارے میں کچھ نہیں بتاتا۔ یاد رہے کہ ہماری کائنات کا 95 فیصد حصہ تاریک مادہ اور تاریک توانائی پر مشتمل ہے اور وہ سب کچھ جو ہم کائنات میں دیکھتے ہیں اس کا صرف 5 فیصد بناتے ہیں۔ مزید یہ ماڈل کششِ ثقل کو بھی اپنے اندر ضم کرنے سے قاصر ہے۔لیکن اپنی ان سب خامیوں کے باوجود یہ اپنی ساری پیش گوئیوں پر پورا اترتا ہے۔ اس ماڈل کی آخری پیش گوئی ہگز بوزان نامی ذرےکی شکل میں 2012ء میں ثابت ہوئی۔ لیکن یہ حتمی نظریہ نہیں ہے۔

اس سبق کا مرکزی خیال کوانٹم میکانیات اور عمومی اضافیت کی یکجائیت ہے۔ مذکورہ بالا نظریات کو یکجا کرنے کی بہت ساری کوششیں کی گئی ہیں اور جس کا ذکر کارلو راویلی نے کیا ہے وہ لوپ کوانٹم گریوٹی(loop quantum gravity) کہلاتا ہے۔ اس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ سپیس بذاتِ خود متسلسل نہیں ہے بلکہ چھوٹے چھوٹے ذروں سے مل کر بنی ہوئی ہے جو سپیس کے کوانٹا کہلاتے ہیں ۔ جب اس نظریے کی ریاضیاتی مساواتوں کو حل کیا جاتا ہے تو وقت متغیر نہیں رہتا۔یعنی وقت کا وہ دھارا جو ہم ماضی سے مستقبل کی طرف بہتے ہوئے دیکھتے ہیں ختم ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وقت سرے سے رک جاتا ہے بلکہ یہ کہ وقت کا بہاؤ جو ہم دیکھتے ہیں یہ ان کوانٹا کے آپس میں تعاملات کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتا ہے۔

چھٹے سبق کا نقطہِ ارتکاز یہ سوال ہے کہ حرارت کیا ہے۔ حرارت کسی جسم میں موجود حرکت کی مقدار کو ظاہر کرتی ہے۔ جو جسم جتنا زیادہ حرکت میں ہو گا اس میں اتنی ہی زیادہ حرارت ہو گی۔ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ حرارت ہمیشہ گرم سے ٹھنڈے جسم کی طرف ہی بہتی ہے۔ جب آپ چائے کے کپ میں ٹھنڈے چمچ کو رکھتے ہیں تو وہ بھی گرم ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ ہمیشہ گرم سے ٹھنڈے جسم کی طرف ہی کیوں بہتی ہے؟ مخالف سمت میں کیوں نہیں؟ اس کا تعلق وقت سے ہے۔ جب بھی کہیں پر حرارت کا تبادلہ ہو گا وہ وقت کے بہاؤ کو ظاہر کرتا ہے۔جہاں پر حرارت کا تبادلہ نہیں ہو گا وہاں پر وقت کا تصور بھی نہیں ہو گا یعنی حال اور مستقبل ایک دوسرے سے بلا امتیاز ہوں گے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ نظامِ شمسی میں موجود سیارے اگر مخالف سمت میں گردش کرنے لگ جائیں تو کسی بھی چیز پر کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ مزید بولٹزمین نے اس میں امکان کا عنصر متعارف کرا دیا۔ وہ یہ کہ حرارت کا گرم سے ٹھنڈے جسم کی طرف بہنا محض ایک اتفاق ہے۔ یہ ٹھنڈے سے گرم جسم کی طرف بھی بہہ سکتی ہے لیکن اس کا امکان بہت ہی کم ہے۔

اس کے بعد آخری سبق میں کارلو راویلی اس بات کو زیرِ بحث لاتا ہے کہ کائنات میں ہمارا اپنا کیا مقام ہے۔ یہ چھوٹی سی کتاب جس کو غالباً آپ ایک ہی بیٹھک میں ختم کر سکتے ہیں روح کے لیے ایک اچھی غذا ثابت ہو سکتی ہے۔ اتنے مشکل مضمون کو اس ضخامت کی کتاب میں سمونا نہایت ہی عمدہ کوشش ہے۔ اگر کوئی کتاب آپ کے ذہن میں نئے سوالات کو جنم دے جائے تو اس نے اپنا مقصد پورا کر دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).