حکیم مسیح الملک لاہوری


دنیا بھر کا علاج کرنے والے حضرت مسیح الملک لاہور کا تن و توش ایسا ہے کہ انہیں دیکھتے ہی بندہ احتیاطاً سانس بھی آہستہ لینے لگتا ہے کہ لگتا یہی ہے کہ ذرا سی تیز ہوا سے بھی توازن کھو کر زمین پر گر سکتے ہیں۔ اس خدشے کو تقویت اس بات سے بھی ملتی ہے کہ وہ پنکھے کی بجائے ایئر کنڈیشنر استعمال کرنا پسند کرتے ہیں لیکن خود فراموشی اور انکسار کا یہ عالم ہے کہ اپنی ذات کو مکمل نظرانداز کرتے ہوئے اس ترجیح کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ پنکھے کی ہوا سے میز پر رکھے بے شمار کاغذات اڑ سکتے ہیں۔

ویسے اس بیان کردہ وجہ کو کچھ وزن تو دینا پڑتا ہے کہ صرف ان کی میز پر ہی اتنی کتابیں اور کاغذات موجود ہوتے ہیں جن سے ایک شریف آدمی پوری ذاتی لائبریری بنا سکتا ہے۔ شاید وہ خود بھی اس حقیقت سے آشنا ہیں اور ان کاغذات کو بقائمی ہوش و حواس پڑھنے کی بجائے انہیں دیکھتے ہوئے فی صفحہ دو سگریٹ استعمال کرتے ہیں۔ کاغذ اور سگریٹ کے اس توازن کا اثر ان کی میز پر بھی پڑا ہے اور ایک دوسرا شریف آدمی وہاں موجود سگریٹ کی ڈبیوں سے تمباکو فروشی کی اپنی ذاتی دکان کھول سکتا ہے۔

ان کا کا کمرہ مطالعہ ان سفید پوش شہری حضرات میں نہایت مقبول ہے جو پہاڑی مقامات پر اس وجہ سے نہیں جا پاتے ہیں کہ وہاں کی پلوشن فری ہوا اور وہاں کے کمر توڑ خرچے ان کی برداشت سے باہر ہوتے ہیں۔ سو بجائے کسی ہل اسٹیشن کے جانے کے، وہ خود کو چلتے پھرتے بادلوں میں گھرا پانے کے لیے اس کمرے کا رخ کرتے ہیں۔ سنا ہے کہ ان کے بعض ڈاکٹر دوست اپنے مریضوں کو خاص طور پر علاج کی غرض سے اس کمرے میں وقت گزارنے کا نسخہ لکھ کر دیتے ہیں کہ ان کی تحقیق کے مطابق تمباکو کے دھوئیں سے بھری پری فضا میں ایذا پہنچانے والے جرثومے زندہ نہیں رہ پاتے ہیں اور اینٹی بائیوٹک ادویات کی بجائے وہاں کی فضا میں سانس لینا ہی ان کو بے ضرر بنا دیتا ہے۔ بلکہ ان کے بعض نفسیات دان دوست بھی اپنے بعض مریضوں کو اسی غرض سے اس کمرے میں وقت گزارنے کے لیے بھیجتے ہیں کہ ایذا پہنچانے والے جراثیم کے علاوہ اس فضا میں ایذا پہنچانے والے خیالات بھی دفن ہوتے دیکھے گئے ہیں۔

ایذا رسانی کی بات ہو تو اس بات کا ذکر واجب ہے کہ وہ راہبوں کے اس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ خود اپنی ذات کو ایذا پہنچاتے ہیں کہ مخلوق خدا کے دکھ درد کے احساس سے کبھی غافل نہ ہو پائیں۔ لیکن یہ سمجھنا غلط ہو گا کہ وہ قدیم رہبانیت کے مسلک پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ جدید دور کے آدمی ہیں اور اذیت کوشی کی خاطر انہوں نے قدیم آلات تشدد کو استعمال کرنے کی بجائے دو عدد موبائل فون رکھ لیے ہیں جو ہر پانچ منٹ کے بعد فضا میں اپنی رسیلی گھنٹیوں کا جادو جگا دیتے ہیں۔

اب حضرت مسیح الملک لاہوری ٹھہرے لکھنے پڑھنے والے آدمی، جو کہ وطن عزیز کی روایت کو نظرانداز کرتے ہوئے خوب سوچ سمجھ کر اور غور و فکر کر کے لکھنے کے عادی ہیں۔ ایسے میں جب ان کے خیالات کی ٹرین چل پڑتی ہے تو ساتھ ہی فون کی گھنٹی اس کی زنجیر کھینچ دیتی ہے، اور اس کے بعد فون پر ان کا کوئی مریض ان کا حال چال پوچھنا شروع کر دیتا ہے اور دنیا بھر کے مسائل ڈسکس کر کے جب گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کی گفتگو کے بعد ٹرین کو آگے جانے کی ہری جھنڈی ملتی ہے تو بجائے آگے جانے کے وہ دوبارہ اپنا کوئلہ اور پانی لینے کی خاطر پہلے سٹیشن پر واپس چلی جاتی ہے اور جیسے ہی دوبارہ آگے کا سفر شروع کرتی ہے تو فضا میں ایک بار پھر سے جادو جاگ اٹھتا ہے اور محض اپنی ایذا کوش رہبانیت کی وجہ سے وہ دوبارہ فون اٹھا لیتے ہیں۔

بعض افراد کی نظر میں وہ اردو پریس میں لبرل حلقوں کے سردار ہیں۔ ایسا سوچنے والے بیشتر افراد رجعت پسند سوچ رکھتے ہیں ورنہ وہ اس بات سے بخوبی واقف ہوتے کہ کوئی بھی پاکستانی حلقہ کسی ایک شخص کو اپنی سرداری دینے پر متفق نہیں ہوا کرتا۔

سرداروں کی بات چلی تو یہ بتانا مناسب ہو گا کہ موصوف متحدہ پنجاب میں خالصوں کا گڑھ سمجھے جانے والے گوجرانوالہ کے جم پل ہیں۔ شاید اسی حقیقت کا اثر کچھ حد تک ان کی فکر پر پڑا ہے۔ حاشا وکلا کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ کچھا اور کڑا پہنے کیسوں (بالوں ) میں کنگھا پھیرتے ہوئے کرپان لہراتے دشمنوں کی صفیں الٹتے پھرتے ہیں۔ حضرت کرپان کی بجائے قلم استعمال کرتے ہیں۔ اقبال اور فیض کی طرح انہوں نے بھی لاہور میں آ کر ہی نام پایا اور اغیار نے اقبال لاہوری کے ساتھ ساتھ ان کو بھی حکیم مسیح الملک لاہوری کے نام سے یاد کرنا شروع کر دیا۔

خالصوں کے پانچ ککے ہوتے ہیں۔ کڑا، کرپان، کچھا، کیس اور کنگھا۔ کرپان کی جگہ قلم کو ہی کارگر سمجھتے ہیں، کڑا نہیں پہنتے اور کچھے کا حال انہی کو معلوم ہو گا۔ لیکن کیس ان کا مکمل تو نہیں مگر کچھ کچھ سرداروں والا ہی ہے۔ بنیاد پرست سردار تو زندگی بھر نائی سے دور رہتے ہیں مگر یہ ہر تیسرے چوتھے مہینے بال کٹوا لیتے ہیں۔ ہاں کنگھے سے مکمل دوری رکھتے ہیں کہ مبادا ان کو مکمل سردار جان کر گولڈن ٹیمپل ہی نہ بھیج دیا جائے۔ گوجرانوالے کا یہ جم پل سردار دربار صاحب امرتسر جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا ہے کہ وہاں سگریٹ پر پابندی ہونے کے علاوہ چڑوں کے پکوڑے بھی نہیں ملتے ہیں۔

سگریٹ کے علاوہ حضرت مسیح الملک صاحب چڑوں کے پکوڑوں کے اس قدر شائق ہیں کہ ان کی تحریر پڑھ کر ان کے مخالفین اکثر جوش کھاتے گھی میں ترتراتے بیسنی چڑوں کی مانند ہی خستہ حال دکھائی دیتے ہیں۔ بخدا ایسی شیریں بیانی سے فریق مخالف کو مکھن اور دوسری روغنیات لگا لگا کر مکالمہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی ذات پر نازاں ہو جاتا ہے۔ گو کہ اس کا دماغ سلگ رہا ہوتا ہے مگر دل ان کی شیریں بیانی کے سحر میں جکڑا جاتا ہے۔

لکھنوی ادب آداب کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ یہی لکھنویت ان کی تحریر میں بھی جھلکتی ہے۔ ہما شما کو اگر ان کی تحریر پڑھنے پر مجبور کر دیا جائے تو وہ لکھنوی افیمی کی طرح پینک میں آ جاتے ہیں۔ ہاں جو لوگ ابھی تک مرزا رجب علی بیگ سرور کو پڑھ لیتے ہیں، ان کی نظر میں حضرت جان عالم ٹھہرے ہیں۔

فکری لحاظ سے لبرل سوچ کے داعی ہیں۔ وطن عزیز میں مروج لبرل ازم کے برعکس یہ رجعت پسند عناصر کا حقہ پانی اور ناطقہ وغیرہ بند کر دینے کی بجائے ان سے مکالمے پر یقین رکھتے ہیں۔ مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک ہیں اور شاید اسی وجہ سے بھی فریق مخالف اگر نظریاتی یا لسانی جہادی بھی ہو تو ان سے بات کرتے ہوئے محتاط رہتا ہے کہ کہیں شدت جذبات میں ہوش کھو بیٹھا اور زور سے میز پر مکا ہی مار دیا تو کہیں 302 یا 304 کا کیس ہی نہ بن جائے اور لمبے عرصے کے لیے سرکار کی مہمان نوازی سے لطف اندوز نہ ہونا پڑ جائے۔

اس بات کی تدریس کرتے ہیں کہ ہر شخص کا احترام کرنا لازم ہے خواہ وہ فکری لحاظ سے کہیں بھی کھڑا ہو اور خواہ وہ دلیل کو حجت سمجھنے کی بجائے اپنے دلی ارمانوں اور تدریسی کتب میں لکھی گئی تاریخ کو ہی کیوں نہ مطلق حجت قرار دیتا ہو۔ فرماتے ہیں کہ اپنے بچپنے کے دنوں میں ہم سب بھی ایسے ہی تھے، پھر بڑے ہو گئے۔ ہماری رائے میں بھی محض اس بنا پر کسی کو برا نہیں جاننا چاہیے کہ وہ بڑا ہونے میں معمول سے کچھ زیادہ دیر لگا رہا ہے۔ ویسے بھی بچپنے اور معصومیت سے تو سب ہی کو پیار کرنا چاہیے۔

ان کے ہوش سنبھالنے کا وقت وہی بیان کیا جاتا ہے جو کہ جنرل ضیا الحق کے قوم کے ہوش اڑانے کا وقت تھا۔ جن حلقوں کو جنرل مرحوم و مغفور نے محب وطن قرار دے دیا تھا یہ ان کے فکری مخالف گنے جاتے تھے۔ عرف عام میں انہیں سرخا کہا جاتا تھا اور اس دور میں یہ بھی چاند کو پینٹ کرنے کی بجائے ایشیا کو سرخ کرنے کی چاہت میں مبتلا تھے۔ انجام کار یہ اپنی شام کو سرخ رنگ کرنے کے علاوہ کچھ نہ کر پاتے تھے۔

اسی وجہ سے اس زمانے کے ضیائی سند یافتہ محب وطن حلقوں میں یہ بھی اسی صف میں کھڑے کر دیے گئے جس میں ان سے آگے فیض، جالب اور فراز کھڑے تھے۔ اور جب فکر کے ضیاع نے قوم کی آنکھوں کو چندھیانا بند کیا تو انہی تین حضرات کی طرح ریاست نے اب ان کے باب میں بھی تسلیم کیا ہے کہ یہ بھی اتنے ہی محب وطن پاکستانی ہیں جتنے کہ رجعت پسند حلقے خود کو گردانتے ہیں۔
صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی مبارک ہو حضرت مسیح الملک لاہوری۔
Mar 24, 2016

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

7 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments