جب ہم برفیلے پانیوں میں جنت مکانی ہونے سے بچ گئے


پچھلی دفعہ اِس وعدہ پر جنت سے نکلے تھے کہ اعمال اچھے ہوئے تو مکرر بلائے جائیں گے ۔ اعمال کے نام پر تو ہم  نے شاعری کی اور اچھے والی اِس میں یہ بات تھی کہ چند منقبتیں اور سلام بھی کہے چنانچہ پھر بلائے گئے اور پورے تام جھام سے، یعنی سکردو کی فصل بار آور اور ہمارا قیام مفصل ۔ مہمان نواز دوستوں اور شاگردوں کی کمی نہیں تھی ۔ پچھلی بار تہذیب الحسن نے مارچ کے پھولوں میں پھرایا تھا اور پریوں کے منڈپ پر بٹھایا تھا ، اِس بار دلاور عباس نے دوستوں کے ساتھ مل کر ہماری ڈولی اُٹھائی ، کبھی خوبانی اور شہتوت کے باغوں میں پھرائی ، کبھی چیری اور اخروٹ کے سبز سایوں میں گھمائی ، کبھی بادام اور چنارکے چھتناردرختوں میں بٹھائی اور کبھی نیلے آسمان کے سفید بادلوں میں اُڑائی ۔

اِس جنت کے ہزاروں ہی گوشے ہیں، جن کی سیر ہم کرتے پھرتے تھے اور نہیں تھکتے تھے ۔ تھکیں بھی تو کیسے کہ ایک سے بڑھ کر ایک طلسم ہماری آوارہ روح کو شوق کے پر لگائے پھرتا تھا۔ آبشاروں کا طلسم الگ تھا ، چشموں کا الگ ، جھیلوں کا طلسم الگ تھا ،باغوں کا الگ، ندیوں کا الگ طلسم تھا اورسرسبز میدانوں کا الگ ۔ قیام ہمارا دلاور عباس کے گھر میں تھا ۔ دلاور عباس ہمارا شاگردِ خاص ہے ، دوست ہے اور حسین لڑکا ہے ۔ ضرور ایک دن بادشاہ بنے گا۔ اُس کی والدہ جو اب ہماری بڑی بہن ہیں ، مسلسل ڈانٹتیں کہ روٹی کم کھاتا ہوں ۔اُنھیں کیا سمجھاتا کہ خوبانی اور چیری کے دامِ فریب سے نکلیں تو اس طرف دھیان دیں ۔ ویسے بھی گندم کھا نے والی بھول دوبارہ نہ کریں گے ۔

یہ بات تو ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ سکردو میں ٹھنڈے اور میٹھے پانی کی ندیاں ،پھل دار درختوں کے سائے اور اچھے لوگ وافر ہیں مگر اُن کی تفصیل پچھلی بار بیان نہیں کر پائے تھے ۔ آئیے ذرا آپ کو اس نگر کے آب و رنگ اپنی عینک سے دکھاتے جائیں اور گھر کی گھر بیٹھے سحر نگر پھیراتے جائیں ۔ ذرا رُکیو کہ ہم ایک ایک گوشہ کا احوال الگ الگ کر لیں کہ جو دل کی پوٹلی میں اکھٹا باندھ رکھا ہے ۔

ہرگسا ندی مٹھل گاوں بلکہ اور پیچھے جائیں تو صد پارہ جھیل اور اُس سے بھی پیچھے چلیے تو دیوسائی کی طرف سے نکل کر خراماں خراماں شہر میں داخل ہوتی ہے اور شہر کے بیچوں بیچ سے کلانچیں بھرتی ،موجیں مارتی ہوئی شمال مغرب کی طرف سے جا کر دریا کے گلے ملتی ہے ۔

راہوں میں گاہ گاہ پگھلتی ہوئی برف اور پھوٹتےہوئے چشموں کا پانی اس کا دامن مزید بھرتا جاتا ہے اور اِس نگاہِ سُرمہ سا کو چشمِ پُر آب کرتا جاتا ہے ۔ ندی اِتنی شفاف اور ٹھنڈی اور رواں ہے، جیسے چاندی اور پارے اور ابرق کا جوہر کشید کر کے نہر بہا دی ہو ۔ موجیں اِس نہر کی سورج کی کرنوں کو چندھیاتی ہیں اور نیلے آسمان کو آنکھیں دکھاتی ہیں۔ لہریں مارتی ہوئی جاتی ہے اور پورے شہر کا دامن اپنے پاک پانی کے موتیوں سے بھرتی جاتی ہے ۔ نظارا اِس کا آنکھوں میں طراوت ، دل میں طاقت اور دماغ میں بصیرت لاتا ہےاور بہت بھاتا ہے ۔

خوبانی ،شہتوت ،چیری اور بید کے فردوسی درختوں کے سائے سائے چلتی ہوئی اِتنے صاف ،مصفا اور سبز پانیوں کی نہر ہم نے آج تک نہ دیکھی تھی ۔ درختوں کی شاخیں کبھی جُھک کر نہر کے پانی میں منہ دھوتی ہیں اور کبھی اِس کے آئینے میں منہ دیکھتی ہیں ، بس دو ہاتھ گہری ہوگی ۔ آپ اس کے کنارے کنارے جائیے اور حسین نظارے پائیے ۔ گاہے ناریاں کپڑے دھوتی ملیں گی ، گا ہے شہر کے حسین بالکے نہاتے پائیں گے اور گاہے بطخوں کی ٹولیاں تیرتی جائیں گی اور خوشی سے قیں قیں بولتی جائیں گی ،کہیں ٹراوٹ مچھلیاں ہوں گی اور بہت اُچھلتیاں ہوں گی ۔ گائیں اور یاک بھی غوطے کھاتی ہیں اور بہت نہاتی ہیں ۔

تھوڑا آگے جائیں تو ایک ٹھنڈا صحرا بھی اِس کے ساتھ ہو لیتا ہے جہاں بید کے بہت درخت لگا دیے گئے ہیں اور پہاڑی بکریوں کا کام صرف اُن کے پتے کھانا ہے اور مینگنیاں کرنا ہے ۔ اِس نہر کی تہہ میں آئینوں کی طرح چمکتے ہوئے سرخ ،نیلئی ، سبز اور زرد رنگ کے پتھروں پر یاقوت و نیلم و مرجان اور زمرد اور ہیروں کا گمان ہوتا ہے کہ تہہ میں پڑے صاف چمکتے ہیں اور خوب تلکتے ہیں ۔ کناروں پر سبز گھاس کے قطعے گویا زمرد کے قالین ہیں کہ دُور تک بچھے ہیں اور کوئی جگہ اِن سے خالی نہیں ۔ ہم روز صبح پہلے اسی کی سیر کرتے تھے اور اپنی جھولی خدا کی طراوتی نعمتوں سے بھرتے تھے ۔ پہلے دن ہمارا ساتھ دلاور کے دوست ذی جاہ نے دیا ۔ ہم اُس کے کنارے کنارے چلتے گئے اور نظارے دیکھتے گئے ۔ ایک جگہ اِس نہر کا کھلا سا جزیرہ بن جاتا ہے کہ شفاف پانی کئی ٹکڑیوں میں بٹ جاتا ہے اور بیچ میں وہی بید کا جنگل کُھلتا ہے ۔ آس پاس کے بالکے اِس میں دھومیں مچاتے اور چھلانگیں لگاتے ہیں ۔ خیر ہم نے نہر کے ساتھ ساتھ چار کوس کی راہ بغیر تکان کہ طے کی اور تھکاوٹ کی کچھ خبر نہ لی ۔ رستے میں خوبانیاں اور چیر ی اور شہتوت توڑ توڑ کر کھاتے جاتے تھے اور چلتے جاتے تھے ۔

ذری پیاس لگی تو نہر کے مصفا پانی سے چلو بھر کر پی لیا اور اپنی روش پر ہو لیا ۔ تھوڑی دیر میں پھل سب ہضم ہو جاتا تھا اور جی مزید کا تقاضا کرتا تھا ۔ سیر سے اور پھل سے ہمارا جی نہ بھرتا تھا۔ایک جگہ پہنچے جہاں ہرے ٹھنڈے کھیتوں کے بہت قطعے تھے اور اُن میں شہتوت اور خوبانی کے درختوں کے بے شمار ،قطار در قطار پرے جمے تھے ۔ آس پاس سبزیوں کے کھیت کے کھیت ٹھنڈی دھرتی پر جمے پڑے تھے ۔ ایک جھرمٹ یہاں خوبانیوں اور شہتوت کے پیڑوں کا ایسا تھا کہ بیان سے باہر ہے ۔ خوبانیاں اُس کی یہ سیبوں سے بڑی اور میٹھی تو کہیں جنتی میووں سے گھنی ۔ وہیں کچھ دیر بسیرا کیا اور پیٹ کا دامن بھرا ،برسن اور سرسوں اور گندم کی فصلوں پر آسن جمایا ،بہت کچھ کھایا حتیٰ کہ سہ پہر ہو گئی اور ہم نے واپسی کی ٹھانی۔

دلاور کو فون کیا ،وہ موٹر سائکل لایا اور ہمیں بٹھا کر واپس گھر پہنچایا ۔ اِتنے میں شام ہو گئی ۔ بعد ازمغرب ذیشان مہدی اورعارف سہاب جو سکردو کے نام ور شاعر اور نوحہ خواں ہیں ، ہمیں اپنے ہمراہ لے گئے ،ایک ہوٹل میں دوستوں کی محفل جمی اور خوب جمی۔ ہوٹل وہاں کے یوں سمجھیں کہ ہوٹلیاں ہیں ۔ چائے اور کھانے کے ڈھابے کہہ لیجیے ۔ ذیشان مہدی ، عارف سہاب اور تہذیب الحسن اچھے شاعرہیں۔ حشمت الہامی صاحب بھی ایک بزرگ شاعر ہیں مگر اُنھیں سکردو کے شاعروں میں وہی مقام حاصل ہے جو پرندوں میں چمگادڑ کو ہے۔ اقبال کو دنیا کے تمام شاعروں سے بڑا سمجھتے ہیں اور خود کو اقبال سے بڑا ۔ ایک رات ذیشان مہدی کے گھر کھانے پر جمع تھے ۔ ہمارے ساتھ میر تقی میر پر بحث کرنے لگے ۔ چاند کی آدھی اور سرد رات تک اِسی ضد پر اڑے رہے کہ وہ میر صاحب سےکم درجے کے شاعر ہیں ۔ ہم نے بہت کہا ،ایسی انکساری کا فائدہ نہیں جسے اہلِ فن نہ مانیں ، آپ میر صاحب سے بہت دورکی دنیا کے فرد ہیں اور کئی زمانوں کے یکتا ہیں مگر وہ نہ نہ کرتے رہے ۔ آخر ہم نے کہا الہامی صاحب سچ بتایے آپ پرمیر صاحب کی فضیلت کہیں اُن کے زمانہ ءتقدیم سے تو نہیں ؟ہنس کر بولے ، ناطق صاحب آخر آپ نے بات پکڑ ہی لی ،افسانہ لکھتے ہو،اِسی لیے۔

اتنے وقفے سے مروت کے لفظوں میں یہی سمجھا رہا تھا، ورنہ تو سارا سکردوہماری سخن سنجی سے واقف ہے ۔ زبان کی پکڑ جیسے ہم نے کی ، میر صاحب سے کیا ہو گی ۔ ہم نے خیالات کو زبان میں اِس طرح باندھا جیسے دریائے سندھ کو ہمالیہ کی چٹانوں نے باندھ رکھا ہے۔ باتیں کرتے جاتے تھے اور اِسی انکساری میں سالم مُرغ سے شفقت فرماتے جاتے تھے ۔ اُدھر ذیشان مہدی صاحب اُن کی طُغرا زیبی پر پانی پانی ہوئے جاتے تھےاور اشاروں کنایوں میں ہمیں کہتے جاتے تھےکہ الہامی صاحب رات کواکثر بہک جاتے ہیں۔ آخر ہم نے الہامی صاحب سےاشعار کی فرمائش کر کے قصہ فیصل کیا ،وہی اشعار جوغیر رسمی طور پراپنی گفتگو کو دلیل اور تقویت دینے کے لیےبلا اجازت کئی بار سنا چکے تھے۔

سکردو کی گلیوں اور بازاروں میں چنداں فرق نہیں ۔ یعنی سب ایک ہی جیسے ہیں ۔ کھُلے ہرگز نہیں مگر کبھی بند نہیں ہوئے ۔ بند کیسے ہوں یہ وضع دار لوگ دوسروں کے لیے کشادہ دل رکھتے ہیں ۔ ہاں مرکزی بازار میں طوفانِ بدتمیزی وہی ہے جو ہمارے پنجاب کے ہر شہر ،گاوں اور گلی محلے میں ہے ۔ اتنا ضرور ہے کہ تجاوزات کی بیماری نہیں ۔ پنجاب میں تو تجاوزات کا ایسا کینسر پھیلا ہے کہ نصف سڑکوں پر ریڑھیاں ہیں باقی کی نصف پر پارکنگ ہے اور ٹریفک کا راستا دِلوں پر سے ہو کے نکلتا ہے ۔ اِس مرکزی بازار سے ہٹ کر جس راہ کو نکل جائیں، راستے کھلے پائیں اور چلتے چلے جائیں ۔ ہجوم مطلق نہیں اور جو ہے وہ بے ہاتھ نہیں ہوتا یعنی سڑک نہیں گھیرتا ۔ جگہ جگہ تِکے کباب اور دُنبے کےگوشت کی روش تیار کرنے والی ڈھابیاں بہت ہیں اور سستی ایسی کہ جی چاہتا ہے یہی کھاتے جائیں ۔ ایک دن ہم اُن کے پولو گراونڈ کے آس پاس گھوم رہےتھے کہ ہمارے دوست جاوید ملک صاحب مل گئے۔ ہم اُنھیں اِس جنت نگاہ میں دیکھ کر بہت خوش ہوئے ۔ اسلام آباد سے بچوں کو لے کر گئے تھے اور شنگریلا کی وادی کے اُس ہوٹل میں ٹھہرے تھے، جس پر کسی بے ایمان خبیث نے قبضہ کر رکھا ہے اور شنگریلا جھیل پر غضب کا ٹیکس لگا رکھا ہے یعنی جو دیکھنے جائے تین سو روپے سے ہاتھ اُٹھائے ورنہ بغیر دیکھے گھر کو جائے ۔ حُسن اِس وادی کا اُس نے سراسر مصنوعی کر دیا ہے اور جھیل کو گناہ سے بھر دیا ہے۔ بھئی ہم تو ضد سے وہاں نہیں گئےاور اوپر ہی اوپر سے نظر بھر کر کچورا کی طرف نکل گئے ،وہاں اللہ کے سوا کسی کی حکومت نہیں۔ قصہ مختصر شنگریلا پہ قابض یہ چغد اربوں کما رہا ہے اور فطری حسن گھٹا رہا ہے۔

خیر بات نکلتے نکلتے دُور جا نکلی ، نزدیک ہی ہم ایک ہوٹل میں بیٹھ گئے، جسےآغا کا ہوٹل کہتے ہیں ۔ہمارے یہاں کے حساب سے اِسے ڈھابی کہہ لیں ۔ کبابوں کا اور چائے کا آڈر دے ڈالا ، آٹھ دس دوست مزید وہیں آگئے ۔ اب ہم کباب کھاتے جاتے تھے اور چائے پیتے جاتے تھے ۔ نان تو ہٹا کر پرے کیے اور صرف کباب کو خوراک کیا ۔ حساب ہمیں نہ تھا، کتنے کھا چکے اور کتنی پی چکے ہیں، کباب مزے کے تھے ۔ جب دو گھنٹے بعد وہاں سے اٹھے تو فقط ساڑھے چار سو روپے بنے ۔ ہم نے بہت کہا ، بھائی حساب دوبارہ کرو تم لوگوں کا حساب اپنے فائدے میں بہت کمزور ہے ،پیسے زیادہ بنتے ہوں گے ، کہنے لگا، نہیں اتنے ہی بنتے ہیں ۔ ہم نے پانچ سو دیا اور کہا چلو پچاس ہماری طرف سے رکھ لو ۔ اُس نے کہا بھائی یہ پچاس لیتے جاو،اُدھر پنجاب یا کے پی کے والوں کو خیرات کر دینا،یہاں بھیک نہیں لیتے ۔ ہم شرم سے پانی ہوگئے اور منہ نیچا کیے اُس خوددار ڈھابی سے باہر نکل لیے اورشاہین گراونڈ کی طرف چل دیے، جہاں فٹ بال میچ کا فائنل تھا اور سارا سکردو جمع تھا ۔ہر آدمی مست گینڈے کی طرح پُرجوش تھا ۔ یہاں فٹ بال اور پولو بہت شوق سے کھیلے جاتے ہیں اور دیکھے جاتے ہیں ۔ مگر پورے بیس منٹ دیکھنے کے بعد ہم نے اندازہ لگایا ،اِنھیں فٹ بال کی ب نہیں آتی، بس شوق ہے اور یہ طبعی ہے بغیر قانون قاعدے کے ۔ جس پاوں تلے بال آ جائے، وہ بے تُکی کِک ہانک دیتا ہے ۔ یہ مشکل کھیل کھیلے تو کبھی ہم بھی نہیں مگر اتنا تو دیکھتے رہے ہیں کہ کھیلنے والے کیسے کھیلتے ہیں ۔ خیر اِس میں سکردو والوں کی تخصیص نہیں ،پورے پاکستان کی یہی حالت ہے ۔ پولو ہم نے دیکھی نہیں ورنہ اُس پر بھی حکم لگاتے ۔ اُنھیں وہیں کھیلتے اور نعرے لگاتے چھوڑا اور پچھلی طرف سے ہو کر دریائے سندھ کے پہلو میں ایک پہاڑی پر جا بیٹھے ۔ یہاں فطرت نے اپنا کھیل رچا رکھا تھا ۔ چاروں اُور سرسبز وادیاں اور بیچ میں دریا کا ہرا سانپ لہریں لیتا جاتا تھا ۔ بہت دیر ہم وہیں بیٹھے رہے اور دانشوروں کو گالیاں دیتے رہے کہ دیکھو ،اللہ کے جہان سے دور بیٹھے کیسی کیسی بے تُکی بولتے جاتے ہیں، بے برکتے کہیں کے ۔ یہاں سکردو میں کبھی آکر قدرت کے نظارے دیکھیں تو اِنھیں خدا پر یقین آئے کہ اتنا خوبصورت جہان خود ہرگز نہیں بن سکتا ۔ بہت دیر بعد ہم جب اُٹھے تو میچ کا کھکھیڑ ختم ہو چکا تھا ۔ واپس بازار میں آئے ،ملک صاحب کو اُن کے بچوں سمیت شنگریلا میں ہانکا اور خود جانثاروں کے ہمراہ سکونت گاہ کا رستہ تانکا ۔

اب اگلے دن کی سنیے، ہم نے ضد کی کہ اُسی ندی کے کنارے پھر جائیں گے،اور شام تک لہریا گائیں گے ۔ اب ہمارے سب دوست جو سکردو میں موجود تھے ،آ گئے، اِن میں سلیم ، وقارشگری ، سدیف جعفر، یاسر صلو، حسنین ، وزیر علی ، وزیر ذی جاہ، آصف علی، وزیر مظاہر،ساجد علی منشی اور دلاور عباس سب ہی شامل تھے ۔ دواطراف بید کے اشجاروں میں ڈھکی ندی ،کہیں چھاوں اور کہیں دُھوپ میں چلتی ندی، دِلوں کی کثافت اور چہروں کی یبوست دھوتی ندی پر ہم سب باہم ہوئے ۔

سکردو شہر سے باہر نکلے تو اس کی ایک جانب صحرا نے لے لی اور دوسری جانب بید کے درختوں گھیری ۔ سکردو میں صحرا چہ معنی دارد ؟ مگر ہے اور ضرور ہے ۔ البتہ ٹھنڈا ہے، پرندوں سے بھرا ہوا ہے ،گاہے گاہے یہاں اشجاروں کی ٹولیاں بھی کھڑی ہیں ۔ سکردو کے لوگوں میں ایک خصوصیت ایسی ہے کہ جنت والوں میں ہو تو ہو ورنہ پاکستانیوں میں نہیں ۔ یہ درخت دوست لوگ ہیں ، جہاں اِنھوں نے سہولت کی جگہ پائی وہیں بید یا پاپلر یا خوبانی کی شاخ جمائی اور زمین چونکہ نم اور زرخیز ہے،دِنوں میں شاخ سے شجر اور شجر سے اشجار بنتے دیر نہیں لگتی ۔ ہم کبھی ندی کے اِس پار ڈُبکی لگائی اور کبھی اُس پار ۔ بھاگتے ہوئے صحرا میں نکل گئے ،ٹھنڈی ریت میں لتھڑ گئے۔ بچوں کی طرح لیٹنیاں لیتے ،جب مکمل ریت سے بھر جاتے ،آن ندی میں غوطہ لگاتے اور جھٹ صاف ہو کر دوسری طرف سے نکلے اور ٹھنڈی ہواوں کے پنکھوں سے لہلہاتے ہوئے بید کے درختوں پر جھولنے لیتے آگے جاتے ۔

اِسی دھوماں دھامی میں ایک ایسے مقام پر جا پہنچے جہاں ندی تنگ ہو گئی اور رفتار پانی کی اللہ جانتا ہے دو سو میل کی رفتار سے نکلتا تھا ۔ ہماری ضد کہ اِسی میں سے نکلیں گے ،دوستوں کا وعظ کہ یہ بھاگتا ہوا پانی ہے ،بہا لے جائے گا ،کاہے خود کو ڈبواتے ہواور ہماری سُبکی کراتے ہو ۔ مگر نہ مانے اور دھم سے کودے ۔ اُس کے بعد خبر نہیں کیا ہوا ، نَے ہاتھ باگ پر ہے نَے پا ہے رکاب میں ، اعصاب سنبھالنے کا کسے ہوش تھا ۔ بہتے چلے گئے ، کبھی جو غوطے سے سَر اُبھرا تو فوراً چالاکی سے سانس لی اور پھر غوطوں میں گم ۔ احباب کناروں پر بھاگے چلے آتے تھے اور ہم پانی میں نہاتے چلے جاتے تھے ۔

بید اور پاپلر کی ہزاروں شاخیں نہر پر منہ جھکائے رستے میں آئیں مگر ہمارے ہاتھ ایک نہ آئی۔ پانی دوڑتا چلا گیا ،ہم نے بھی ٹھہرنے کا نام نہ لیا ۔ ہاں یہ خیال ضرور تھا کہ اب یہ پانی قیامت تک نہ رُکے گا اور ہم قیامت تک یونہی بہتے جائیں گے اور سکردو سے سیدھے جنت کو جائیں گے ۔ ہاتھ پاوں شل ہو گئے ،سر بھاری ہو گیا ،جسم بے حس ہو گیا ۔ اِس حالت میں ہم نے خود کو سپردِ خدا کیا ۔ سانس کی چند رمکیں باقی تھیں کہ ایک دم ندی کھُلی ہو گئی اور پانی سست ہو گیا ،ہم بے دم سے ہو کر کنارے سے جا لگے۔

احباب نے کھینچ کر باہر نکالا ، پیٹ پر دباو ڈالا اور جو کچھ پانی اندر گیا تھا اُسے اُچھالا ۔ ایک اور سنیے ،اتنے دِنوں سکردو کی نہروں ندیوں اور نالوں میں پھِر رہے تھے مگر مچھلی ہاتھ نہ آئی تھی لیکن اِس سیر سے یہ ہوا کہ دو مچھلیاں ہماری پاجامے میں پھنسی ہوئی نکلیں جنھیں دوستوں نے کھانے کی نیت کی مگر ہم نے اُنھیں اپنی جان کے صدقے میں آزاد کیا یعنی پانی میں چھوڑ دیا ۔

کنارے پر کچھ دیر ٹھیکی لینے کے بعد دو چار خوبانیاں کھائیں ،جب طاقت بہم پہنچی تو پھر تیار ہوئے آگے کے سفر کو ۔ جہاں ہم پڑے تھے وہاں کا پانی یوں تھا کہ چوڑے تختوں پر گویا لیٹا ہوا چلتا تھا اور سفید بطخوں کی طفلانہ کشتیوں سے بھرا تھا ۔ یہ کشتیاں کہیں آٹھ کہیں دس اور کہیں بہت زیادہ تیرتی ہوئی ندی کے درمیان چھوٹی چھوٹی جزیریوں پر جا رُکتی تھیں ۔ ہم دیکھ کر اُن پر رشک کرتے تھے اور آنکھوں میں نظارے بھرتے تھے ۔ یوں بطخوں کی ہمراہی کا فیض پایا اور نہر سے لُطف اُٹھایا ۔ یہاں بطخیں ایسی بھلی بھلی تیرتی تھیں گویا خدا کی سفید پریاں گنبدِ نیلوفری سے اُتری تھیں اور پانیوں پانیوں چلتی دلوں سے آگے نکلتی تھیں ۔ ہم اِن کے ہمراہی بنتے تھے مگر وہ ڈرتی تھیں بھاگتی تھیں ۔ نزدیک آنے پر جیسے شرماتی ہوں ہم ندی کے اِدھر آتے تو وہ اُدھر ہو جاتی ۔ اُدھر جاتے تو اِدھر آ جاتیں ۔لو بھلا انسان سے کون نہیں ڈرتا ہم ایسے ہی منغض ہو گئے تھے ۔ یہ سیر بھی ہم نے عصر تک جاری رکھی اور پھر چُمک ایک جگہ ہے، جہاں دریا زوروں پر بہتا ہے اور دیکھنے سے علاقہ رکھتا ہے، وہاں آگئے۔ دریا کا پانی اور اُس کا بہاو دیکھ کر دل دہلتا تھا ۔ ندی کی حور کے مقابلے میں یہ دریا اسرافیل کا صور معلوم ہوتا تھا ۔ اس کی ہیبت دلوں کو لرزاتی تھی اور دماغ کو برفاتی تھی ۔ ہم زیادہ دیر اس کا نظارا نہ کر سکے اور لوٹ آئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).