پھر نیا این آر او، شہزادہ ای اوئے؟


پاکستان سعودی عرب دونوں جگہ کرپشن کی آڑ میں پاور گیم لڑی جا رہی ہے۔ سعودی شہزادہ سلمان نے کرپشن مخالف مہم کا کامیاب استعمال کرتے ہوئے اپنے مخالفین کی کمر توڑی ہے۔ مختصر ترین مدت میں وصولی کے معاہدے کرنے شروع کر دیے ہیں۔ اہم ترین شہزادوں کو غیر متعلق کر کے رکھ دیا ہے۔ چند ہفتوں میں شاندار کامیابی حاصل کرنے کے بعد یہ مہم اب چار چھ ہفتے میں ختم کرنے کا اعلان بھی آ گیا ہے۔

نوازشریف کے تین تو سگے بھتیجے پھڑ کر استری کیے ہیں شہزادے سلمان نے۔ یہ تین شہزادے شاہ عبداللہ کے صاحبزادے ہیں۔ شاہ عبداللہ نے نوازشریف کو حقیقی بھائی قرار دیا تھا۔ یہ بہت ممکن ہے کہ یہ تین اور کچھ مزید شہزادے شریف فیملی کے ساتھ کاروباری معاملات میں شامل ہوں۔ ہو سکتا ہے نہ ہوں۔

سعودی عرب میں جاری مہم کو دنیا بھر میں دلچپسی سے دیکھا جا رہا ہے۔ پاکستان میں بھی ظاہر ہے نوٹ کیا جا رہا ہے۔ ہماری دلچسپی یوں بھی زیادہ ہے کہ ہم نے کرپشن کے نعرے بہت لگائے ہیں۔ ریکوری کے حوالے سے ہماری کارکردگی صفر رہی ہے۔ اگر کسی کو سزا ملی بھی ہے تو اک ٹکا ریکوری نہیں ہو سکی۔ سیاستدانوں سے تو بالکل نہیں ہو پائی۔

پاکستان کو اگلے چھ مہینے میں چھ ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ ہماری ریاست ایک بڑا شفٹ لے رہی ہے۔ ہم امریکیوں سے فاصلے پر جا رہے ہیں چینیوں اور روسیوں کے نزدیک ہو رہے ہیں۔ اس شفٹ میں اچھی ڈیل اور اچھی بارگین بھوکے پیٹ مقروض حالت میں نہیں ہو سکتی۔

پاور گیم میں کرپشن مخالف ماڈل شہزادہ سلمان کا شاندار دکھ رہا ہے۔ سو سے دو سو ارب ڈالر کی ریکوری کا امکان ہے۔ یہ بہت قابل تعریف ہے۔ نوازشریف اس وقت مکمل مزاحمتی موڈ میں ہیں۔ ان کی مہم جاری رہی تو یو اے ای یا کم از کم دبئی کی قلابازی لگتے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ زیادہ نہ سوچیں دبئی میں پاکستانیوں کی بہت بڑی سرمایہ کاری ہے۔ آپ کو لگتا ہے کہ اس پر ٹیکس دیا گیا ہو گا؟ چار اچھے سرمایہ داروں کی سنجیدگی سے پلان کی ہوئی کسی بھی مہم نے دبئی کا بھٹہ بٹھا دینا ہے۔ ساتھ ہی پاکستانی سیاست کی شکل بدل جانی ہے۔

یمن تنازعے پر امارات کے وزیر نے ایک بیان دیا تھا۔ اس کو جواب پھر چوھدری نثار نے دیا تھا، یاد آیا۔ اسلام آبادی گپ باز سناتے ہیں کہ کیسے ہماری سلامتی کے معاملات کراس کرنے پر وارننگ دی گئی تھی۔ یہ وارننگ سیاستدانوں نے نہیں دی تھی۔ امارات والے تب سے ایسے ملائم ہیں کہ جے آئی ٹی کو بغیر مانگے اقامے ہی پکڑا دیے تھے۔ اب امارات کے ان بدو شیخوں کے ساتھ سیاستدان کچھ نہ کریں تو پھر وہ سیاستدان تو نہ ہوئے۔ کیا کریں گے یا کیا کر سکتے ہیں یہ سمجھ انہیں بھی آ گئی ہے، خیر۔ اک پریشر ہے جو خلیجی ریاستیں محسوس کر رہی ہیں۔

کرپشن کے خلاف نعروں سے زیادہ ریکوری اہم ہے۔ یہ بات شریف فیملی نے کامیابی سے سعودیوں کے کان میں ڈال دی ہے۔ یہ بات پنڈی والوں کو بھی سمجھ آ سکتی ہے۔ کیسے نہیں آئے گی اگر ریکوری اچھی ہو سکے۔ اگر معاشی بوجھ سے آزاد ہو کر پالیسی شفٹ لینے کے امکانات پیدا ہو سکیں۔ اگر باہر موجود پاکستانیوں کو ایک اچھا پیکج دیا جا سکے کہ وہ اپنے وطن میں سرمایہ کاری کریں اپنا سرمایہ واپس لا سکیں۔ اس کے لیے ایک وسیع البنیاد نیا معاہدہ کرنا ہو گا۔ اک دوسرے کو غلط کاریوں کی معافی دینی ہوگی۔ وصولیاں کرنی ہوں گی۔ سیاست کو سیاستدانوں پر چھوڑنا ہو گا۔ سیاستدان اگر اپنی جیب ڈھیلی کرنے پر تیار ہو جائیں تو یہ برا آپشن تھوڑی ہے۔ اس سب میں سیٹھوں کو بھی صاف ہو کر سامنے آنے کا موقع مل جائے گا۔

یہ سب ہو سکتا ہے لیکن اس کی ایک سیاسی قیمت ہے۔ یہ نا اہلیاں وغیرہ ختم کرنی پڑیں گی۔ نہیں کرنی تو نہ کریں پھر سعودیوں کا پریشر فیس کرنا ہوگا۔ کر سکتے ہیں تو کر لیں۔ لیکن اک رولا ہے سعودی خود بھی تو پبلک پریشر فیس نہیں کر سکتے۔ عرب مزاج ہی نہیں مخالفت اور طنز سہنے کا۔ انہوں نے ہم پر سرمایہ کاری کی ہے۔ وہ اپنے دفاع کے لیے طاقت ہمیں دیکھ کر پکڑتے ہیں۔ ہماری گلیوں میں ”شہزادہ ای اوئے“ ہو رہا ہو تو وہ کدھر سکون سے رہ سکیں گے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi