تحریک انصاف کے ہمدرد مایوس کیوں ہوئے جاتے ہیں؟


تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل جہانگیرترین کی نا اہلی کے بعد حلقہ انتخاب میں بقا کا چیلنج درپیش ہے۔ حل یہ نکالا گیا ہے کہ جہانگیرترین کے فرزند علی ترین کو امیدوار نامزد کردیا جائے۔ اس فیصلے پر تحریک انصاف کے کارکنوں کا ایک حلقہ اور ہمدردوں کا ایک بڑا حلقہ احساس ندامت لیے ہوئے ہے۔ خجالت مٹانے کے واسطے یہ نادم گروہ حسب روایت خان صاحب پر حرف گیر ہے۔ یعنی اپنے سر سے بوجھ اتاردیا اور خان صاحب کے گلے میں ڈال دیا کہ ہمارے ہاتھ تو صاف ہیں بھیا ہم سے مت پوچھو۔ نادم گروہ اس کو اصول پسندی سے تعبیر کررہا ہے مگر حقیقت میں یہ ناپختہ کاری کی زندہ نفسیات ہیں۔ یہ ندامت کی بات نہیں ہے۔ ندامت کا تو بلکہ جواز بھی نہیں ہے۔ جواز تب ہو کہ جب یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہو کہ تحریک انصاف ایک مثالی جمہوری جماعت ہے۔ سچ یہ ہے کہ تحریک انصاف اور باقی جماعتوں کے بیچ فرق صرف اس بات کا ہے کہ باقیوں کو میدان کے گز ناپنے کا موقع مل چکا ہے اور تحریک انصاف پر میدان کا دروازہ اب کھلا ہے۔ اب جب دروازہ کھلا ہے تو مجنوں کواس حقیقت کا احساس ہورہا ہے کہ محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا۔ یہ حقیقت سامنے آتے ہی کچھ دوست گھبراگئے ہیں۔ گھبرانے کا نہیں یہ کچھ بنیادی سی باتوں پر غور کرنے کا لمحہ ہے۔

ہم مفروضوں کا پورے اعتماد کے ساتھ اتنا گھوٹالا بنادیتے ہیں کہ اسے حقیقت ہی سمجھ لیتے ہیں۔ ہم معاشی اقتصادی معاشرتی اخلاقی سیاسی علمی اور سیاسی طور پر زبوں حال ہیں مگر ہم نے فرض کررکھا ہے کہ دنیا ہمارے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔ ہم سامنے کی دیوار کا نوشتہ پڑھنے سے محروم ہیں، مگرہم نے فرض کیا ہوا ہے کہ ہماری مومنانہ فراست یروشلم کی دیوارِ گریہ پہ چلتی ہوئی چیونٹی کے عزائم بھانپ رہی ہے۔ ہم فرقہ پرستی کی سب سے بدترین قسم کا شکار ہیں، مگرہم نے فرض کررکھا ہے کہ مثالی اسلامی ریاست کی تقدیر خدائے بزرگ وبرتر نے ہمارے ہاتھ کی لکیروں میں کہیں لکھ رکھی ہے۔ اسی طرح شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، فردوس عاشق اعوان، نذر گوندل، بابر اعوان، فواد چوہدری، یارمحمد رند، اسحق خاکوانی، خورشید قصوری، حلیم عاد ل شیخ، غلام مصطفی کھر اور باقی رہنما جمہوریت کے کسی اصول کی بجائے روایتی سیاسی طریقوں سے تحریک انصاف میں آئے ہیں مگرتحریک انصاف کے ہمدردوں نے فرض کیا ہوا ہے کہ تحریک انصاف ایک ایسی جمہوری جماعت ہے جس کی مثال پورے برصغیر میں کہیں نہیں ملتی۔

یہ بات کس شدت کے ساتھ فرض کرلی گئی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ اب جب عمران خان جہانگیرترین کے بیٹے کو امیدوار کے طور پر نامزد کررہے ہیں تو پی ٹی آئی کے سجیلے ہمدرد سچ مچ کے صدمے سے دوچار ہوگئے ہیں۔ اعتماد کے ساتھ عمران خان سے کہہ رہے ہیں کہ آپ کے اس غیرجمہوری ا قدام کی ہمیں توقع نہیں تھی۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے بلی سے کہا جائے کہ تم سے مجھے توقع نہیں تھی کہ تم دودھ پی جاؤ گی۔

چیزوں کو غیرضروری طورپرفرض کرنے کا انجام یہ ہوتا ہے کہ ہم حقیقت کی دنیا سے بہت دور چلے جاتے ہیں۔ ہم کچھ سچائیوں کا انکار کرکے اپنی مشکلیں بڑھادیتے ہیں۔ مثلا سچائی یہ ہے کہ تحریک انصاف دراصل عمران خان کا ہی دوسرا نام ہے۔ بالکل اسی طرح کہ جس طرح مسلم لیگ نواز شریف کا اور پی پی پی بلاول کا دوسرا نام ہے۔ سچائی یہ ہے کہ لوگ عمران خان کو پسند کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح کہ جس طرح لوگ بلاول کو نواز شریف کو یا اسفندیار ولی خان کو پسند کرتے ہیں۔ سچائی یہ ہے کہ ایک سطح پر عمران خان سے لوگوں کی محبت غیرمشروط ہے۔

بالکل اسی طرح کہ جس طرح مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی سے ایک سطح پر لوگوں کی محبت غیر مشروط ہے۔ اب مشکل یہ ہے کہ پی ٹی آئی کا معصوم الطبع کارکن اورہمدرد ایک صورت کو موروثیت کہتا ہے دوسری صورت کو جمہوریت۔ حالانکہ دونوں جگہ شخصیت کا سحر کارفرما ہے۔ اصول کا سوال تو دونوں طرف نہیں ہے۔ بات اصول کی ہی کرنی ہے تو پھر اصول کی بات تو وہی ہے جو فاطمہ بھٹو کہتی ہیں، مگر خلق خدا بلاول کے ساتھ ہے۔ درست بات تو وہی ہے جو بیگم نسیم ولی نے کہی، مگر لوگ اسفندیارولی خان کے ساتھ ہیں۔ منشور تو وہی ہے جس پر مولانا سمیع الحق کھڑے ہیں، مگر لوگ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اسی طرح نظریہ تو وہی ہے جو جسٹس (ر)وجیہہ الدین صدیقی بیان کرتے ہیں، مگر لوگ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

انٹراپارٹی الیکشن؟ انٹرا پارٹی الیکشن بھی ”چلو فرض کرتے ہیں“ پر بے پناہ پیسہ پھونکنے کی ایک مشق ہی توہے۔ ایک ایسی مشق کہ جس کا مقصد دوسروں سے اپنا ایک ظاہری سا فرق جتلانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اچھا ایک کام کیجیے۔ پوری پی ٹی آئی کو ایک طرف پرانے پرچم کے ساتھ کھڑا کردیجیے، خان صاحب کو نئے نام اور نئے پرچم کے ساتھ تنہا دوسری طرف کھڑا کردیجیے۔ اب کارکنوں سے پوچھ لیجیے کہ پی ٹی آئی میں جانا ہے کہ خان صاحب کے پاس جانا ہے؟ دو پیسے ضائع کیے بغیر سوال کا جواب سامنے آجائے گا۔ اب پی ٹی آئی میں اور باقی جماعتوں میں فرق کیا ہوا؟ یہی نا کہ جو جواب باقی جماعتیں مفتے میں حاصل کرلیتی ہیں وہی جواب پی ٹی آئی بیش بہا وسائل پھونک کر حاصل کررہی ہے۔ جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جس کایہ امتیاز بلاتردد تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ وہ بہت کم وسائل میں بہت معیاری نظمِ انتخاب قائم کرتی ہے، مگر اس بنیاد پر پی ٹی آئی کا کارکن جماعت کو ووٹ دینا پسند کرے گا؟

دیکھیے، جمہوریت میں مرکزی حجت لوگوں کی رضامندی اورتائید کو حاصل ہے۔ خان صاحب کو اگر لوگوں کی تائید حاصل ہے تو اس سے بڑی کوئی حجت نہیں ہے۔ اب یہ تائید بیانوے کے ورلڈ کپ کی وجہ سے ہو یا شوکت خانم کی وجہ سے، ایاک نعبد وایاک نستعین کی وجہ سے ہو یا ناشائستہ انداز تخاطب کی وجہ سے، پنڈ دادن خان کے کسی حجرے میں رکھی ایک خستہ سی چارپائی پر سونے کی وجہ سے ہو یا لیونارڈو کی طرح ہیلی کاپٹر سے اترنے کے انداز کی وجہ سے، جو بھی وجہ ہو اس سے ووٹر کا حقِ انتخاب مجروح نہیں ہوتا۔ کسی ووٹر کا معیارِ انتخاب ٹھیک نہیں ہے تو اس بات ہوسکتی ہے، تذلیل نہیں کی جاسکتی۔ بلاول کو جیالے نے اتنی ہی رضامندی سے ووٹ دیا ہے جتنی رضامندی سے کسی محب وطن نے عمران خان کو دیا ہے۔ جس کے پاس جس کو بھی پسند کرنے کے لیے آج کی تاریخ میں جو بھی وجہ ہے، وہی وجہ آج کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ اس حقیقت سے ہم اس درجے میں انکار کردیتے ہیں کہ کل کو ہماری ہی بات ہمارے منہ پہ لوٹ آتی ہے۔ ایسے میں دو رستے ہوتے ہیں۔ یا اپنی غلطی تسلیم کرلیں یا اپنے غلط کو درست ثابت کرنے کے لیے دوسری غلطی کی جائے۔ اس ہنگامہِ دہر میں ہم نظمِ اجتماعی کو متاثر کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔

ہم بنجرزمین میں آرزوؤں کے کچھ بیج بودیتے ہیں جو آخرکو ہمیں مایوسی دیتے ہیں۔ مثلا کسی بھی حادثے کے بعد عمران خان یہ کہہ کر حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیتے ہیں کہ ایسا مغرب میں ہوا ہوتا تو وزیراعظم مستعفی ہوجاتا۔ معصوم ہمدردوں نے یہ تصور کرلیا ہے کہ کل کلاں خان صاحب اگر وزیراعظم ہوئے اور کوئی حادثہ ہوگیا تو خان صاحب مستعفی ہوجائیں گے۔ مگر ایک ایسا شہری جو محب وطن نہ ہو وہ کبھی خان صاحب کے اس دعوے کو حقیقت تصور نہیں کرے گا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ پختونخوا میں کسی بھی حادثے، کوتاہی یا الزام کی صورت میں ایسا نہیں ہوا۔ کل کو خان صاحب اگر وزیراعظم ہوئے تو بھی ایسا نہیں ہوگا۔ ایسا ہوگیا تو پھر ہر دو ماہ بعد ملک میں انتخابات کروانے پڑیں گے۔ کل کو خان صاحب کے مستعفی نہ ہونے کی جو بھی وجہ ہوگی وہی وجہ آج کسی وزیراعظم کے مستعفی نہ ہونے کی ہے۔ اب کل کو اگر خان صاحب نے استعفی نہیں دیا تو کیا سیاسی کارکن سیاست سے ہی مایوس ہوجائے گا، جیسا کہ وہ علی ترین کی نامزدگی پر مایوس ہوگیا ہے؟ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

خان صاحب کی پیروی گناہ نہیں ہے، بس کچھ حقیقتوں کو آج ہی قبول کرلینا چاہیے تاکہ کل کا صدمہ اتنا شدید نہ ہو کہ سیاست سے ہی دل اٹھ جائے۔ تسلیم کرلینا چاہیے کہ علی ترین کے انتخاب کی آج جو وجہ ہے، یہی وجہ بے نظیر بھٹو کے جوتے میں بلاول کا پاؤں رکھنے کی تھی۔ ان چھوٹی چھوٹی سچائیوں کو بروقت تسلیم کرنے کے نتیجے میں نوجوانوں کی سیاست سے وابستگی پائیدار ہوجائے گی۔ سوال صرف مایوسی کے امکان کو کم سے کم رکھنے کا ہے۔ مایوسی کے امکان کو کم کرنے کی ضمانت صرف حقیقت پسندانہ رویے کے پاس ہے۔

حقیقت پسندی یہ نہیں کہ خزاں سے بہار کی امید لگالی جائے، اور یہ تو بالکل بھی نہیں کہ خزاں کوہی بہار فرض کرلیا جائے۔ حقیقت پسندی یہ ہے کہ شجر سے پیوستہ رہ کر بہار کی امید رکھی جائے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ شعر میں زلف کی گرہ لگانا اور زلف کو سر کرنا دو مختلف باتیں ہیں۔ ہماری سیاسی اخلاقیات بھی مغربی خطوط پر استوار ہوں یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے، مگر وصال ِیار فقط آرزو کی بات تونہیں ہے نا صاحب۔ ہم یا توسیدھا چاند پر بستر ڈالنا چاہتے ہیں یا پھر خود پر زندگی کے سب دروازے بند کردینا چاہتے ہیں۔ اس بیچ کی جو دنیا ہے وہاں کوئی پل باندھنا نہیں چاہتے۔ یعنی ہم زلف تو سر کرنا چاہتے ہیں مگر آہ کے اثر ہونے میں جو عمر لگتی ہے اس سے فرار بھی ہونا چاہتے ہیں۔ تسلسل اور صبر نہ ہو تو شب ِ فراق کا دورانیہ فطری مدت سے بھی طویل ہوجاتا ہے۔ اتنا طویل کہ الفت کی حسرت ہی مرجاتی ہے۔ ڈوبتی حسرت کو حقیقت پسندانہ رویہ ہی تھام سکتاہے۔ صرف حقیقت پسندانہ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).