پیار ہمیشہ اندھا ہوتا ہے


میں ان دنوں پڑھائی کے ساتھ ساتھ دنیاوی لالچ اور پیٹ کی پوجا پاٹ کے لئے ایک سنوکر کلب میں پارٹ ٹائم منشی گیری کی ملازمت کرتا ہوں۔ اس دیس کے قواعد و ضوابط کچھ ایسے نرالے ہیں مطلب مشرق و مغرب سے آنے والے نئے نئے پنچھی اپنے اپنے رسم ورواج، دین دھرم اور وراثتی پابندیوں سے آذاد ہوکر چار دن کے تعلیمی سفر میں ”جیسا دیس ویسا بھیس“ والا فارمولا اپناتے ہیں اور نئے نویلے دیس کے نئے نئے اصولوں میں مکمل طور پر شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے ان بے چاروں کا یہ حق بھی ہے۔

بالکل ایسے ہی لیلی مجنوں کے تپتی ریت والے، ہیر رانجھا کے زہریلے اور سونی مہینوال کے پانی میں ڈبکیاں کھاتے پیار و محبت سے بالاتر ہو کر مرزا صاحبان اور ٹائی ٹینک فلم والے عشق کے جذبے سے سرشار ہو کر پیار محبت کا حقیقی مزا بھی لیتے ہیں۔

اسی طرح سچے پیار کی ایک کہانی مصر کی گوری نشیلی آنکھوں، لال ہونٹوں پر لال لپ اسٹک، زرد چہرے، گھنگریالے بالوں، نرم و ملائم پتلی کمر اور چھ فٹ دراز قد والی زلیخا نما سولہ سالہ حسینہ زومری (Zoumry) اور افریقی ملک مراکش سے تعلق رکھنے والا کوئی پانچ فٹ لمبا، لمبی ناک اور اونٹ نما پاؤ پاؤ بھر کے کالے ہونٹ، اندر اور آگے سے دو دو بڑھے ہوئے اضافی دانت اور کالی شکل والے جیمز(James) نامی عاشق کی ہے۔ یہ پریمی جوڑا میری یونیورسیٹی میں آئی ٹی( IT) کا طالب علم ہونے کے ساتھ میرے سنوکر کلب کا باقاعدہ گاہک بھی ہے۔ اب ان کے ساتھ میری خاصی دعا سلام بھی ہے۔

شروع شروع میں یہ عاشقی مجھے گھاٹے میں پڑی۔ پہلے دن جب میں نے اس جوڑے کو ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، پیار محبت کی محبوبانہ سرگوشیاں کرتے، گوری نشیلی آنکھوں کا کالی آنکھوں کو پیار کے انداز میں دیکھتے اپنے سنوکر کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوئے دیکھا تو چکرا سا گیا۔ میں دیوانہ وار انھیں مسلسل تکے جا رہا تھا۔ میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا دیکھ رہا ہوں اور کیوں دیکھ رہا ہوں۔ انھوں نے سنوکر کھیلنا شروع کر دی میں نے اپنی آنکھیں مانیڑ کرنے والے کمپیوٹر پر جما دی اور ان کے پیار کے کھیل کو چپکے سے دیکھتا رہا۔ اس دوران زومری کی اپنے مجنوں کے ساتھ پیار بھری محبت کی سرگوشیاں اور معشوقانہ لاڈ کا عاشقانہ منظر دیدنی تھا۔ یہ نظارہ ایک طرف لئے فطری جلن کے ساتھ ساتھ پیار کی روح کا ایک حقیقی عکس بھی عیاں کر رہا تھا تو دوسری طرف پیار و محبت کی بغیر کسی رنگ و نسل، شکل و صورت، ملک اور دین و دھرم کے ہمیشہ دنیا میں زندہ رہنے کی گواہی دے رہا تھا۔

ان کے پیار و محبت کے جادو میں اس دن میرے ہوش و حواس ایسے اڑے کہ شام کو میرے کیش میں 75 ڈالر کم پڑگئے اور مجھے 50 ڈالر جرمانے کے ساتھ 125 ڈالر ان کی محبت کا کفارہ ادا کرنا پڑا اور ساتھ ہی مالک کا غصہ بُونس میں بجلی کی طرح مجھ پر گرا۔ لیکن خیر پہلا دن خدا خدا کر کے گزر ہی گیا۔

دوسرے دن جب میں یونیورسٹی گیا تو پھر اسی پریمی جوڑے سے کونسلنگ حال میں ٹکر ہوگئی اب کی بار ٹکر کی شدت تھوڑی کم تھی اس لئے کوئی خاص نقصان نہیں ہوا اور نہ ہی مجھے کوئی کفارہ بھرنا پڑا۔ ان کی انوکھی محبت کی وجہ سے آہستہ آہستہ اس جوڑے کے ساتھ میری قربت بڑھنے لگی۔ جب ہماری پہلی ہیلو ہائے ہوئی تو میں زومری کے لال ہونٹوں سے نکلنے والی سریلی آواز سن کر دنگ رہ گیا ایسے لگا جیسے قدرت نے اس کو ہاتھوں سے بنایا ہو۔ ہمارے بھائی جیمز میں اوپر والے نے شکل و صورت کا سارا گھاؤ اس کی سیرت اور میل ملاپ کے پیارے انداز میں پورا کر لیا۔ یہاں تعارف کے بعد ایک دوسرے کے ملکوں کی اچھائیاں بریاں ہوتی ہیں ہم تینوں ایک جیسے ملکوں کے باشندے ہونے کی وجہ سے آپس میں زیادہ چھیڑ چھاڑ نہیں کی۔ ہمارا یہ ملاپ آدھے گھنٹے کا تھا۔

پھر یکے بعد دیگرے ہماری ملاقاتیں ہوتی رہی۔ اب ہم ایک دوسرے کے زیادہ قریب ہو گئے تھے۔ میں نے ایک دن کیفٹیریا میں کافی پیتے ہوئے زومری سے کھلتے ہوئے پوچھا ” آپ نے جیمز میں کیا دیکھا جو اپنا دل اسے دے بیٹھی“ یہ سوال سنتے ہی اس کے چہرے کا رنگ اچانک زرد پڑ گیا، گوری نشیلی آنکھیں جیسے باہر آنے لگی ہوں، ایسے لگا جیسے اس کا دماغ چکرانے لگا ہو اور غصے سے تھرتھراتی ہوئی آواز میں ایک جھٹکے سے بولی ”کیا نہیں ہے اس میں؟ بتاو! مجھےجواب دو“ اس کا پورا وجود کانپ رہا تھا اس کی آواز سن کر کیفٹیریا کے سارے لوگ ہماری طرف گھورنے لگے۔

میرے اوپر ایک سکتہ سا تاری ہوگیا اور میرے پاس جواب دینے کے لئے کچھ نہ تھا۔ میں آئیں بائیں شائیں کرتارہا۔ اتنے میں جیمز نے اپنی محبوبہ کا محبوبانہ انداز میں غصہ ٹھنڈا کیا اور ایک پانی کا گلاس یہ کہہ کر ”پلیز میرے لیے پی لو“ پیش کیا۔ مجھے اپنی کوتاہی اور ایک عاشق کے عاشقانہ جذبے کو ٹھیس پہنچانے کی بدولت دو بار سوری کرنا پڑا۔ عاشق نرم دل ہونے کے ساتھ ساتھ معافی کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھتا ہے۔ اس دن انھی دروازوں میں سے مجھے بھی معافی کا دروازہ مل گیا۔

آج ہماری ملاقات پھر سنوکر میں ہوئی انھوں نے اپنا محبت اور رومانس بھرا گیم کھیلا میں ہمیشہ کی طرح دل ہی دل میں ایک حسرت کے ساتھ ان کے پیار کے انداز کو تکتا رہا۔ گیم ختم ہونے کے بعد ہماری معمول کی گپ شپ ہوئی۔ اب کی بار میرے اندر ہمت نہ تھی کہ پیار کے بارے میں کچھ سوال کر سکوں۔ لیکن ان کے مسکراتے چہرے، پیار کے نشے والی رنگیلی آنکھیں اور باتوں باتوں میں ایک دوسرے کا انتہا کا احساس بتا رہا تھا کہ پیار ہمیشہ اندھا ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).