کیا یہاں شوہر بھی ریپ ہوتے ہیں؟


علامہ اقبال نے شکوہ لکھا تو جواب شکوہ بھی لکھا۔ روایت یہی ہے کہ کٹ ملاؤں کے اشتعال سے جان چھڑانے کے لئے علامہ اقبال نے جواب شکوہ لکھ کر اتمام حجت کر دیا۔ حضرت علامہ اقبال کے خیال اور ہنر کی پرواز تک رسائی کا میں سوچ بھی نہیں سکتی۔ پھر بھی ایک ادنی سی کوشش کر رہی ہوں۔ اپنی پچھلی تحریر کے یک طرفہ ہونے کو متوازن کر رہی ہوں۔ اگر اب یہاں بھی آپ کو عورت مردوں کے ظلم کا شکار بنا کر کھڑی کر کے دکھا دوں تو بہت سارے پڑھنے والے مزید مشتعل ہو جائیں گے۔ یقین کریں کہ میں مردوں کے خلاف نہیں ہوں۔ چلیں کسی تعصب کے بغیر مردوں پر ہونے والے ریپ پر قلم کو حرکت میں لاتی ہوں۔

ریپ کسے کہتے ہیں؟ پہلے عرض کر چکی ہوں۔ عورتوں کے ہاتھوں مردوں کا جنسی استحصال ہونا کوئی اچھوتی بات نہیں۔ یہ بھی ہو رہا ہے۔ پوائنٹس میں بیان کرتی ہوں کہ کب اور کیسے۔

مرد تھکا ہارا دفتر یا کام سے لوٹا ہو

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مرد بیرونی مسائل کی وجہ سے، روٹی پانی کے چکر میں یا کسی بھی ذاتی جسمانی یا جذباتی تھکن کا شکار ہوتا ہے۔ اس وقت بیوی کی اٹھکیلیاں اور شکایت کہ آپ کو مجھ میں کوئی دلچسپی نہیں رہی یا الزام کہ آپ کا باہر معاشقہ ہے۔ مرد کو زیادہ تھکا دیتا ہے۔ یہاں یہ بات عورت کو سمجھنی چاہیے کہ مرد ہر لمحہ آپ کے حسن اور نسوانیت کا اسیر نہیں رہ سکتا۔

اور بھی غم ہیں زمانے میں محبّت کے سوا

آپ خواتین مرد سے اس کے اس رویے پر اس سے بات کر کے اس کی فکر کو دور کرنے میں معاونت کیجئے۔

جسمانی کمزوری یا بیماری

اب یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس کے ساتھ مرد پہلے ہی لڑ رہا ہوتا ہے۔ بار بار ہمبستری کی فرمائش کر کے اس کی تکلیف میں اضافہ نہ کیا جاتے۔ بلکہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھ کر مرد کا علاج معالجہ کروائیں اور مردوں کو بھی اس مسئلے پر عورت کو اعتماد میں لے لینا چاہیے۔ اور یہ مسئلہ لاعلاج نہیں۔ عورتتیں مرد کے رہے سہے اعتماد کو بھی ختم کر دیتی ہیں۔ اس کو برے رویے، دھتکار اور بار بار احساس دلا کر کہ میری امنگیں پوری نہیں ہو رہیں۔

موڈ ہی نہیں ہے

اب یہاں بات ہوتی ہے کہ مرد کا ریپ ہو ہی جاتا ہے۔ وہ ایسے کہ درج بالا وجوہ میں صرف مرد کا استحصال ہوتا ہے۔ بے عزتی ہوتی ہے۔ یہاں حقیقتاً ریپ ہو جاتا ہے۔ عورت مرد کو اپنی جسمانی نسوانی کشش اور پرجوش فور پلے سے مرد کو مجبور کر دیتی ہے کہ اس میں تحریک پیدا ہو۔ اس تحریک کے نتیجے میں پیدا ہونے والا میلان کسی طور محبّت نہیں کہلاتا۔ بس عورت نے وہ آگ لگائی اور مرد کو وہ آگ بجھانا پڑی۔

عورت کی دھمکی

عورت کی دھمکی کہ میں چلی جاؤں گی گھر چھوڑ کر کیونکہ تم میرے احساسات کی تسکین عین میری مرضی کے وقت پوری نہیں کرتے ہو یا تم بد ترین شوہر ہو۔ ایک تو تم یہ نہیں لا کر دیتے، وہ نہیں کرتے، فلاں کا میاں یوں ہے، فلاں کا میاں ایسا آئیڈیل ہے۔ ویسے ہے۔ اوپر سے تم مجھ میں کوئی جسمانی کشش محسوس نہیں کرتے حالانکہ میں اتنی حسین ہوں۔ اب شوہر نے اس کے حسن کی اور نسوانیت کی، یہ سب سہنے کے بعد تسّلی کروا بھی دی تو کیا یہ مرد پر جبر نہیں۔ بالکل جبر ہے۔

خواتین اپنے لئے خود ہی طوفان بلاتی ہیں پھر جب مرد کی سرد مہری کا سامنا ہوتا ہے تو خود ہی روتی ہیں۔ خدا کے لئے ایک دوسرے کے جسموں کو نہیں، دماغوں کو قبضے میں لیں تا کہ ایک پر امن گھر کی تشکیل ہو۔ یوں ایک ایک گھر کر کے پورا ملک ہی امن کا گہوارہ بننے گا۔ بد امن گھروں سے نکل کر ہم کہاں امن قائم کر پائیں گے۔ عورت مرد کی عزت ہے اور اسے اس کا پاس بھی ہے۔ اب یہ عورت پر ہے کہ وہ اس عزت کے تاج کو کیسے سنبھالتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).