فوج کا ڈسپلن اور آئین کی خلاف ورزی



پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کا یہ بیان خوش آئیند ہے جس میں انہوں نے وفاقی وزیر سعد رفیق کے بیان پر آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور کے تبصرہ اور رد عمل کو بلا جواز قرار دیاہے۔ ملک میں مقابلہ بازی اور شدید سیاسی تصادم کے ماحول میں ان کا یہ بیان ایک اصولی مؤقف ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ سعد رفیق نے اپنے بیان میں کوئی نازیبا یا غیر قانونی بات نہیں کہی تھی۔ انہوں نے عمومی طور پر فوج کے سیاست میں مداخلت کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کا خیر مقدم کیا تھا کہ پاک فوج کے سربراہ نے ملک میں جمہوریت کے تسلسل کی یقین دہانی کروائی ہے۔ گزشتہ روز پریس بریفنگ کے دوران میجر جنرل آصف غفور نے سعد رفیق کے بیان کو ’غیر ذمہ دارانہ اور غلط ‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس بیان میں مبینہ طور پر آئین کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا تھا کی اگر فوج سے آئین کی پاسداری کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو دوسرے لوگوں کو بھی اپنی آئینی حدود میں رہنا چاہئے۔

وفاقی وزیر ریلوے نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ سعودی عرب روانہ ہونے سے پہلے ایک بیان میں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائرکٹرجنرل کے بیان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک طویل تقریر سے چند الفاظ چن کر ان پر تبصرہ کرنا افسوسناک ہے۔ وہ فوج کے ڈسپلن کے بارے میں منفی نکتی چینی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ خورشید شاہ نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان کے نزدیک اس بیان میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں تھی اور میجر جنرل آصف غفور کو ایسے بیان پر اتنے سخت رد عمل کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے تھا۔ میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ سعد رفیق نے آرمی چیف کی طرف سے جمہوریت کی حمایت کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا انہیں یہ بات اپنے نائبین کو بھی سمجھانی چاہئے۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ کا کہنا تھا کہ یہ تبصرہ فوج کے ڈسپلن پر سوال اٹھانے کے مترادف ہے کیوں کہ فوج ایک چین آف کمانڈ کے تحت کام کرتی ہے اور اسی لئے دنیا کی بہترین افواج میں شمار ہوتی ہے۔ کوئی آرمی چیف کے حکم سے سرتابی کی مجال نہیں رکھتا۔ انہوں نے پاک فوج کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ فوج ایک منظم ادارہ ہے ۔ اسی لئے آرمی چیف جس طرف اشارہ کرتے ہیں تو پوری قوم اسی طرف دیکھنے لگتی ہے۔ انہوں نے سعد رفیق کے بیان کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاک فوج آئین کا احترام کرنے کی پابند ہے لیکن ملک کے ہر شہری پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آئین کے تحت قائم اداروں کا احترام کرے۔ اگر اس حوالے سے لائن عبور کی جائے گی تو انتشار پیدا ہوگا۔

میجر جنرل آصف غفور نے یہ سخت بیان ایک ایسی پریس کانفرنس میں دیا جو امریکہ کی طرف پاکستان کو ملنے والی دھمکیوں کے تناظر میں بلائی گئی تھی اور جس میں پاک فوج کے ترجمان یہ دعویٰ بھی کررہے تھے کہ پاکستان میں گھس کر کارروائی کرنے کی دھمکیاں دینے والوں کو پتہ ہونا چاہئے کہ ہم باہمی اختلافات کے باوجود قومی وقار اور سلامتی کی حفاظت کے لئے یاک جان اور متحد ہیں۔ فوج کے اعلیٰ ترین نمائندے نے جس لب و لہجہ میں ایک وفاقی وزیر کو آئین شکنی کا مرتکب قرار دینے کی کوشش کی اور پاک فوج کو محافظ اور رہنما ادارے کے طور پر پیش کیا ہے، وہی مزاج اور ذہنیت اس ملک میں مسائل کی جڑ ہیں۔ اسی لئے اپوزیشن لیڈر نے حکمران جماعت کے ساتھ سخت اختلافات کے باوجود میجر جنرل آصف غفور کے بیان کو غلط قرار دیا ہے۔

پاک فوج کے ترجمان نے اپنے ادارے کو مظم ترین ادارہ قرار دیا اور یہ واضح کیا کہ اس کے ڈسپلن کے بارے میں شکوک شبہات کی باتیں کرکے انتشار پیدا کیا جاسکتا ہے۔ انہیں اس بات کی وضاحت کرنی چاہئے کہ فوج کے نمائیندے کے طور وہ ایک پریس کانفرنس میں کیوں کر ایسے معاملات کے بارے میں خیالات کا اظہار کرسکتے ہیں جو ملک میں طاقت کے توازن کے مسلمہ اصولوں سے متصادم ہیں۔ آئی ایس پی آر کو اگر کسی بھی وزیر یا سیاست دان کے بیان پر شکایت ہے تو اس کا مناسب طریقہ تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ وہ اس کی رپورٹ اپنے سینئرز کو کرتے اور باہم مشاورت سے وزارت دفاع کے ذریعے اس حوالے سے شکایت حکومت کو روانہ کی جاتی۔ تب ہی کسی بیان کی اآئینی یا قانونی حیثیت کا تعین بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم جب آئی ایس پی آر کے سربراہ کی حیثیت سے میجر آصف غفور قومی سلامتی کے بارے میں پریس کانفرنس میں ایک غیر متعلقہ سوال پر نہایت درشت اور سخت جواب دیتے ہیں تو اس سے فوج کے نمائیندہ کے طور وہ خود کو ملکی سیاست اور نظام کے حوالے سے برتر و بالا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں خود اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ ایک وزیر کی آئین شکنی کا سراغ لگاتے ہوئے کہیں وہ خود قانون شکنی کے مرتکب تو نہیں ہوئے۔

فوج کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ وہ ادارے کے اندر اور اپنے افسروں کے بارے میں تو بہت حساس ہے لیکن ملک کے سیاسی نظام اور آئینی انتظام کے بارے میں اس کا رویہ اس ڈسپلن کا آئینہ دار نہیں ہوتا جس کی فوج اور اس کے نمائندوں سے توقع کی جاتی ہے۔ اسی لئے ملک میں یہ قیاس آرائیاں کرنے والوں کی کمی نہیں ہے کہ فوج کب اور کون سا سیاسی فیصلہ کرنے والی ہے۔ ایسی صورت میں آرمی چیف کی ایک یقین دہانی صورت حال کو تبدیل نہیں کرسکتی۔ اس کے لئے فوج کے ترجمان سمیت سب افسروں کو یہ یقین دلانا ہوگا کہ وہ خود کو برتر و اعلیٰ سمجھتے ہوئے دوسروں کو حقیر اور کمتر نہیں سمجھتے۔ فوج کے اسی احساس تفاخر کی وجہ سے ملک چار بار غیر آئینی فوجی حکمرانوں کو بھگت چکا ہے۔

اس بے بنیاد احساس برتری کا اظہار میجر آصف غفور کے اس بیان سے بھی ہوتا ہے کہ ’آرمی چیف جدھر اشارہ کرتے ہیں، سب اسی طرف دیکھنے لگتے ہیں‘۔ اس طرح وہ فوج اور اس کے سربراہ کو ملک کا واحد رہنما قرار دینے کی فاش غلطی کررہے ہیں۔ انہیں جاننا چاہئے کہ یہ تصور سیاست میں فوج کی بار بار مداخلت اور فوج کی طرف سے خود غلطیوں سے پا ک ہونے کے اعلانات کی وجہ سے ہی پیدا ہؤا ہے۔ ملک کی رہنمائی کا حق عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی پارلیمان کو حاصل ہے۔ فوج، اس کے سربراہ اور ترجمان کو بھی یہ سبق یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ آئین کسی ایسی اصطلاح کا نام نہیں ہے جس کی وضاحت فوج کے ترجمان پریس کانفرنسوں میں کریں اور اسے من و عن تسلیم بھی کرلیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali