جاوید اختر کی تازہ نظم: سیاسی ہواؤں کے بارے میں فرمان امروز


آج کل ہماری زندگی میں سیاست کا بڑا دخل ہے۔ اس میں ہماری مرضی شامل نہیں ہے۔ پھر بھی ہر جگہ سیاست ہی سیاست نظر آتی ہے۔ ہماری پاکستانی جمہوریت میں بھی سیاست کا بڑا عمل دخل نظر آرہا ہے۔ جمہوریت کی تبلیغ اور سیاست کی ترکیب نے ملک بھر کو بھونچال کی سی کیفیت سے دوچار کررکھا ہے۔ ہمارا ہمسایہ بھارت بھی کچھ ایسی کیفیت سے دوچار نظرآتا ہے مگر ان کی مالی اور معاشی حالت ہم سے بہت بہتر لگتی ہے۔ ان کے ہاں بھی جمہوریت کا ترانہ بہت پڑھا جاتا ہے اور ان کی سیاست بھی ہم سے ذرا کم نہیں۔ بھارت میں بی جے پی کی سرکار ہے وہ بھی سرکاری مسلم لیگ کی طرح بہت سی باتوں کی دعویدار ہے۔ مگر کچھ صوبوں کے انتخابات حالات بدلنے کی خبر دے رہے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی عالمی سیاست میں تو بہت کامیاب مگر اب بھارت میں ان کی جماعت اور سرکار کو مشکلات کا سا منا ہے۔ کانگرس مضبوط ہورہی ہے۔ پھر جمہوریت کا پرانا اصول تبدیلی نظر آرہی ہے۔ ہمارے ہاں بھی تبدیلی کے لیے لوگ باتیں ضرور کررہے ہیں۔

ہمارے ہاں تبدیلی کی خواہش کا اظہار زیادہ تر سیاست دانوں کی جانب سے ہے۔ حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ ملک بھر میں انقلاب آچکا ہے۔ اس خطہ کے دونوں ملکوں میں نظریہ کا اختلاف تو بہت ہی پرانا ہے اور بھارتی کبھی بھی دو قومی نظریہ سے متفق نہ ہوسکے اور ہم بھی غیر سنجیدہ ہی رہے اوراس وجہ سے ملک دو لخت بھی ہوا بھارت اورپاکستان میں کرپشن کا معیار تقریباً ایک جیسا ہے۔ پھرنظریہ جمہوریت نے دونوں ملکوں میں کرپشن کوفروغ بھی دیا۔ بھارت کے وزیراعظم پر کرپشن کے الزامات تو نہیں لگے مگر ان کی پارٹی نے کسربھی نہ رکھی اور ابھی بھی وہ سب کچھ کرتی نظر آرہی ہے۔ ہمارے ہاں گزشتہ 70سال سے آمریت اور سول حکومتوں کا دورانیہ تقریباً ایک جتنا سا ہے۔ ترقی پاکستان نے کی، آبادی میں اور جمہوریت کا گیت سنانے میں، مگر مالی، معاشی اور معاشرتی طور پر ہم کمزور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ سیاست دانوں اور نوکرشاہی میں برداشت کا فقدان ہے اور اس وقت پورا ملک غیر یقینی سے دوچار ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس عوام کے لیے کوئی منشور بھی نہیں ہے۔

ہمارے ہاں کے شاعر، ادیب، استاد اورصاحب نظر لوگ اس کشمکش کی کیفیت سے لاتعلق ہیں یا مایوس۔ ان کی طرف سے کوئی حکمت کی بات نظر نہیں آتی۔ بھارت میں بھی ایسا ہی ہے مگر ان کے ہاں ایک ایسا انسان ضرور ہے جو ان حالات میں بھی حکمت کا اظہار کرتا ہے۔ جاوید اختر کو زیادہ لوگ فلمی کہانی کار اورشاعر خیال کرتے ہیں مگر بھارتی سول سوسائٹی میں اس کا کردار ایک معلم کا ہے۔ اب تو گلزار اور جا وید اختر نے شاعری میں کمال کا کام کیا ہے۔ گلزار کو احساس زیاں زیادہ ہے اور جاوید اختر کا اسلوب نادر ہے۔ حالیہ دنوں میں اس کی ایک نظم کی بہت مشہوری ہے۔ ہمارے ہاں مشاعرہ کی سماجی حیثیت مشکوک ہوچلی ہے اور ادیب اور کتابوں پربھی برا ہی وقت ہے۔ مگر بھارت میں ایسا نظر نہیں آتا۔ جاوید اختر نے حالیہ دنوں میں ایک نظم لکھی اور سنائی ہے۔ اور وہ بھارت کے طول و عرض سے نکل کر دنیا میں ہر جگہ اپنی خوشبو پھلاتی نظر آتی ہے۔ بھارت جہاں بہت ہی جمہوریت کا چرچا اور دعویٰ ہے۔ وہاں اس نظم کے بہت معانی نظر آتے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر سیاسی اور سماجی طور پرتقسیم ہے اور امریکی صدر ٹرمپ کے نظریات، خیالات اور عملی کردار نے اقوام متحدہ کو بھی مایوس کیا ہے۔ ایسے میں امریکہ پر کون اعتبار کرے۔ خیر امریکہ بھی ایک جمہوری نظام والا ملک ہے جس کو ایک صدر چلاتا ہے۔ پھر بھارت میں ایک وزیراعظم جمہوری آمریت کا پرچار کرتا ہے۔ وہاں کے ماحول میں نظم ایسی ہے کہ کسی ملک کے تناظر میں وہ حالات کی تفسیر لگتی ہے۔

جاوید اختر کی نظم کچھ اس طرح سے شروع ہوتی ہے۔

کسی کا حکم ہے کہ ساری ہوائیں ہمیشہ چلنے سے پہلے بتا ئیں
کہ ان کی سمت کیا ہے!
ہواؤں کو یہ بھی بتانا ہوگا چلیں گی جب تو کیا رفتار ہوگی
آندھی کی اجازت اب نہیں ہے
ہماری ریت کی سب فصیلیں، یہ کاغذ کے محل جو بن رہے ہیں
حفاظت ان کی کرنا ضروری اورآندھی ہے پرانی ان کی دشمن
یہ سب جانتے ہیں

کسی کا حکم ہے دریا کی لہریں ذرا سرکشی کم کرلیں
اپنی حد میں ٹھہریں
ابھرنا پھر بکھیرنا اور پھر بکھیر کر ابھرنا
غلط ہے ان کا یہ ہنگامہ کرنا
یہ سب ہے صرف وحشت کی علامت، بغاوت کی علامت

بغاوت تو نہیں برداشت ہوگی
یہ وحشت تو نہیں برداشت ہوگی
اگر لہروں کو ہے تو دریا میں رہنا
تو ان کو ہوگا چپ چاپ بہنا

اس وقت ہمارے گردوپیش میں، ملک میں، پڑوس میں، دنیا بھر میں کس کا حکم چل رہا ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کے خلاف ایک دنیا ہے مگرعرضِ فلسطین میں جو کچھ ہورہا ہے اور اس ظلم کو کوئی ظلم بھی نہیں کہہ رہا۔ وحشت کا راج ہے اور دہشت گرد حاکم بن گئے ہیں۔ ہمارے ہاں جو افراتفری اور بے یقینی ہے اس نے ملک بھر میں مایوسی اور بدگمانی کو فروغ دیا ہے۔ ہمارے سیاسی ناخدا جولفظ اور زبان ایک دوسرے کے لیے استعمال کررہے ہیں، وہ قابل گرفت تو ضرور ہیں مگر قابل یقین نہیں۔ ایسے میں عدلیہ کے فیصلے نظر انداز ہورہے ہیں اور عدل کے لیے جلوس اور دھرنے کا سوچا جارہاہے۔ ہمارے ہاں کوئی ماضی کو سمیٹ رہا ہے اور کوئی ماضی کو لپیٹ رہا ہے۔ ملک کے فیصلے ملک سے باہر ہورہے ہیں۔ واہ واہ ہماری جمہور اور ان کی جمہوریت!
ابھی آدھی نظم کا ذکر تھا کہ خیال پریشان ہوگئے۔ جاوید اختر نے نہ جانے کیا سوچ کر یہ سب کچھ لکھا ہے۔ اس کا سوال خوب ہے۔

کس کا حکم ہے اس گلستان میں بس ایک رنگ کے پھول ہوں گے
کچھ آفیسر ہوں گے جو یہ طے کریں گے
گلستان کس طرح بنانا ہے کل کا، یقینا پھول یک رنگی تو ہوں گے
کسی کو کوئی کیسے بتائے، گلستان میں پھول یک رنگی نہیں ہوتے
ہوا ئیں اور لہریں کب کسی کاحکم سنتی ہیں
جب یہ لہریں روکی جاتی ہیں تو دریا بھی بے سکون

اور بے تاب ہوتا ہے
اور بے تابی کا اگلا قدم سیلاب ہوتا ہے
ہم نے دریاؤں کو تھمتے دیکھا
ہم نے صحرا کو رواں دیکھا
پانسے پلٹے تو پلٹ جاتے ہیں لوگ
کون کب کیوں کہاں دیکھا ہے

خیر ایک طویل نظم ہے جو ریاست اور سیاست کے پس منظر میں سوال بھی کررہی ہے اور جواب بھی دے رہی ہے۔ مگر کیا ریاست اور سیاست پر قابض گروہ کو اندازہ ہے کہ طوفان کے بعدانقلاب نہیں آتا اور تبدیلی سے پہلے انقلاب کا کوئی ساتھی نہیں ہوتا۔ دونوں ہمسایہ ملکوں کے مسائل ایک سے ہیں اور ان کی سیاست بھی اور منافقت بھی ایک جیسی۔ جیو اور جینے دو کا اصول نظرانداز ہورہا ہے۔ عدل کی مشہوری کے لیے انصاف اور عدالت کو عوام میں مشکوک کیا جارہا ہے۔ ہمارے ہاں اس ساری صورت حال میں سب ہی بے بس اور لاچار نظر آرہے ہیں۔

اخبار کی سرخی ہر روز بدلتی ہے مگر عوام کے حالات بدلنے کی کوئی اُمید نظر نہیں آتی۔ کچھ کا خیال ہے کہ سب کچھ طے شدہ ہے اور کچھ سوچتے ہیں سب کچھ پہلے سےلکھا ہواہے مگر ہر روز کچھ کردار نیا مکالمہ سنا کر کہانی کوطوالت دے رہے ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ سب ڈرامہ ہے۔ کردار کچھ کم کرنے ہوں گے اور کچھ نئے ایکٹ کے لیے تیار ہورہے ہیں۔ بس کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے۔ کون کس کس کو حکم د ے گا اور کس کا حکم چلے گا۔ باہر کے لوگ اب دوبارہ معافی تلافی کے لیےمشاورت کریں گے! مگر عوام کو معافی کب ملے گی۔ یہ سوال تشنہ طلب ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).