سال رواں میں پڑھی جانےوالی کتابوں کا تعارف (نان فکشن)


1۔ ‘‘اندازِبیاں اور’’ از جمیل اختر: قراۃ العین حیدر کا طویل انٹریو جو آکسفورڈ نے کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔قرۃ العین حید ر کی شخصیت اورخیالات کو ذرا گہرائی میں جاننے کے لیے ایک اچھی دستاویز۔

2۔ ‘‘رومی ، کتابِ عشق’’(Rumi, The Book of Love) از کول مین بارکس: کول مین بارکس مولانا روم کی شاعری کو اب تک کئی کتابوں میں پیش کر چکے ہیں۔برصغیر کے شعر شناس قارئین شاید بارکس کے ذریعے رومی کی خاطر خواہ قلبِ ماہیت کو ایک ناجائز اصراف یا ثقافتی تصرف تصور کریں گے لیکن شاید یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ بارکس ترجمہ نہیں بلکہ رومی کی ایک نئی تشکیل کر رہے ہیں جو دوردراز ثقافتوں کے لئے زیادہ بامعنی ہے۔ میں نے اپنا یہی مفروضہ جانچنے کے لئے بارکس کا رخ کیا اوراس لیے مایوس نہیں ہوا کہ بارکس نے یقیناً ایک نیا رومی تخلیق کر دیا ہے۔ کیا اب ہم مشرقی اور مغربی رومی کے متعلق علیحدہ علیحدہ بات کرسکتے ہیں؟

3۔ ‘‘اقوام جنگ کیوں کرتی ہیں؟’’ (Why Nations Go to War) از جان سٹوسنگر: ایک دلچسپ کتاب جو دس مثالوں کے ذریعے اس سوال کے ممکنہ جوابوں کا خاکہ کھینچنے کی کوشش کرتی ہے۔

4۔ ‘‘مکالمہ’’ (On Dialogue) از ڈیوڈ بوہم: ایک ایسی کتاب جسے بلاشبہ یونیورسٹی نصاب میں ہونا چاہیے تاکہ سماجی مکالمے کے لیے ایک مخصوص معیار پر اذہان کی تیاری ممکن ہو سکے۔بطور نظری طبیعیات دان ڈیوڈ بوہم کا تحقیقی کام کوانٹم تھیوری اور فلسفۂ ذہن میں یکساں اہمیت کا حامل ہے اور انہیں بیسویں صدی کا ایک اہم ترین سائنسدان مانا جاتا ہے۔ ان کی رائے میں مکالمہ ایک ایسا تنقیدی تفاعل ہے جس کا استدلالی اصول اختلاف در اختلاف نہیں بلکہ تخلیق ہو۔ ان کی رائے میں اپنے مفروضوں اور ان سے جڑے نتائج کو تخلیقی طور پر ظاہر کرنا ہی دراصل مکالمہ ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے بارہا یہ خیال آیا کہ کیوں نہ ان کے خاکے کی اطلاقی صورتیں ہمارے ہاں کےسماجی مباحث پر اطلاق کے ذریعے اپنے ہی ذہن میں ابھاری جائیں۔ میری رائے میں ڈیوڈ بوہم کا کام بہت اہم ہے اور میں مستقبل میں اس کی اطلاقی شرحوں تک رسائی کا خواہاں ہوں۔ ان کی رائے میں رائج سماجی مکالمے کا عمل فی نفسہٖ اشکالات کو جنم دیتا ہے کیوں کہ دلیل کے معنی اپنے خود ساختہ مفروضوں ہی کے لئے استدلالی بنیادیں تشکیل کرنے کے ہیں۔مجھے یوں لگا کہ بوہمین مکالمہ ایک غیر خطی مکالمہ ہے جس میں دلیل استدلال کے عمل کو آگے نہیں بڑھاتی بلکہ خود ایک قدم پیچھے ہٹنے کی ہمت بھی دیتی ہے۔

5۔ ‘‘اسطورۂ سسی فس اور دوسرے مضامین’’ (Myth of Sisyphus and Other Essays) از البرٹ کامیو: کامیو کے یہ اہم ترین مضامین اس سوال کو موضوع بناتے ہیں کہ ایک بے معنی اور بے مقصد کائنات میں شعورِ انسانی خود اپنی وجودی تفہیم کس صورت کرے یا اس کے کیا امکانات ہیں؟ کامیو کے بقول ان کی کتاب کا موضوع خودکشی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ وجودی فلسفی نہیں اور ان کا یہ واحد مکمل بیانیہ تو دراصل وجودی فلسفے ہی کا جواب ہے۔ایسا کیوں کر ہے؟اگر آپ نے کامیو کا فکشن نہیں پڑھا تو ‘‘اسطورۂ سسی فس ’’ کو ‘‘اجنبی’’(The Stranger) کے ساتھ ملا کر پڑھیے کیوں کہ یہ لکھی بھی ایک ساتھ ہی گئی ہیں۔ اہل فلسفہ و ادب شاید اختلاف کریں لیکن بطور ایک عام قاری میری یہی رائے ہے کہ وجودی فلسفے اور اس کے جواب میں وہی فرق ہے جو لایعنیت اور معنویت ، یا ہونے یا نہ ہونے میں ہے۔ آخر نہ ہونے پر اصرار بھی تو نہ ہونے کے ہونے پر اصرار ہے ۔خیرآج کامیو کو ایک وجودی فلسفی ہی مانا جاتا ہے۔یہ ایک ایسی کتاب ہے جو کئی ماہ میں پڑھی جانی چاہیے کیوں کہ دوسری کتابوں کی جانب مراجعت کو لازم کرتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ راولپنڈی ائیرپورٹ پر کسی کو لینے گیا تو کتاب گاڑی میں ساتھ رکھ لی۔ پارکنگ میں گاڑی کھڑی کر کے نکلا تو ایک ہاتھ میں کتاب تھی، دوسرے میں گاڑی کی چابی۔ مہمان کو لے کر واپس گاڑی تک پہنچا تو چابی غائب تھی۔ جیبیں تلاش کیں لیکن کچھ پتہ نہ چلا۔ یاد ہے کہ کتاب اب تک ہاتھ میں تھی۔اپنے ہی قدموں پر چلتا ہوا واپس گیا تو چابی ایک جگہ گری مل گئی۔ واپس پہنچا، مہمان کا بیگ بھاری تھا، کتاب ایک لمحے کو گاڑی کی چھت پر رکھی کہ دونوں ہاتھوں سے بیگ ڈگی میں رکھ دوں، بیگ گاڑی میں رکھا، پھر خود بیٹھا اور گاڑی چلا دی۔ گھر پہنچ کر یاد آیا کہ کتاب تو گاڑی کی چھت پر تھی، لیکن اب اس تمام وجودی ہڑبونگ میں حادثہ رونما ہو چکاتھا۔ کامیو کے کافکا والے ضمیمے پر پہنچا تھا۔ کتاب جگہ جگہ سے نشان زد تھی۔اگر کسی دوست کو گر ی ملی ہو تو رابطہ کر کے ثوابِ دارین حاصل کرے۔امکانات کا دائرہ لامتناہی ہے۔ کیا خبر اس وقت میری کتاب کہاں ہے۔

6۔‘‘مردم دریدہ’’ از چراغ حسن حسرت: تعارف کی چنداں ضرورت نہیں۔ چند خاکے تو نہایت ہی دلچسپ ہیں ۔

7۔‘‘دلّی کا پھیرا’’ از ملاواحدی: نہایت مختصر سا حالِ سفرجو آکسفورڈ نے شائع کیا ہے۔

8۔‘‘ہندوستان کی موسیقی’’ از عبدالحلیم شرر: معلومات میں اضافہ کرتا ایک ننھا سا کتابچہ جو آکسفورڈ نے شائع کیا ہے۔

9۔‘‘مضامینِ شوکت تھانوی’’ از شوکت تھانوی: دلچسپ مضامین کا مجموعہ۔ نثری تبرک اپنی جگہ لیکن بہت کم ایسے مضامین ہیں جنہیں یادگار کہا جا سکے ۔

10۔‘‘مسافرانِ لندن’’از مولوی سمیع اللہ خان:مولوی سمیع اللہ خان سرسید کی تحریک سے وابستہ تھے۔ ان کے سفرنامے کو سرسید کے سفرنامے کے ساتھ ملا کر پڑھنا بہت کچھ اعتبارات سے بہت دلچسپ ہے۔

11۔‘‘قوانینِ فکر پر تحقیق’’ (Investigations into the Laws of Thought)از جارج بُول: جارج بُول کی یہ کتاب بلاشبہ پچھلی تین چار صدیوں کے بڑے بڑے کارناموں میں سے ایک ہے۔ یہ کتاب دراصل علامتی منطق کی بانی کتب میں سے ہے جو دکھاتی ہے کس طرح انسانی فکر سے جڑی کلاسیکی منطق کو الجبریائی قوانین میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ انسانی خیال کے ریاضیاتی ڈھانچے سے جدید ڈیجیٹل منطق تک کا سفر کرنا ہو تو یہ کتاب لازمی بلکہ شاید واحد اہم پڑاؤ ہے۔

12۔‘‘ابن سینا کی کتاب النجات’’ (Avicenna’s Deliverance: Logic)از اسد احمد: اسد احمد پرنسٹن یونیورسٹی میں عربی اور اسلامی علوم کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ یونانی عربی منطق ان کی تخصیص کے موضوعات ہیں۔ ابن سینا پر یہ نادر کام  منطق پر ان کی کتاب’‘ النجات’‘ کا انگریزی میں پہلا ترجمہ اور شرح ہے۔کتاب بنیادی منطق پر دسترس کو لازم کرتی ہے لیکن جابجا ایسے تعبیراتی جواہر سے مالامال ہے جو عام قاری کی منطق میں دلچسپی میں اضافہ کر سکتے ہیں۔

13۔‘‘مشرق کے مفکرین’’ (Thinkers of the East) از ادریس شاہ: نظریاتی مباحث کی بجائے تجربے کو اپنا موضوع بناتی ایک اور کتاب جس میں ادریس شاہ نے مختلف مشرقی صوفیائے کرام اور درویشوں کی روایت سے وہ عرق کشید کیا ہے جو وسعتِ معنی میں اپنی مثال آپ ہے۔ دراصل آج کے قارئین کو شاید ادریس شاہ کا کام کچھ خاص منفرد نہ لگے کیوں کہ صوفی ازم جدید مغربی و مشرقی ادب میں ایک جگہ بنا چکا ہے لیکن ساٹھ کی دہائی میں جب یہ کتابیں پہلی بار شائع ہوئیں تو یہ ایک منفرد تحریک تھی۔ میں نے ادریس شاہ سے متعارف ہونے کے لئے ان دو کتابوں کا انتخاب کیا۔

14۔ ‘‘آرٹ کی سماجی تاریخ’’ (The Social History of Art) از آرنلڈ ہاؤسر: چار جلدوں پر مشتمل آرٹ کی سماجی تاریخ کا ایک ضخیم اور سیر حاصل مطالعہ۔ چاروں جلدوں میں قدیم ماقبل تاریخی ادوار میں فن ِ سحر اور فطرت پسندی سے لے کر جدید زمانۂ فلم تک کا احاطہ کیا گیا ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے ذہن میں ایک منصوبہ آیا کہ اس انٹرنیٹ کے زمانے میں کیوں نہ ان تمام ادوار میں سے ہر دور کےچندنمائندہ فن پاروں کی شرح اردو میں بس ایک عام قاری کی نظر سے کی جائے۔ آج گوگل کے منصوبۂ فن و ثقافت کے ساتھ یہ قدرے آسان ہے کیوں کہ آپ گھر بیٹھے اپنا آرٹ میوزیم بنا سکتے ہیں۔ لیکن ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔ بہرحال اگر آپ آرٹ کی سماجی تاریخ پر صرف ایک ایسی کتاب پڑھنا چاہیں جس کا بار بار مطالعہ آپ کو کم از کم ایک فن پارے کو ابتدائی طور پر پڑھنے میں مدد دے سکے تو شاید یہ ایک ایسی ہی کتاب ہے۔

15۔‘‘قراطیسِ ارغواں’’ (Crimson Papers) از حارث خلیق: حارث خلیق صاحب تو خیر کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ کتاب کیا ہے، بس یوں سمجھیے دریا کو واقعی کوزے میں بند کردیا۔میرے جیسے ادنی ٰ قاری کے لئے تو یہی بہت بڑی حیرانی کا مقام ہے کہ ڈیڑھ سو صفحوں میں کیونکر اتنی کامیابی سے اتنے مضامین سے انصاف کرنا ممکن ہے۔ کتاب اسی سال آکسفورڈ نے شائع کی ہے۔

16۔‘‘معنی کی جستجو’’ (The Quest for Meaning) از طارق رمضان: طارق رمضان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ حسن البنا کے نواسے ہونے کے علاوہ ان کی شہرت ایک ایسے تکثیریت پسند مسلمان فرانسیسی مفکر کی ہے جو یورپی سماج میں مذہبِ اسلام کی تفہیم کے لئے سرگرم ہے۔یہ کتاب عام فہم تفلسف کے ذریعے کچھ ایسی سچائیوں کی تلاش پر مبنی ہے جو تمام انسانوں میں مشترک ہیں۔ کیا طارق رمضان اس تلاش میں کامیاب ہوئے؟ میرا جواب ذرامتذبذب نفی میں ہے۔لیکن بہرحال یہ ایک بہت دلیرانہ ہدف ہے۔ میری رائے میں ان کا درست مقام متعین کرنے کے لیے ان کے کام کا موازنہ مغربی سماج میں دوسرے مذہبی تکثیریت پسندوں سے ہی ہونا چاہیے۔

17۔‘‘نوعِ انسان’’ (Sapiens) از یوال نوح ہراری: پچھلے چند سالوں میں شہرت کی چوٹی سر کرنے والی ایک ایسی کتاب جو حیاتیاتی ارتقاء پر ہراری کے منفرد نظریات کا تشکیلی خاکہ ہے۔ان کا کینوس نہایت وسیع ہے جو ایک کے علاوہ تاریخِ انسان کے تقریباً تمام مفروضوں(حقائق؟) کو کسی نہ کسی سطح پر چیلنج کرتا ہے۔ اس کے باوجود ہراری کو اپنے مفروضوں کے ردّ واثبات کی خاطر تجرباتی مال مسالے کی دستیابی کے لئے ایک طویل انتظار کرنا پڑے گا۔

18۔‘‘ایک باغی اور اس کا مشن’’(A Rebel and Her Cause) از رخشندہ جلیل: ترقی پسند تحریک کی سرگرم رکن ڈاکٹر رشید جہاں کی حیات و افکار کا ایک سیرحاصل تعارف۔ کتاب میں رشید جہاں کے اہم افسانوں کا انگریزی ترجمہ بھی شامل ہے۔

19۔ ‘‘زمستانِ کیلاش ’’ (Kaalash Solstice) از ژاں لویڈ اور ویوین لویڈ: ایک منفرد بشریاتی مطالعہ جو ایک نہایت اجنبی ثقافت کی تفہیم کی کوشش میں کم از کم اس حد تک کامیاب ضرور ہوا ہے کہ قارئین بخوبی جان سکتے ہیں کہ اجنبی ثقافتوں کی تفہیم کس حد تک مشکل ہے۔

20۔ ‘‘مبادیاتِ فلسفۂ ریاضی’’ (Introduction to Mathematical Philosophy) از برٹرینڈ رسل: فلسفۂ ریاضی پر ایک اہم ترین کتاب جسے برٹرینڈ رسل کی ‘‘خارجی دنیا کی تفہیم’’(Knowledge of the External World) کے ساتھ ہر اس شخص کو ایک ضمیمے کے طور پر اپنے مسلسل مطالعے کا حصہ بنانا چاہیے جو سائنس، ریاضی اور فلسفے سے شغف رکھتا ہے۔ رسَل اپنے مخصوص انداز میں عدد، ربط، حد، تسلسل اور نسبتوں جیسے تصورات کو ایک ایسے غیرعلامتی طریقے سے موضوع بناتے ہیں جو نظری ریاضی کے رسمی علم کو پیش قیاس نہیں کرتا۔ ان کا بنیادی مفروضہ تو خیر واضح ہی ہے کہ زبان کا ابہام منطق کے لسانی اطلاقات کو تعین سے نہیں برتنے دیتا لہٰذا ایک علامتی نظام کی ضرورت لازمی ہے۔مبادیات ِ فلسفۂ ریاضی اس مفروضے سے باہر کے فلسفیانہ مباحث کو نہیں چھیڑتی۔

21۔‘‘اسلامی قانون و الٰہیات کا تعارف’’(Introduction to Islamic Theology and Law) از ایگناز گولڈزیہر: ایک ایسی کتاب جس کا نام پہلی بار کم وبیش سترہ اٹھارہ سال قبل سنا اور اس کے بعد اس پر نہ جانے کتنی ہی تنقیدیں پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ میں گولڈزیہر پر ہونے والی تنقیدوں کا نہ صرف معترف ہوں بلکہ ان سے کسی نہ کسی درجے میں اتفاق بھی رکھتا ہوں لیکن گولڈزیہر کا متن اس کی فہم و فراست اور علم دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کچھ تعصبات یقیناً واضح ہیں لیکن بحیثیت مجموعی یہ کلاسیکی متن بہت ہی متوازن ہے۔ ہمارے ہاں براہِ راست متون کی بجائے ان کی شروحات اور ان پر تنقیدیں پڑھتے چلے جانے کا رواج ہے جس کے باعث آپ کے تعقلات لازمی تعصب کا شکار ہوتے ہیں اور انسان خود بھی اپنے تعصبات پر نظر ڈالنے کے قابل نہیں رہتا۔ زیادہ تر مستشرقین کے متون کا براہِ راست مطالعہ آپ کو اپنی رائے مزید متوازن کرنے میں مدد دیتا ہے، جس کے نتیجے میں مثبت تنقید وجود میں آتی ہے۔گولڈزیہر اور جوزف شاٹ پر ڈاکٹر مصطفیٰ اعظمی کی تنقید لاجواب ہے جن کا ابھی دو چار ہفتے قبل ہی انتقال ہوا۔

22۔‘‘روداد ریل کی’’ از فضل الرحمٰن قاضی: قبلہ فضل الرحمٰن قاضی صاحب کی کتاب ان کی دستخط کے ساتھ وصول کی اور اسی شام ختم کر ڈالی۔ اس ایک کتاب میں نہ جانے کتنے ہی ایسے راستوں پر ریل کے اسفارکا مزہ ہے جو اب ایک قصۂ پارینہ ہیں۔ قاضی صاحب نے بلاشبہ ایک گمشدہ تاریخ کو زندہ کر دیا ہے۔ ان کے فرزند، ہمارے اپنےعثمان قاضی صاحب ‘‘ہم سب’’ کےصفحات پر ایک کھوئی ہوئی نثری روایت کو مسلسل زندہ کیے ہوئے ہیں۔ اللہ دونوں کی عمر دراز کرے۔

23۔ ‘‘لاہور آوارگی’’ از مستنصر حسین تارڑ: کتاب اسم بامسمیٰ ہے۔متن جا بجا بکھرا ہوا ہے اورکئی جگہ ایک ہی بات دوبارہ کہی گئی ہے۔کتاب اس لحاظ سے بہت دلچسپ ہے کہ ہم جیسے لاہوری مہاجرین کی دوسری نسل تو اب ان گلی کوچوں کی سیر کتابوں ہی میں کر سکتی ہے جہاں تارڑ صاحب انگلی پکڑ پکڑکر لے گئے ہیں۔اگر آپ بھی ہماری طرح بچپن سے تارڑ صاحب کاہاتھ تھامے دنیا گھوم رہے ہیں تو یہ کتاب بھی تبرک سمجھ کر پڑھ ڈالیے۔

24۔ ‘‘ہزار آفتاب’’ (Brighter than a Thousand Suns) از رابرٹ جنک:اولین ایٹمی سائنسدانوں کے حالات اور اس تناظر میں اس زمانے کے سیاسی و سماجی مباحث پر مبنی ایک دلچسپ کتاب جسے پڑھتے ہوئے آپ امریکی سائنسدانوں کے جرمن نام دیکھ کر یہ سوچے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اگر جرمن نازیوں کی وجہ سے یہودیوں کو ہجرت نہ کرنی پڑتی تو ایٹم بم کا موجد شاید جرمنی ہی ہوتا۔

25۔ ‘‘اقلیم ِعدد’’ (The Realm of Numbers) از آئزک ایزی موو: اعداد کے بارے میں ایک بہت بنیادی لیکن خوبصورت کتاب جسے پڑھ کر خیال آتا ہے کہ ایسی کتابیں ہمارے ہاں اسکولوں کے نصاب میں کیوں کر نہیں پڑھائی جاتیں جہاں مقامی اساتذہ ان بنیادی باتوں کورائج نصابی کتب کی مدد سے یوں نہیں سمجھا سکتے کہ بچے حیرانی میں مبتلا ہو کر جستجو پر آمادہ ہوں۔

26۔ ‘‘ماہرِ طبیعیات اور فلسفی’’ (The Physicist and the Philosopher) از جائمینا کانالز: ایک بہت ہی دلچسپ تحقیقی سرگزشت جو آئن سٹائن اور برگساں کے درمیان نظریۂ زمان پر ہونےوالے مباحث پر مشتمل ہے۔ کتاب پڑھ کر یہ واضح ہوتا ہے کہ نظریۂ زمان کے بارے میں متقابل طبیعیاتی و مابعدالطبیعیاتی مفروضے کیا ہیں۔آئن سٹائن سے جیتنا آسان نہیں، برگساں کو مات دینا آسان نہیں۔

27۔ ‘‘ریل کی سیٹی’’ از محمد حسن معراج: اس ریل کی سیٹی میں ہجر کی تمہید بھی ہے اور ماضی ، حال اور مستقبل کی ہجرتوں کی اداسی بھی۔ حسن معراج جملہ تخلیق کرتے ہیں تو اس میں چھپا تخلیق وفور وہی قاری جان سکتا ہے جو جملہ بنانے کی مشکل سے آگاہ ہو۔ وہ نہ صرف تعصبات اور وقت کی قبروں سے شہروں کے اکھڑی اکھڑی سانسیں لیتی زندہ لاشوں کو نکال لائے ہیں بلکہ ثابت کردیا ہے کہ ان کہانیوں کو بار بار سنانے کی کیا اہمیت ہے۔ میری رائے میں حسن معراج کو اسی کینوس پر رنگوں کی اسی پلیٹ کے ساتھ مزید نقش ونگار بنانے چاہئیں۔یوں لگتا ہے یہ کینوس انہی کا منتظر تھا۔اس کینوس کی مزید وسعت دیکھنی ہوتو حسن کو اتالو کالوینو کی ‘‘شہر ہائے نادیدہ’’ پھر پڑھ لینی چاہیے۔

28۔‘‘خدا اور گولم’’ (God and Golem, Inc) از ناربٹ وائنر: ناربرٹ وائنر کا نام سائنس اور انجینئرنگ میں کسی تعارف کا محتاج نہیں لیکن ان کی دوسری وجۂ شہرت نظریہ انضباطیات کی ہے۔ یہ کیا نظریہ ہے؟ اس سوال کے لیے آپ ان کی کتاب ‘‘انضباطیات’’ (Cybernetics) کا مطالعہ کیجیے جس کا تذکرہ انشاللہ اگلے سال کریں گے کیوں کہ وہ فی الحال زیرِ مطالعہ ہے۔ فی الحال بس اتنا جان لیجیے کہ یہ جدید اطلاعاتی نظام کی خاکہ بندی کا ایک نظریہ ہے۔ یہودی دیومالا میں گولم ایک ننھا سا شیطانی روبوٹ ہے۔ وائنر کہتے ہیں کہ خدا اور گولم کا ویسا ہی رشتہ ہے جیسا آدمی اور مشین کا ہے۔ غور کیجیے کہ وائنر ۱۹۶۴ء میں یہ سوال اٹھا رہے کہ کیا ہم کوئی ایسے نظام تخلیق کر پائیں گے جو آدمی اور مشین دونوں کے خواص رکھتا ہو؟

 29‘‘تاریخِ ریاضی’’ (The History of Mathematics) از راجر کوک: ایک بہت وسیع مطالعہ جسے صحیح معنوں میں گرفت میں لینے کے لیے تو شاید ایک عمر بھی ناکافی ہے۔ لیکن بہرحال ایک ایسا ناگزیر خاکہ جو ریاضی کے شائقین کے لیے مستند بنیادیں فراہم کرتا ہے۔

30۔‘‘عناصرِ خوش نویسی’’ (The Elements of Style) از ولیم سٹرنک جونئیر: ایک مختصر مگر بہت نفع بخش کلاسیکی کتاب جس سے ایک ساتھ اتفاق اور اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ ماننا ہی پڑتا ہے کہ اس قسم کی کتابوں کو ایک درجہ میکانیت پر سمجھوتہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ سٹرنک کی کتاب ضرور پڑھنی چاہیے تاکہ ان سے کم از کم اختلاف ہی کیا جا سکے۔ لیکن یاد رکھیے ان کے دیے گئے اصولوں کو انگریزی نویسی تک ہی محدود رکھا جا سکتا ہے۔ صرف اور صرف اردو میں لکھنے والے اس کتاب سے کچھ خاص فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔

31۔  ‘‘کائنات اور ڈاکٹر آئن سٹائن’’ از لنکن بارنٹ: یہ کتاب 1948ء میں آئن سٹائن کی وفات سے سات سال قبل شائع ہوئی۔ اس کی اہمیت کا سبب آئن سٹائن کا دیباچہ ہے جس میں انہوں نے اسے نظریۂ اضافیت کی سب سے واضح شرح ہونے کی سند عطا کی ہے۔اگر آپ طبیعیات سے بہت زیادہ شغف نہیں رکھتے تو کم از کم صرف اس کتاب کا مطالعہ نظریہ اضافیت کا ایک ایسا بنیادی سانچہ فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہو گا جو محدود مگر مستند ہو۔ اس قسم کی کتابوں کا فوری طور پر اردو میں ترجمہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔

فکشن کے تعارف کے لیے ملاحظہ کیجیے :

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi