مسئلہ جنسی گھٹن کا نہیں ہے


محترمہ تحریم عظیم کا ایک بلاگ نظر سے گذرا جس کا عنوان تھا ” خواتین کو جنسی گھٹن سے آزادی دلائیں“۔ اس مضمون میں پاکستان میں خواتین کی آزادی خصوصاً جنسی آزادی بارے بات کی گئی ہے۔ خواتین کی آزادی کے ہم بھی قائل ہیں بلکہ ضرورت سے زیادہ قائل ہیں۔ چناچہ ہمیں نفس مضمون سے ہرگز اختلاف نہیں ہے۔ اختلاف مگر ایک نکتے پر ضرور ہے۔

جب ہم بات کرتے ہیں جنسی گھٹن کی تو ہمیں دیکھنا یہ پڑتا ہے کہ جنسی گھٹن سے مراد صنفی امتیاز ہے یا فطری خواہشات کی عدم تکمیل۔ مضمون ہٰذا میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے جنسی گھٹن کو محض فطری خواہشات کی عدم تکمیل سے منسلک کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے وسعت رکھنے والے اس پیچیدہ موضوع میں صنفی امتیاز کے ضمن میں تشنگی محسوس ہوتی ہے۔

قبل اس کے کہ ہم جنسی گھٹن کے پہلوؤں پر بات کریں ہمیں کراچی میں چند روز قبل ہونے والی اس واردات کو بغور دیکھنا پڑے گا جس میں ایک بہن نے اپنی سگی چھوٹی بہن کو اس وجہ سے قتل کر دیا کہ وہ چھوٹی بہن اپنی بڑی بہن کو اس کی ایک نازیبا ویڈیو کی بنیاد پر بلیک میل کر رہی تھی۔ ہمارے ملک میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ مضمون نگار نے اسی واردات کو اپنے مضمون کی بنیاد بنایا ہے۔ہمیں مضمون نگار کی اس بات سے قطعاً کوئی اختلاف نہیں یہ واقعہ ہمارے معاشرے کے لیے خطرے کی گھنٹی ہی نہیں بلکہ بلند آہنگ الارم ہے۔ مگر قبل اس کے کہ ہم اس کو جنسی گھٹن سے جوڑیں ہمیں اس واردات کے اصل محرک کے بارے میں سوچنا ہو گا۔

ایک بہن نے اپنی سگی بہن کو قتل کر دیا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ مگر کیا اس کی وجہ محض جنسی گھٹن ہے؟ ہمارے خیال سے ایسا نہیں ہے۔ قاتلہ کا یہ اعتراف ریکارڈ پر موجود ہے کہ مقتولہ اپنے “دوست “کے ساتھ مل کر گذشتہ ایک برس سے قاتلہ کو بلیک میل کر رہی تھی۔اور قاتلہ کے بیان کے مطابق وہ کئی بار “بلیک میل ” ہو چکی تھی۔ چناچہ خبر کے مطابق تنگ آ کر بڑی بہن نے اپنے “دوستوں “جبکہ مذکورہ مضمون نگار کے مطابق اپنے “منگیتر “کے ساتھ مل کر چھوٹی بہن کو مار ڈالا۔ اس ساری بات میں دوستوں ، بلیک میل اور منگیتر کو خط کشیدہ کرنے سے ہمارا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ دونوں ہی بہنیں دوست رکھتی تھیں چناچہ یہ بات قرین از قیاس معلوم نہیں ہوتی کہ اس واردات کا اصل محرک گھٹن یا جنسی گھٹن ہے۔ ہمارے خیال کے مطابق اس واردات کا اصل محرک وہ منفی سوچ ہے جس سے مغلوب ہو کر قتل ہونے والی بہن نے اپنی بہن کو بلیک میل کیا ور پھر متاثرہ بہن نے قتل کیا۔اگر بڑی بہن نے دوستوں کے ساتھ مل کر قتل کیا تو بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس گھرانے میں لڑکیوں کا لڑکوں سے میل جول برا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اگر اس واردات میں منگیتر ملوث تھا تو لازماً اس کو بلیک میلنگ بارے مکمل معلومات ہوں گی ورنہ کون بلاوجہ قتل جیسی واردات کا ارتکاب کرتا ہے؟ نیز منگیتر صاحب کو غصہ اپنی سالی کی بلیک میلنگ پر آیا نہ کہ اپنی منگیتر کی نازیبا ویڈیو پر۔

اب ہم بات کرتے ہیں جنسی گھٹن کی۔ جیسا کہ ہم نے اوپر لکھا کہ جنسی گھٹن کو محض فطری خواہشات کی تکمیل سے جوڑنا ایک وسیع کینوس کو سکیڑ دینے کے برابر ہے۔ فطری خواہشات ہر انسان کے ساتھ موجود ہیں۔ وہ چاہے مرد ہو یا عورت۔ چاہے مدرسہ میں پڑھانے والا مولوی ہو یا یونیورسٹی میں علم کو فروغ دینے والا پروفیسر۔ مسئلہ تب ہوتا ہے جب فطری خواہشات کی تکمیل کے لیے غیر فطری طریقے تلاش کیے جاتے ہیں۔اور پھر کمسن بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات سے لے کر ہر عمر، رنگ، نسل اور صنف کے ساتھ غیر فطری سلوک کے واقعات ہمارے سامنے آتے ہیں۔ گھر محفوظ رہتے ہیں اور نہ سڑکیں۔

ایسا نہیں ہے کہ انسان پر فطری خواہشات کی تکمیل کے سلسلے میں ناروا پابندیاں لگا دی گئی ہوں۔ سوال انسانی بقا کا ہے اور انسانی بقا کے لیے معاشرت ناگزیر ہے۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں فطری خواہشات کی تکمیل کا جائز ترین ذریعہ شادی کو سمجھا جاتا ہے۔ کچھ مغربی معاشروں میں شادی کو ضروری نہ سمجھتے ہوئے مرد اور عورت جوڑوں کی شکل میں اکٹھے رہتے ہیں۔ ایسے میں وہ اپنی فطری خواہشات کی تکمیل تو ضرور کر لیتے ہیں لیکن معاشرت کے لیے ایک مرد اور عورت کے درمیان جو مضبوط بندھن درکار ہوتا ہے اس سے وہ محروم رہتے ہیں۔ ایسے تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے اخلاقی اور فطری تربیت سے اکثر و بیشتر محروم رہ جاتے ہیں۔اس کا نتیجہ مغربی معاشرے میں انسان میں پائے جانے والے لطیف جذبات کی عدم موجودگی کی صورت میں نکلتا ہے اور معاشرے کے تاروپود بکھرنے لگتے ہیں۔چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عام طور پر مغرب میں ایک گھر کے رہنے والوں میں اتنے مضبوط تعلقات نہیں ہوتے جتنے مضبوط تعلقات اس گھر کے ہر فرد کے اغیار سے ہوتے ہیں۔ اور پھر وہ وقت آتا ہے جب کندھے اچکا کر “وہاٹ ایور” یا “ہو کیئرز” کہ کر اپنی راہ لی جاتی ہے۔

پاکستان کا مسئلہ فطری خواہشات کی تکمیل سے زیادہ صنفی امتیاز ہے۔ فطری خواہشات چاہے مرد میں ہوں یا عورت میں، بے لگام ہو جائیں تواپنی تکمیل کے راستے بہر حال ڈھونڈ لیتی ہیں۔سونے پر سہاگہ شخصیت میں پائی جانے والی کجی اور وہ منفی سوچ ہوتی ہے جو ہر قیمت پر خود کو صحیح اور دوسرے کو غلط ثابت کرنے پر تل جاتی ہے ۔پھر ہمیں کراچی جیسی واردات سہنی پڑتی ہے۔

ہمارے ملک کے بیشتر گھرانوں میں خواتین سے زیادہ مرد حضرات کو اہمیت اور ترجیح دی جاتی ہے۔ اس بات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ خالق نے اپنی مخلوق کو مختلف جسمانی ساخت مگر یکساں ذہنی صلاحیتوں اور خوبیوں کے ساتھ تخلیق کیا ہے۔ مرد اور عورت کے درمیان فطری کشش رکھ کر یہ بات بتا دی گئی کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے ناگزیر اور یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔ کسی ایک کے بغیر دوسرے کا گزارا کسی طور ممکن نہیں۔ مضمون نگار سے اتفاق کرتے ہوئے کہ زندگی گزارنے کے لیے اپنی پسند کے فرد کا انتخاب ہر صنف کا حق ہونا چاہیئے ہم یہ بات بھی کہنا چاہتے ہیں کہ مر ہو یا عورت، اگر محسوس کرے کہ اس کی فطری خواہشات پر قابو پانا اس کے بس سے باہر ہوتا جا رہا ہے ، تو بجائے چور راستے ڈھونڈنے کے، ایک جائز رشتہ بنا کر اپنی فطری خواہشات کی تکمیل کرنی چاہیئے۔وہی شادی کا بہترین وقت ہوتا ہے۔ اس میں جلدی یا دیر کی شادی کی بحث میں پڑنا تضیع اوقات ہے۔

مرد کی جسمانی مضبوطی اور عورت کی جسمانی نزاکت ان کی دو بنیادی ذمہ داریوں کی وجہ سےہے۔ جن کو باہم مل کر سر انجام دینے سے معاشرہ اپنے بہترین خد وخال میں نمو پاتا ہے اور زندگی خوبصورت ہوتی چلی جاتی ہے۔

(بشکریہ دنیا بلاگز)

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad