کینیا کی لڑکی کے پاکستان میں‌ ٹوٹے خواب


جب ہم چانڈکا میڈیکل کالج میں‌ پڑھتے تھے تو میری روم میٹ اور میری ساری زندگی کی سب سے اچھی دوست ایک سندھی لڑکی تھی۔ ایک مرتبہ کالج کی بس میں‌ ہاسٹل سے ریشم گلی گئے جہاں‌ بس لڑکیوں‌ کو لے جاتی تھی اور وہ اپنی ضرورت کا سامان خریدتی تھیں۔ ہم دونوں‌ بس سے اترے اور ایک ٹھیلے پر سے آم خرید رہے تھے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ لبنیٰ سامنے سے میرے کزن آرہے ہیں۔ اچھا! میں‌ نے آم واپس رکھ دیا، چلو ہم انہیں سلام کریں۔ نہیں! اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور ہم دونوں‌ بس کے پیچھے چھپ گئے اور جب وہ گذر گئے تو نکلے۔ ہم ایسے کیوں‌ چھپ رہے ہیں؟ میں‌ نے اس سے پوچھا تھا۔ اس نے کہا کہ اگر وہ آج مجھے یہاں‌ دیکھ لیتے تو شہدادکوٹ سے لیکر کراچی تک ساری شیخ برادری میں‌ یہ خبر پھیل جانی تھی کہ میں‌ ریشم گلی میں‌ کھڑی تھی۔ ان کزن جیسے افراد کو یہ اپنے دماغ میں‌ بٹھانے کی ضرورت ہے کہ سڑک پر چلنے کا ہمارا حق بھی اتنا ہی ہے جتنا ان کا اور ہمیں‌ اس پر چلنے کا جواز بتانے کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ خود ان کو۔

پچھلا آرٹیکل پروفیسر انیٹا ہل کی زندگی کے بارے میں‌ تھا۔ آج کا مضمون ایک کینیا کی لڑکی کے بارے میں‌ ہے جو چانڈکا میڈیکل کالج لاڑکانہ میں‌ ایم بی بی ایس کرنے آئی تھی۔ وہ مجھ سے دو تین سال جونئیر تھی۔ اس کی شناخت چھپانے کے لیے فرضی نام مریم رکھ لیتے ہیں۔ مریم کے دادا پردادا انڈیا سے کینیا منتقل ہوگئے تھے اور وہ وہیں پیدا ہوئی اور پلی بڑھی تھی۔ اس کو چانڈکا میڈیکل کالج میں‌ داخلہ ملا تھا جس کے لیے اس کی فیملی نے بہت پیسے خرچ کیے تھے اور ڈاکٹر بننا اس کا خواب تھا۔ مریم ایک بہت خوبصورت لڑکی تھی۔ شروع شروع میں اس کو زیادہ اردو میں بات کرنا نہیں‌ آتی تھی لیکن اس نے جلد ہی سیکھ لی تھی۔

اس نے چار سال بعد کالج چھوڑ دیا تھا۔ کسی کو پتا نہیں‌ تھا کہ وہ کہاں‌ چلی گئی اور کیوں؟ وہ اپنےسامان کے ساتھ ساتھ سرٹیفکٹس تک پیچھے چھوڑ گئی تھی۔ 2009 کے قریب اس نے کسی طرح‌ مجھے سوشل میڈیا پر تلاش کرلیا اور کہا کہ اس کی فیملی امریکہ آنے کے لیے امیگریشن پیپر ورک فائل کررہی ہے اور وہ جہاں‌ بھی رہی ہے وہاں سے پولیس سرٹیفکٹ مانگ رہے ہیں کہ اس کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں‌ ہے۔ چونکہ وہ لاڑکانہ میں‌ کسی کو نہیں جانتی تھی، اس نے مجھ سے مدد مانگی۔ میں‌ نے وہاں اپنے سسرالی رشتہ داروں‌ سے کہا تو انہوں‌ نے یہ فارم بنوا کر مجھے بھیج دیا تھا، اس طرح‌ اس کا کام ہوگیا اور اب وہ لوگ امریکہ میں‌ کہیں رہتے ہیں۔ اس کی زیادہ خبر نہیں آتی کیونکہ اس نے خوف سے کبھی فیس بک، ٹوئٹر یا انسٹاگرام بنایا ہی نہیں کیونکہ ہراساں‌ کرنے والوں نے اس کا ملک چھوڑنے کے بعد بھی پیچھا نہیں‌ چھوڑا۔ ای میل کے ذریعے کبھی کبھار اپنی فیملی کی تصویر بھیجتی ہے۔ اس کی ایک بیٹی بھی ہے۔ مجھے خود سے یاد کرنا پڑتا ہے کہ چند ماہ، سال بعد اس کی خیر خبر پوچھوں۔ اگر اس کو یا کسی اور کو بھی ہراساں کرنے والے یہ مضمون پڑھ رہے ہیں تو آپ اپنے کام سے باز آجائیں۔

اس نے مجھے کہا کہ اس بھیانک جگہ پر آپ میرے ساتھ اچھی تھیں۔ وہاں‌ اسٹوڈنٹس سے لیکر کالج کے پرنسپل تک مجھ سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ وہ مجھ پر چوبیس گھنٹے نظر رکھتے تھے اور میرا ہر لفظ ان تک پہنچتا تھا۔ جب میں‌ واپس کینیا جاتی تھی تو دبئی تک کا ٹکٹ لے کر وہ اسی جہاز میں‌ بھی سوار ہوجاتے تھے جس میں‌ میری فلائٹ ہوتی تھی۔ حالانکہ ڈگری ختم کرنے میں ایک ہی سال رہ گیا تھا لیکن حالات اتنے خراب ہوچکے تھے کہ میں‌ وہاں ایک سال اور نہیں ٹھہر سکتی تھی۔ میں‌ آدھی رات میں‌ اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑ کر وہاں‌ سے فرار ہوئی۔ میرا ڈاکٹر بن جانے کا خواب ادھورا رہ گیا۔

میں‌ نے دیکھا کہ ہمارے کالج کا نام تبدیل کرکے بے نظیر بھٹو کے نام پر رکھ دیا گیا ہے۔ بے نظیر بھٹو سے میں‌ ایک مرتبہ ملی تھی جب وہ ہمارے کالج میں‌ آئیں‌ اور انہوں نے پوزیشن ہولڈرز کو میڈل دیے تھے۔ میں‌ جب اسٹیج پر اپنا میڈل لینے گئی تو ان کے چہرے پر بڑی مسکراہٹ تھی اور انہوں‌ نے کہا تھا کہ، “مجھے خوشی ہے کہ آپ ایک لیڈی آئی ہیں!”۔ بہت اچھی بات ہے کہ ایک خاتون لیڈر کو اتنی تعظیم دی گئی کہ ان کے نام پر کالج کا نام رکھ دیا جائے۔ لیکن میں‌ بے نظیر بھٹو میڈیکل کالج کی انتظامیہ سے یہ ضرور کہنا چاہوں‌ گی کہ اگر آپ لوگ واقعی میں‌ بے نظیر بھٹو کی یاد میں‌ کچھ ایسا کرنا چاہتے ہیں‌ جس سے انسانوں‌ کا بھلا ہو اور دنیا ایک بہتر جگہ بن سکے تو کالج میں‌ جنسی ہراسانی سے متعلق قوانین اور ضوابط طے کریں۔ پہیہ پہلے سے ایجاد ہوچکا ہے۔ کسی بھی بڑی امریکی یا یورپی کمپنی کے پروسیجر دیکھ کر ان کا ترجمہ کرسکتے ہیں۔ ان شاگردوں‌، اساتذہ یا پھر پرنسپل تک کو نوکری سے نکال دیا جانا چاہیے جو جنسی ہراسانی کے مجرم ہوں‌۔ اگر سب سے بڑی کرسی پر بیٹھا آدمی بھی کوئی ایسی حرکت کرے تو اس کا بھی چیک اینڈ بیلنس کرنے کے لیئے طریقہ کار موجود ہو۔

خواتین کو ہر علاقے میں آگے آکر لیڈر بننے اور تبدیلی کا حصہ بننے کی ضرورت ہے۔ حال ہی میں‌ ایک کشمیری خاتون نے اپنے ساتھ کی گئی جنسی زیادتی کی شکایت کی تو ان کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی کھڑا ہوگیا۔ یہ کشمیری ان کے ساتھ نہایت بری زبان میں‌ بات کرنے لگے۔ ان لوگوں‌ کے ذہن میں‌ سے یہ بات نہیں‌ گذری کہ وہ اپنے شہریوں‌ کو برابر کے حقوق اور تحفظ فراہم کرنے میں‌ ناکام ہو گئے ہیں۔ وہ اپنے شہریوں کو اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کی آزادی نہیں دے رہے ہیں تو خود کس منہ سے کشمیر کی آزادی مانگ رہے ہیں۔ ہر علاقے کے افراد کو خود یہ سوچنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).