جاتے دسمبر کا نوحہ


جگر فگار نے ماتم کیا:

ٹھٹھرتی ہوئی شب سیاہ اور وہ بھی طویل تر

محسنؔ ہجر کے ماروں پہ قیامت ہے دسمبر

وہ جو خود بھی دہشتگردی کی بھینٹ چڑھا، اپنی شہادت سے قبل حرماں نصیب قوم کے دکھوں کا ترجماں نوحہ لکھ گیا… ”مرے مرنے والو… نئے سال کی مسکراتی ہوئی صبح، گر ہاتھ آئے… تو ملنا!… کہ جاتے ہوئے سال کی ساعتوں میں… یہ بجھتا ہوا دل… دھڑکتا تو ہے… مسکراتا نہیں… دسمبر مجھے راس آتا نہیں‘‘

ہر شے کو منجمد کر دینے والے اس یخ بستہ مہینے کو ہم نے سدا اپنا گرم خون دے کر رواں رکھا ہے۔ ظالم دسمبر نے بھی جی بھر کے ہمارے پیاروں کے سر نوکِ سناں پہ سجائے ہیں۔

یونہی گرے نہیں برگ و شجر دسمبر میں

بچھڑ گیا تھا کوئی ہم سفر دسمبر میں

کسی کے ہجر سے گزرو تو پھر بتائیں گے

کہ کیسے چلتے ہیں ہم آگ پر دسمبر میں

ویسے تو یہاں سارا سال ہی یہ چلن ہے کہ ”ہنجو اکھیاں دے ویہڑے وچ پوندے نیں دھمالاں‘‘… لیکن اس یخ بستہ مہینے نے تو سدا اس سر زمین کو کربلا ہی بنائے رکھا‘ اور ہر دفعہ ہماری آنکھیں دریا کرنے کا کچھ منفرد ہی ساماں کیا ہے۔ ہمارے لاکھوں ہم وطنوںکا خون بہا کر یہ ملک دو ٹکڑے کرنے سے لے کر بے نظیر بھٹو کے خون ناحق تک اور پروین شاکر جیسی امن کی فاختائیں ہم سے جدا کرنے سے لے کر آرمی پبلک سکول پشاور کے ننھے فرشتے ہم سے چھیننے تک، ظالم دسمبر نے ہمارے سینوں پر جی بھر کے گھائو لگائے ہیں۔ سانحہ پشاور کی دہشت کے خونچکاں نقوش تو ہمارے دلوں سے کبھی نہ مٹ پائیں گے، جب ظالموں نے معصوموں کے بے گناہ لہو سے وحشت و بربریت کی نئی تاریخ رقم کی۔ بے رحم درندے پھولو ں پر بارود کی صورت آتش و آہن کی بارش برساتے رہے اور ڈیڑھ سو کے قریب بچوں کو ان کی معلمات سمیت شہیدکیا۔

تب اس سرد رُت کی زخم خوردہ مائوں پر قیامت گزر گئی تھی۔ ان کے بچے آرمی پبلک سکول پشاور میں اپنے رخشاں لہو کے دینار لٹا کر تابوتوں میں گھر آئے تھے۔ آسماں زمین پر ڈھے گیا تھا۔ کسی درد مند دل سے آہ نکلی… ”مائیں دروازے کو تکتی ہیں مگر اب بچے/ سیدھے سکول سے جنت کو چلے جاتے ہیں‘‘… شاید ہم میں سے کوئی بھی ان حرماں نصیب بیبیوں کے کرب کو نہیں سمجھ سکتا۔ کوئی صلہ ان کے درد کا درماں نہیں۔ کوئی لفظ ان کے غم کا ترجماں نہیں۔ کوئی لغت اُن کے دِلوں سے اٹھنے والی ہوک کی وضاحت پر قادر نہیں۔ کوئی بھی پیمانہ ان کے دکھ کی گہرائی ماپنے سے قاصر ہے۔ کوئی تسلی ان کے زخموں کا مرہم نہیں۔ کوئی دلاسہ ان کے آنسوئوں کے آگے بند نہیں باندھ سکتا۔ کوئی پرسہ ان کی شامِ غریباں میں چراغ نہیں جلا سکتا کہ:

یہ کمسن پھول سے چہرے لحد کی گود میں سو کر

گھروں میں گھومتے سایوں کے پیکر چھوڑ جاتے ہیں

دسمبر جا رہا ہے، مگر یہ پھر آئے گا۔ باقیوں کو تو قرار آ ہی جائے گا مگر دسمبر کی زخم خوردہ مائوں پہ یہ مہینہ کسی مشکل ترین امتحان کی صورت میں بار بار آئے گا۔ درد کی منہ زور لہریں اٹھتی رہیں گی، ضبط کے بندھن ٹوٹتے رہیں گے، شام غریباں برپا ہوتی رہے گی، زخموں کے ٹانکے کھلتے رہیں گے، یادوں کے عطر دان سے خوشبو کے مرغولے اٹھتے رہیں گے اور ظلم کی بھینٹ چڑھنے والے پھولوں جیسے رفتگان کے چہروں کے البم کھلتے رہیں گے کہ:

سنبھل نہیں پایا تھا دل

دسمبر پھر لوٹ آیا ہے

جب جب دسمبر آئے گا، شہدا کی مائوں کے بین آسماں کو ایسے ہی لرزاتے رہیںگے، جیسے ان کے نالوں سے آج وہ لرزاں ہے۔ شاکرؔ شجاع آبادی سرائیکی میں یوں ماتم کناں ہے:

مونجھ دا تار سمندر آ گئے

دل وَت قہر دے اندر آ گئے

شاکرؔ درد وھانونڑ کیتے

وَت ایں سال دسمبر آ گئے

اس منحوس دن وحشت، بربریت، سفاکیت، دقیانوسیت، جہالت اور درندگی نے ہماری روحوں کے تار جھنجھنا کر رکھ دئیے تھے۔ اہل دل کی روحیں آج بھی دسمبر میں دہل جاتی ہیں۔ ہم ایسوں کا کیا ہے، ہم زیاں کار اور ریا کار تو تا حدِ نگاہ بسیط منظر میں چھپی منزل سے نظریں چرائے اور سر نیہواڑے اگلے سال پھر دسمبر کی دہلیز پر کھڑے ہوں گے، مگر ان اجڑی مائوں کا کیا ہو گا؟ دسمبر کی ہوائے زمستاں میں کوئی دیکھ سکتا ہے تو ان ہجر کے ماروں کی بے بسی دیکھے۔ کوئی سن سکتا ہے تو اجڑی مائوں کے نالے سنے۔ کوئی محسوس کر سکتا ہے تو اپنے پیاروں کو کھو دینے والوں کے درد کو محسوس کرے کہ:

بھلا اس کے دکھوں کی رات کا کوئی مداوا ہے؟

وہ ماں جس کا کبھی کھویا ہوا بچہ نہیں ملتا

اور یہ بھٹو خاندان… آپ ان سے لاکھ اختلاف کریں مگر خون ناحق اپنا آپ منوانا جانتا ہے۔ پی پی کی موجودہ قیادت کا تذکرہ نہیں۔ بھٹو خاندان کا طرۂ امتیاز ہے کہ اس نے منظرِ دار کو کبھی ویراں نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے جہاں حکمرانیاں کیں، وہاں نوک سناں پہ اپنے سر بھی سجائے۔ انہوں نے ایوان آباد کئے تو مقتل گاہوں کی رونق بھی ماند نہیں پڑنے دی۔ وہ ہر طوفان، ہر مشکل میں پیٹھ دکھانے کی بجائے جان ہتھیلی پر سجائے دیوانہ وار آئے اور امر ہو گئے۔ یہی وصف انہیں دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔ بھٹوز نے خود شہادت گہہ الفت میں قدم رکھا اور ثابت کیا ہے کہ:

سرفروشوں کے سوا اور کسے

زندہ رہنے کی ادا آتی ہے

ذوالفقار علی بھٹو روایت شکن تھا۔ صرف عوام کو طاقت کا سرچشمہ مانتا تھا۔ ان کے منہ میں زبان دینے کے لئے کوشاں تھا۔ ان کو دنیا میں باعزت مقام دینے کا خواہاں تھا۔ نتیجتاً سقراط کے انجام سے دوچار ہوا، مگر خوددار تھا، غاصب کے سامنے رحم کی اپیل نہ کی۔ بے نظیر بھٹو کو یہی اوصاف باپ کی طرف سے ورثے میں ملے تھے۔ وہ باپ کی طرح اپنی زندگی کو لاحق خطرات سے آگاہ تھی مگر ڈر کر چھپنے کی بجائے دلیری سے شاخ دار پہ جھولنا پسند کیا۔ اس کی شہادت کے دسمبر کو عشرہ بیت گیا مگر ملک کی فضا رنج و الم کی رم جھم سے اسی طرح سوگوار ہے کہ جیسے:

محبت کی عمارت گر گئی ہے

کوئی ملبے پہ بیٹھا رو رہا ہے

ہوا پتوں سے سر ٹکرا رہی ہے

ترے جانے کا ماتم ہو رہا ہے

اس کے خون ناحق کی مہندی اپنے غلیظ ہاتھوں پر سجانے والوں کو اس خون کی طنز بھری آواز بھی بدستور سنائی دے رہی ہے کہ:

مرے خوں کی مہندی نہ اترے گی صادق

وہ ہاتھوں کو مل مل کے دھویا کریں گے

اور یہ بھی کہ:

تو لوٹ کے بھی اہل تمنا کو خوش نہیں

میں لٹ کے بھی وفا کے انہی قافلوں میں ہوں

جاتے دسمبرکی ساعتوں میںحرف آخر یہ کہ جب تک ظالموں کو ان کے منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جاتا اور اس وقت تک، جب تک جہالت کے ”قطب میناروں‘‘ سے قوم کی جان چھڑا کر ایک وسیع النظر اور روادار سماج کے قیام کی طرف قدم نہیں بڑھایا جاتا، بے گناہوں کا خون ہمارا گریباں نہیں چھوڑے گا۔ وہ نوک سناں پر بھی چیختا رہے گا اور ہمیں جھنجھوڑتا ر ہے گا…. ہمیں قیام کرنا ہو گا۔ آخر کب تک ہمارے دسمبر اس نوحہ گری میں گزریں گے کہ:

دل سے گزر رہا ہے کوئی ماتمی جلوس

اور اس کے راستے کو کھلا کر رہے ہیں ہم


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).