جمہوروں کی جمہوریت


جمہوریت ہمارے یہاں ویسی ہی ہے، جیسے جمہور۔ میرا خیال ہے دنیا میں ہر جا جمہوریت کی وہی شکل ہے، جیسے وہاں کے جمہور۔ پھر کیا وجہ ہے کہ جمہوریت کی مخالفت کی جائے۔ جمہوریت نہیں تو پھر کیا؟

ہمارے یہاں جمہوریت کے مقابل فوجی آمریت کو رکھا جاتا ہے، کیوں کہ یہاں اتنے برس عوامی حکومتیں نہیں رہیں، جتنے سال فوجی حکمران قابض رہے ہیں۔ انھی فوجی حکمرانوں نے سیاست دانوں کی نرسریاں لگائیں، آج کے چیدہ چیدہ سیاست دان انھی کی نرسریوں کی پیداوار ہیں۔ ریاست کے اندر ریاست کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ہمیں ہنکاکر بند گلی میں لاکھڑا کیا گیا ہے، اور ہم وہ بھیڑ بکریاں ہیں جو بھیڑیے کے انصاف کے متمنی ہیں، منتظر ہیں۔

آپ دوستوں کے بیچ میں ہوں، بحث حکمرانوں کے شاہی اطوار کی ہو، تو جھٹ سے سیاست دانوں کی بدعنوانی، ان کے شہنشاہی رہن سہن کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جو ایک حد تک درست معلوم ہوتا ہے۔ اس بحث سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے، کہ ان سیاست دانوں کو معزول کیا جائے، الخ۔ اس کے بعد کا منظر ایسا نہیں جو دیکھا نہ جاسکے۔ بھلا سیاست دانوں کو جیل میں کون ڈالے گا، وہی جنھوں نے ان سیاست دانوں کو پالا پوسا، ان کی کردار سازی کی، اور جب یہ سیاست دان ان کی بنائی ہوئی ڈگر سے ہٹتے معلوم ہوئے، تو ان کی کردار کشی بھی کی۔ گویا ان مبینہ حرام خور سیاست دانوں کے سر پہ ہاتھ رکھنے والے شرفا ہیں۔ سیاست دانوں کے خلاف حقیقی اور منظم عوامی احتجاج کہیں نہیں دکھائی دیتا۔ ہو بھی تو ایسے ہر احتجاج کے پیچھے منظم ادارے نظر آتے ہیں۔

”یہاں سیاسی اور مذہبی گفت گو کرنا منع ہے“۔ اس طرح کی تختیوں نے عوام کے اذہان میں یہ راسخ کردیا ہے، کہ سیاست اور مذہب پر گفت گو کرنے کا نتیجہ، لامحالہ لڑائی جھگڑا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے مخالف نقطہ نظر کو برداشت کرنا ہی نہیں سیکھا۔ وہ شخص جو ہم سے جدا سوچے وہ ہمارا دشمن ہے اور کچھ نہیں۔ یہ دلیل و منطق کی بات نہیں، یہ ہماری انا کا مسئلہ ہے۔ وہ شخص جو ہم سے مختلف سوچتا ہے، وہ دراصل ہماری انا کو ٹھیس پہنچانے کا سبب بنتا ہے۔ ہم کیسے مان لیں کہ ہماری فکر صراط مستقیم سے ہٹی ہوئی ہوسکتی ہے، ہمارا تجزیہ غلط ہوسکتا ہے! الٹا ہم یہ سمجھتے ہیں، کہ غلطی پر وہ ہے، جو ہم سے، ہماری سوچ سے اتفاق نہیں کرتا۔

سوشل میڈیا ہی کو دیکھ لیجیے۔ ایک شخص دوسرے سے الگ رائے دے بیٹھے، تو اس کی یوں بھد اڑائی جاتی ہے، جیسے وہ کوئی گناہ کر بیٹھا ہو۔ اس لیے کہ اس کی رائے، دوسرے کی رائے کی نفی کررہی ہوتی ہے۔ مخالف نقطہ نظر کی تذلیل کرنا تو کوئی برائی ہی نہیں تسلیم کی جاتی۔ گرچہ کہنے کو کہا جاتا ہے، کہ مخالف کی رائے کا احترام کیا جانا چاہیے۔ مکالمہ یا گفت گو موضوع سے ہٹ کے، ایک دوسرے کے زیرناف حملے کا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔

ہم جمہور کیسے ہیں، کسی کے کہنے کی کیا ضرورت ہے۔ بس آئنہ دیکھ لیجیے۔ ٹریفک سگنل کے احترام سے لے کرکے، قطار میں کھڑے ہونے تک کا منظر؛ بجلی کے میٹروں کی ٹمپرنگ ہو، یا گلی سے گزرتی بجلی کی تاروں سے کنڈا لگانے کی روایت؛ پڑوسی کے وائے فائے کی چوری، یا پانی کے نل سے لگی الیکٹرک موٹریں؛ الغرض! کون سی سیدھی راہ ہے جس پر ٹیڑھی چال نہ چلی ہو! لیجیے! اب روئیے اپنے حکمرانوں کو۔ آپ ہی حکمران ہیں، کہ آپ کی سلطنت کا دائرہ محدود ہے۔ اپنی سلطنت میں آپ کتنے جمہوری ہیں، یہ آپ بہتر بتاسکتے ہیں۔

فوجی حکومتیں ”اسلامی نظام“ کے نعرے کا استعمال بھی کرچکیں اور ”روشن خیالی“ کا علم لے کرکے بھی راج کیا۔ نہ روشن خیالی کے ثمرات ظاہر ہوئے نہ اسلام کی جھلک دکھائی دی۔ میں اس دن کا تصور کرتا ہوں، جس روز خیالی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ سوچتا ہوں اس کے بعد کی تصویر کیا ہوگی، کچھ ایسی کی ہر شخص کا ہاتھ کٹا دکھائی دے گا۔ پر وہ مسلمان کہاں سے اٹھیں گے، جو اسلامی ریاست کی تعبیر بنیں گے۔

ڈرائنگ رُوم میں بیٹھ کے مزدور کی عظمت کے گیت دُہرانا سہل ہے، پسینے کی بو سے لبریز مزدور کے ساتھ بیٹھ کر اس کے دکھ درد بٹانے والے سوشلسٹ دکھائی دیں تو بات بنے۔ اس سوشلسٹ انقلاب کے دن کیا ہوگا، کہ غاصبوں کے سر قلم ہوں گے! وہ کون سرخ رُو ہوں گے، وہ دین دار کہاں سے اتریں گے؛ کوئی بتلائے کہ اس شہر جاناں میں وہ باصفا کون ہیں!

ان دنوں یہ افواہ گرم ہے، کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب حکمران، ایک اور ”این آر او“ کے لیے سعودی عرب روانہ ہوچکے ہیں۔ ہمارے ایک دوست جذباتی انداز میں فرمانے لگے، کہ دیکھیے کیسے چور ہیں کہ جان بخشی کے لیے ”این آر او“ کرنے چلے ہیں۔ میں نے سوال کیا کہ ”این آر او کس سے؟“
انھوں نے کہا، وہی جو پاکستان سے ”مخلص“ ہیں۔ میں نے جوابا اتنا کہا کہ مان لیجیے یہ ”مخلص“ ہی برائی کی جڑ ہیں۔ یہی اصل حکمران ہیں۔ سیاست دان تو محض ان کے مہرے ہیں۔ جمہور کی رائے کو چرانے میں یہی پیش پیش ہیں، جس دن آپ یہ مان لیں گے، اس دن جمہور کی عزت ہوگی، جمہوریت پھلے پھولے گی۔

ہم میں نہ ماننے والے بہت سے ہیں کہ ہم سیکڑوں برس سے غلامی میں جیتے آئے، ہمیں آج بھی آقا ہیں درکار۔ ہم جمہور ہیں، اور ہماری جمہوریت کی اتنی سی داستان ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran