یا خدا، پہاڑوں میں بھی مولوی راستہ روکیں گے؟


دلاورعباس، ذی جاہ، دلاور کا دوست تنویر اور میں تیسرے دن سویرے طوطیوں کی چہکار کے ساتھ خپلو روانہ ہو گئے۔ گاڑی کی باگ تنویر کے ہاتھ میں تھی۔ یہ ایک جی دار انسان کے ساتھ عمدہ کار سوار تھا۔ خپلو سکردو سے پچاس یا ساٹھ میل دور شمال مشرق کی طرف ہے۔ اِدھر ہی کو جہاں سیاچن کا بکھیڑا ہے۔ آپ سیاچن جائیں تو خپلو سے ہو کر جائیں گے مگر آپ کیوں جائیں گے ؟ ہم نکلے تو شوق ایسا تھا جیسے دیدار یار کو چلے ہیں۔ دریائے سندھ ہمارے بائیں پہلو میں بہتا تھا۔ اتنا نیچے تھا کہ نظر گرتی گرتی تھک جائے مگر دریا کی تہہ کو نہ پائے۔ گھن گرج ایسی کہ پانیوں کا شور پتھروں کا دل دہلاتا ہوا جاتا تھا اور کلیجہ اُن کا پانی کرتا تھا یعنی جی ہمارا بہت ڈرتا تھا۔

تمام سفر اِسی دیو کے کنارے کنارے اور چیر ی، خوبانی، شہتوت، ناشپاتی، سیب، آڑو، اخروٹ اور بید کے درختوں کے سائے سائے طے ہو رہا تھا۔ کہیں خشک چٹانیں بھی آتیں مگر کم کم البتہ پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر سرسبز فصلیں کئی کئی رنگوں میں اُوپر تک چڑھی ہوئی تھیں۔ اِن کے بیچ چھوٹے چھوٹے گاوں، صاف ستھری جھونپڑیوں میں اُٹھتے چلے گئے تھے۔ یہ سینکڑوں گاوں سڑک اور دریا کے کنارے کنارے آباد ہیں جن کے بسنے والے اور بسنے والیاں اپنی چھوٹی مگر ہری بھری کھیتیوں میں کام کرتی نظر آتیں ہیں، اِن کھیتیوں کو سیراب کرنے والے ہزاروں چشمے اور ندی نالے سرد اور اونچے پہاڑوں سے گویا پگھلی ہوئی سفید روشنی بہا کر لاتے ہیں اور کھیتیوں میں چھوڑ دیتے ہیں۔ جہاں تک چلتے جایئے سڑک کے دو رویہ پاپلر کے سرو قامت درختوں اور خوبانی کے پیڑوں کے جھنڈ کے جھنڈ نگاہِ مسافرانہ کو اصلی سبز باغ دکھاتے ہیں۔ گاوں میں پھلدار درختوں کی چھاوں ایسی ایسی گھنی تھی کہ واللہ کہیں اور کیا ہو گی۔ وہیں پِسر جانے کو جی کرتا تھا۔ کئی بار ہم گاڑی سے اُترے شہتوت اور خوبانی کے درختوں کی چھاوں میں بہتے شفاف چشموں اور ندیوں اور نالوں کے آبِ حیات سے جی ٹھنڈا کیا، خنک ہوا سے فرحت لی، درختوں سے تازہ پھل کھایا اور آگے کی اُور رینگے۔

اِن راہوں میں جو لوگ بستے ہیں، بھئی اُن کی کہانی کیا کہوں، فرشتوں سے بہتر ہیں یہ بلتی لوگ۔ ٹھنڈے مزاج کے میٹھے اور منافرت اور منافقت سے پاک۔ پاندھیوں کو لوٹنے کا یہاں ذرا رواج نہیں۔ بچے اِن کے نہ شرارتی ہیں نہ مکار ہیں نہ ہماری طرح گنہگار ہیں۔ عورتوں میں حیا بھی ہے، آزادی بھی ہے اور خود اعتمادی بھی ہے۔ ایک جگہ، کچھ عورتیں اور بچے خوبانیاں توڑ توڑ کے سکھا رہے تھے۔ ہم رُکے، کہ یہاں کچھ سانس لیں، اور تھوڑی خوبانیاں لیں۔ ایک خاتون جو صاف پتھروں پر خوبانیوں کے بیج نکال کر گودے کو سُکھا نے کے لیے ڈال رہی تھی۔ بغیر نقاب اور بلاوجہ کی شرم و حیا سے اُسے کچھ علاقہ نہیں تھا مگر حُسن کا چاند تھا کہ چودھویں کی دوپہر چڑھا تھا۔ اُس کے پاس تین بچے، جو اُس کے اپنے ہی تھے اور حُسنِ بے نیاز میں ایسے بے داغ تھے کہ چاندی شرمانے لگے، کبھی وہ کھیلنے لگتے، کبھی خوبانیاں اِدھر اُدھر اُلٹنے پلٹنے لگتے۔ مَیں نے اُس خاتون سے کچھ خوبانیاں مانگیں، تواُس نے بغیر ہچکچاہٹ جھٹ سے جھولی بھر دی۔ میں نے پیسے پوچھے تو اُس نے نفی میں سر ہلا دیا اور مزید خوبانیاں دینے کی طرف جھکی۔ خدا قسم پنجاب اور خیبر پختون خوا میں ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ اول مفت کوئی چیز پائیں، پھر وہ بھی خاتون سے۔ شکر خدا کا وہاں یہ مخلوق نہیں ہے۔

الغرض ایک کے بعد دوسرا گاوں ہمارے پاوں پکڑ لیتا تھا اور آگے جانے سے روکتا تھا اور کہتا تھا کہ یہاں سے آگے کہیں جنت ہے تو شوق سے جائیے ورنہ زندگی یہیں کاٹ دیجیے مگر ہم لُطفِ منظر لے کر حسرتانہ گزر جاتے تھے۔ تیس میل سکردو سے دور نکل کر ہم ایسی جگہ پہنچے جہاں دریا دوحصوں میں بٹ جاتا ہے۔ ایک حصہ مہدی آباد اور منٹھوکا آبشار کی طرف ہو جاتا ہے اور دوسرا خپلو کی طرف، جس سمت سیاچن کا اندھیرا بھی ہے، ہم نے وہاں بیٹھے فوجی بھائیوں کو اپنے شناختی کارڈ دکھائے اور سیاچن کی سمت کو پھِر گئے اور دریا کے شانہ بشانہ پہلو ملاتے ملہاریں گاتے چلے جاتے تھے۔ خدا گواہ ہے بے نور آنکھیں پُر نور ہوئی جاتی تھیں اور جذبوں کی ویران وادی میں سبزہ بھرا جاتا تھا۔ دل کی گرہیں، جو شہروں کی بے رونقی سے مضبوط ہو چکی تھیں، یہاں کھُلتی جاتی تھیں۔ آگے بہت دُور جا کر ایک ایسا گاوں آیا کہ بیان کیا کیجیے، اُس کی خوبصورتی اور جدائی کا داغ ابھی ہمارے سینے میں ہے۔ یہ گاوں یوں نیچے سے اُوپر پہاڑوں کی ڈھلوان تک چڑھا تھا جیسے سورج کی شاخیں اُس کے مرکز تک بڑھی ہوں۔ گاوں میں کھیت ہی کھیت تھے، سبزیوں کے کھیت، گندم کے کھیت، جَو کے کھیت، آلو کے کھیت، مکئی کے کھیت۔ اِن کھیتوں میں مرد، عورتیں، لڑکے بالے، کام کرتے تھے یا ستارے پیلیوں میں چمکتے تھے۔ اگرچہ یہ دن جولائی کے تھے مگر یہاں آپ نومبر کے دن سمجھیے۔ گرمی نہیں تھی، سردی نہیں تھی، اندھیرا نہیں تھا، سویرا بھی نہیں تھا۔بس  اُجالا تھا کہ ہر سمت پھیلا تھا۔ جس میں یہ لوگ رہتے تھے اور سدا خدا کی نعمتوں میں بہتے تھے، شہروں کی آلودگی سے دور، دِلوں کی صیقل زمینوں میں۔

کچھ آگے گئے تو اچانک ہمیں ایک مصیبت نے آ لیا۔ اللہ جانے اِس بھرے پُرے خطے میں کہاں سے مولویوں کا ایک قافلہ نمودار ہو گیا۔ دس بارہ گاڑیاں بھری ہوئی ہمارے آگے سے نکل کر سڑک پہ بھر گئیں۔ سڑک تنگ تھی اور یہ حضرات چوڑے، اُس پر طرہ یہ کہ آپے سے باہر ہوئے جاتے تھے، جانے کیا کیا نعرے لگاتے جاتے تھے اور راستہ نہیں دیتے تھے، نہ ہم میں راستہ مانگنے کی جرات تھی کہ عقل کی آواز کا شور کے بیچ کیا کام۔ عمر رسیدہ حضرات گاڑیوں کے اندر لدے تھے اور جوان اُن جیپوں کی چھتوں پر اور اِدھر اُدھر مڈگارڈوں کے ساتھ لٹکے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں اپنے جھنڈے تھے اور زبانوں پر طرح طرح کے آگ بگولا نعرے تھے۔ یہ جیپیں نہ خود تیز دوڑتی تھیں، نہ رستہ دیتی تھیں۔ بس ہمارے سروں پر خاک پھینکتی چلی جاتی تھیں۔ پتا چلا کہ خپلو تک جائیں گے اور سارا رستہ یونہی ہمارا جی جلائیں گے۔ واللہ اِنھوں نے تمام سفر کا مزا ایک دم کِرکرا کر دیا۔ رستے میں کئی گاوں ایسے تھے کہ ہمیں اِن کی وجہ سے بے بصارت ہی گزارنے پڑے۔ اللہ اللہ کر کے نعرہ تکبیر کے سائے میں ہم خپلو کی حدود میں داخل ہو گئے۔ وہاں ایک جگہ پولیس کا ناکہ لگا تھا۔ پولیس نے اس بے ہنگم ریلی کو وہیں روک لیا اور کہا کے اُنھیں شہر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ وہاں اِن کا پولیس کے ساتھ دنگا شروع ہوگیا۔ہم چاروں ڈر کے مارے ایک ٹیلے پر چڑھ گئے اور یہ منظر دیکھنے لگے۔ سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ پولیس بھی کہیں ہمیں اِنہی کا ساتھی نہ سمجھ لے۔ اِسی کشمکش میں ہم نے ایک پولیس افسر سے اپنی بپتا بیان کی کہ کس طرح دُور سے اِن کی قید میں چلے آتے ہیں اور راہ نہیں پاتے ہیں۔ اللہ بھلا کرے پولیس کے سمجھ دار افسر کا، اُس نے ہمارا درد پہچان کر راستا دیا اور اُن کے چُنگل سے آزاد کرایا اور اُن کو لاٹھی چارج سے پیچھے بھگایا۔ چنانچہ جدھر سے یہ قافلہ بے سالار آیا تھا اُدھر ہی کو واپس ہوا۔ یوں ہماری اُن بھلے مانسوں سے جان چھٹی اور کچھ ہی دیر میں خپلو کی ٹھنڈے سایوں والی دہلیز پر قدم رکھا۔

بڑے اور گہرے درختوں کی دھرتی نے ہمیں اپنے دامن میں گویا چھپا لیا۔ تھوڑی دیر پی ٹی ڈی سی ہو ٹل میں ٹھیکی لی، چائے پی اور اگلی منزل کی طرف کوچ کیا۔ کچھ فاصلہ، غالباً چار یا پانچ میل طے کرنے کے بعد لکڑی یا کشتی پُل کہہ لیں، کے ذریعے دریا کو مکرر پار کیا۔ پُل سے اُترتے ہی گول اور سنہرے پتھروں سے بھری ہوئی وادی میں داخل ہو گئے۔ یہ وادی پہلے دریا کا پاٹ تھی مگر چند سالوں سے دریا نے اِسے تنہا چھوڑ دیا ہے اور شرقی سمت کو آبِ نعمت سے فیضیاب کر رہا ہے۔ اِس وادی میں سے گزرنے کے لیے مقامی لوگوں نے چھوٹے چھوٹے گول پتھروں سے ایک سڑک بچھا رکھی ہے جہاں سے ہمارے جیسے آوارہ منش گاڑی موٹر سائکل وغیرہ گزار کر سیلنگ کی طرف جاتے ہیں۔ اِس کے چاروں اُور پہاڑوں کا منظر ایسا ہے، جیسے آسمان کی چھت کو سہار دینے کے واسطے اُونچے اور چوڑے ستون کھڑے کر دیے گئے ہوں۔ جن پر اُونچی کلغی والا آسمان کھڑآ زمین کے کیڑے مکوڑوں پر نیلی بصارت پھینک رہا ہو۔ پہاڑوں کی یہ فصیلیں دل پر ہیبت ایسی طاری کرتی ہیں کہ نگاہ بلند نہیں اُٹھتی۔

سیلنگ ہمارا پڑاو تھا اور ہم کچھ ہی دیر بعد وہاں موجود ہو گئے۔ اب اس جگہ کا قصہ میں کیا کہوں، جھیلیں ہی جھیلیں تھیں، میٹھے پانی کی جھیلیں، ٹھنڈے پانی کی جھیلیں، ٹراوٹ مچھلی والی جھیلیں اور دریا کی پڑوسن جھیلیں، بڑی بڑی اور گھنی اور خوشبو دار اور ہری بھری اور سُرمئی جھاڑیوں والی جھیلیں۔غرض انھیں کوئی نام دے لیں، اتنی زیادہ تھیں کہ نظریں ایک کو دیکھ کر دوسری کی طرف دوڑتی تھیں۔ اور جھاڑیوں کے درمیان کبھی اِن کا رنگ سبز نظر آتا، کبھی بادل گھِر آنے سے سُرمئی ہو جاتا، کبھی آسمان صاف ہونے پر نیلمی روپ دھار لیتیں اور اپنے اندر سے باہر کے سب جلوے آئینے کی طرح دکھاتیں۔ یعنی، آسمان، بادل، جھاڑیاں، خوبصورت ناریاں ہم نے تو اِنھیں جھیلوں کے آئینوں سے دیکھے۔ پہلو میں شیر دریا بہتا ہے۔ ہمارا جی نہانے کو پُر جوش ہوتا تھا مگر پانی ٹھنڈا اتنا کہ بیچ میں پاوں رکھتے ہی جوش پھر سرد پڑ جاتا تھا مگر ہائے، وہاں کے چھوٹے چھوٹے بالکے اُن جھیلوں کے اندر ایسے ڈبکیاں لگاتے تھے اور تیرے پھرتے تھے، جیسے مچھلیوں کے بطن سے نکلے ہوں، مگر ہماری ہمت نہ پڑتی تھی کہ اُن کا ساتھی بنیں۔ بس دیکھ کے رہ جاتے تھے۔

بہت لوگ اور بھی سیر کے واسطے پھر رہے تھے۔اپنے اپنے پکوان لیے اور سیلفی کیمرے لیے۔ ہم کھانے کو کچھ نہ لے گئے تھے اور اُن کے پکوانوں پر حسرت سے نظر کرتے تھے، کہ اتنے میں وہیں ہمارا یعنی دلاور عباس کا ایک دوست مل گیا جو اپنے ساتھ وافر کھانا لایا تھا۔ اللہ اُس کا بھلا کرے، اُس نے ہماری سیر دوبالا کر دی۔ ایک شے، جس نے میرے جی کو بہت جلایا کہ لوگ کھا پی کے اپنا گند وہیں پھینک رہے تھے اور جھیلوں کا سنہری اور نیلمی ماتھا داغ دار کر رہے تھے۔میں نے تھوڑی دیر کے واسطے دلاور کو ساتھ لیا، کافی سارا گند اکٹھا کیا اور اُسے آگ لگا دی۔ ہماری دیکھا دیکھی دوسروں نے بھی یہی کیا اور تھوڑی ہی دیر میں سب کچرا غائب تھا۔ کاش لوگ گند نہ پھیلایا کریں، خدا کی بھیجی ہوئی نعمتوں پر داغ نہ لگایا کریں۔ خیر یہاں ایک دوکان بھی ہے، جس میں سوائےسیون اپ اور بھُنی دال کے کچھ دستیاب نہیں البتہ پاس ہی ایک پارک ہے، پارک میں بھی ایک نہایت ٹھنڈے اور میٹھے پانی کی چھوٹی سی جھیل ہے، اِس میں ٹروٹ مچھلیاں سیاحوں کو دکھانے کے واسطے چھوڑ رکھی ہیں۔ اسی میں کھانے پینے کے لئے ایک چھوٹا سا ہوٹل بھی ہے، مگر ہم وہاں سے کچھ نہ کھا سکے۔

یہاں دلاور عباس کا ایک دوست سیلفی والا کیمرہ بھی لے آیا، جس کی کھنچی ہوئی تصویریں آپ دیکھیں تو دیکھتے رہ جائیں گے۔ اس جگہ سے ہلنے کو جی نہیں کرتا تھا مگر اس مقام سے متعلق ایک کہاوت ہے کہ یہ وادی اور جھیلیں دن کے وقت انسانوں کے لیے ہیں اور رات کو پریوں کے واسطے ہیں۔لہذا لوگوں کو دن ہی دن میں یہاں سے چلا جانا چاہیئے۔ کہاوت جھوٹی ہو یا سچی، مجھے اس سے غرض نہیں مگر اتنا وثوق سے کہتا ہوں کہ بچپن میں دادی اماں جن پربتوں اور جھیلوں کے بارے میں بیان کرتی تھیں کہ وہاں دیو اور پریاں رہتی ہیں اور شہزادہ اُن کے چنگل میں پھنس جاتا ہے، وہ یہی جگہ ہے۔ اور میں تو بھائی شہزادہ ہوں یا نہ ہوں مگر اُس جگہ کے چنگل میں پھنس چکا ہوں،۔دلاور عباس تیرا اور تیرے دوست تنویر کا کس منہ سے شکر ادا کروں کہ تم نے مجھے دادی اماں کی کہانی والے دیس کی، پربت کی اور جھیلوں کی سیر کرا دی۔خیر پانچ بجے شام تک ہم نے یہیں پاوں پسارے، جھیلوں کے کنارے، بلند پہاڑوں کو دیکھا، ٹھنڈی ہواوں کو چھوا، نیلے پریوں کا لمس محسوس کیا اور اِن دو شیشے جیسی آنکھوں سے اُن کی زیارت کی۔ واپسی پر گول گاوں میں رُکے، چائے پی، اور گاوں کے چشموں پر منہ دھویا، رات آٹھ بجے واپس سکردو لوٹے۔ واپسی پر دوستوں نے، (دلاور عباس، ذی جاہ اور تنویر) نے ہم سے ہماری غزلیں سُننے کا تقاضا کیا، ہم نے ایک غزل کے چند شعر پڑھے، جو ان کے سر کے اوپر سے گزر گئے، پھر دوسری غزل کے کچھ شعر پڑھے وہ بھی خالی نکل گئے۔اس کے بعد ہم نے تھوڑی دیر غورو فکر کیا اور پندرہ سال پہلے کے یعنی لڑکپن کے زمانے کی کہی ہوئی ایک غزل کے شعر پڑھے، اُس پر واہ واہ کے ڈونگرے برسنے لگے، اُس کے بعد یادداشت کے زور پہ پُرانی شاعری شروع کر دی اور خوب داد سمیٹی۔ یوں رات آٹھ بجے سکردو واپس پہنچ لیے اور اگلے دن سنگریلا اور کچورا کا منصوبہ گانٹھا اور سو لیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).