گلگت بلتستان کی بھی سنیں
گلگت بلتستان میں ہزاروں لوگ کو سڑکوں پر مارچ کرتے دیکھ کراور وفاقی حکومت کو ٹیکس نہ دینے کے اعلان پر مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ یہ کوئی وقتی ابال نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے پکنے والا لاوا ہے جسے آج نہیں تو کل پھٹنا ہی تھا گلگت بلتستان کے شہریوں پر ٹیکس نافذ کیا گیا تو ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ ہزاروں لوگوں نے دارالحکومت گلگت کی طرف مارچ شروع کردیا۔ ہڈیوں کا گودا تک ٹھنڈا کردینے والی یخ بستہ سردی کے باوجود جوق درجوق لوگ اس احتجاج میں شامل ہوئے۔ حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور ٹیکس کے نفاذ کو فی الحال موخر کردیا گیا۔
گلگت بلتستان کے حالیہ احتجاج کا وسیع تر تناظر میں جائزہ لیا جانا چاہیے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام میں وفاقی حکومت کے خلاف سخت غصہ پایا جاتا ہے۔ وہ عشروں سے مطالبہ کررہے ہیں کہ انہیں پاکستان کا پانچواں صوبہ بنایاجائے یا پھر آزاد کشمیر کی طرز پر انہیں نیم خودمختار حکومت فراہم کی جائے۔ وفاقی حکومت ان کے ساتھ کئی برسوں سے کمیٹی کمیٹی کا کھیل کھیل رہی ہے۔ سرتاج عزیز کی قیادت میں ایک کمیٹی قائم ہوئی لیکن وہ کوئی فیصلہ ہی نہیں کر پاتی۔ بتایا جاتا ہے کہ عسکری لیڈرشپ اور وزارت خارجہ کی رائے ہے کہ کوئی ایسا فیصلہ نہ کیا جائے جو مسئلہ کشمیر پر منفی اثرات مرتب کرے یا پھر کشمیری رائے عامہ کو مایوس کرنے کا باعث بنے۔
پیپلزپارٹی نے گلگت بلتستان کو با اختیار بنانے کے لیے اسمبلی اور وزیراعلیٰ کا منصب تو گلگت بلتستان کوعنایت کردیا لیکن ان کے اوپر گلگت بلتستان کونسل کے نام سے بھی ایک ادارہ مسلط کردیا جس کی موجودگی میں گلگت بلتستان کی حکومت کی حیثیت ایک طفیلی انتظامیہ سے زیادہ نہیں۔ اہم امور پرفیصلہ سازی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات کونسل کے پاس ہیں۔ وہ ججوں اور الیکشن کمیشن کا تقرر کرتی ہے۔ وفاقی حکومت اس علاقے میں چیف سیکرٹری، آئی جی پولیس، سیکرٹری خزانہ اور سیکرٹری ترقیات بھی براہ راست اور اپنی مرضی سے تعینات کرتی ہے۔ شہری بجا طور پر پوچھتے ہیں کہ اگر اسلام آباد نے گلگت بلتستان کونسل کے نام پر خود ہی حکومت چلانی ہے تو پھر الیکشن اور اسمبلی کا جھنجھٹ کاہے کو پالا جاتا ہے۔
گلگت بلتستان میں یہ تاثر بھی عام ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کی کامیابی کا دارومدار ان کے علاقے سے گزرنے والی شاہراہ قراقرم پر ہے لیکن اس خطے میں کوئی قابل ذکر اقتصادی منصوبہ نہیں لگ رہا۔ خطے کی ترقی کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ 56 بلین ڈالر سے لگنے والے منصوبوں کا بڑا حصہ پنجاب اور سندھ میں لگا رہاہے۔ سی پیک میں خلل ڈالنے کی خاطر گلگت بلتستان میں عدم استحکام پیدا کرنا پاکستان کے مخالفین کا ایک بڑا ہدف ہے۔ شاہراہ قراقرم اس علاقے سے گزرتی ہے۔ 57 کلو میٹرطویل ہزارہ موٹر وے منصوبہ جو پاک چین اقتصادی راہدارای کا ایک اہم حصہ ہے، کا وزیراعظم شاید خاقان عباسی حال ہی میں افتتاح کرچکے ہیں۔ اگلے سال ہزارہ موٹروے کا بڑا حصہ مکمل ہوجائے گا۔ یہ بتایا جاتا ہے کہ موٹر وے کی تکمیل اور شاہراہ قراقرم کی کشادگی کے بعد گلگت سے اسلام آباد کا سفر آٹھ گھنٹوں تک سمٹ جائے گا۔ سکردو سے گلگت تک بھی اعلیٰ پائے کی شاہراہ کی تعمیر کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ ان منصوبوں سے خطے کی تقدیر بدل جائے گی۔ مقامی لوگ باقی ملک کے مربوط ہوجائیں گے۔ بتدریج ترقی اور خوشحالی کے ثمرات ان تک بھی پہنچیں گے۔
گلگت بلتستان میں پائے جانے والے احساس محرومی پر پاکستان کے مخالفین کی کافی وقت سے نظرہے بلکہ وہ مناسب موقع کی تاک میں ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ کوشش کی کہ وہ اس احساس محرومی کو استعمال کرکے پاکستان کو ناکوں چنے چبوائیں لیکن اس خطے کی فضا پاکستان مخالف سرگرمیوں کے لیے سازگار نہیں لہٰذا مخالفین کے تمام حربے ناکام ہوگئے۔
سی پیک کے منظر عام پر آنے سے بھارت کے اضطراب میں زبردست اضافہ ہوا۔ 2015 میں چین کے صدر شی چن پنگ نے اس منصوبے کا اعلان کیا تو دنیا حیرت زدہ رہ گئی۔ یہ غیر متوقع اور غیر معمولی اعلان تھا کیونکہ پاکستان جہاں دنیا کے سرمایادار اور ملٹی نیشنل کمپنیاں قدم رکھنے سے کتراتی تھیں وہاں چین نے اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری کی نہ صرف حامی بھری بلکہ پورا ایک فریم ورک بھی فراہم کردیا۔ چنانچہ محض دو ماہ بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ یہ منصوبہ ہمارے لیے ناقابل قبول ہے۔ دہلی میں ایک سمینار سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے دل کی بات کہی دی۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان متنازعہ علاقہ ہیں۔ اس سے گزرنے والی پاک چین اقتصادی راہداری کے تصور کو بھارت قبول نہیں کرے گا۔ اس وقت سے بھارت نے سی پیک کو ناکام بنانے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی اور وہ ایک ہمہ جہت پالیسی پر گامزن ہوگیا۔
پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ نے اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چین کے جنوبی ایشیا میں اثرات کو روکنے کے نام پر امریکہ بھارت کے اشتراک سے سازشیں کررہاہے۔ امریکہ اور بھارت کشمیر پر بھی ایک جیسا موقف اختیار کرچکے ہیں۔ بھارت کی ہی شہ پر موجودہ امریکی انتظامیہ نے بھی سی پیک کے حوالے سے خدشات کا اظہار کرنا شروع کیا۔ امریکی عہدے داروں نے کانگریس کو بتایا کہ سی پیک ایک متازعہ خطے سے گزرے گا جس پر انہیں تحفظات ہیں۔ امریکی سیکرٹری دفاع جیمز میٹس نے سینٹ کی ایک کمیٹی کو بریفنگ کے دوران کہا کہ یہ منصوبہ ایک متنازعہ علاقے سے گزر رہاہے جو زورزبردستی کرنے کے خطرہ کا اظہار ہے۔
سی پیک کی مخالفت بھارت کی پاکستان پالیسی کا اب ایک اہم نکتہ بن چکا ہے۔ عالمی طاقتوں کو اس حوالے سے گمراہ کن اطلاعات فراہم کی جاتی ہیں۔ اسے ایک تجارتی کے بجائے سیکورٹی منصوبہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے جو نہ صرف اس خطے کے ممالک کے لیے خطرہ بن سکتاہے بلکہ دیگر ممالک کی سلامتی کو بھی نقصان پہنچاسکتاہے۔ چنانچہ امریکہ، جاپان، بھارت اور آسٹریلیا نے مشترکہ طور پر نہ صرف اس منصوبے کی مخالفت کا فیصلہ کیا ہے بلکہ اس نوع کا ایک متبادل منصوبہ شروع کرنے کا اعلان بھی کیا۔
عالمی سطح پر بلوچ منحرفین اور دیگر پاکستان نژاد شخصیات جو مغربی ممالک میں قیام پذیر ہیں کے تعاون سے ایک بھرپور مہم چلائی جارہی ہے جو سی پیک کو گلگت بلتستان او ر بلوچستان کے عوام کے لیے ضرر رساں بنا کر پیش کرتی ہے۔ جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے ہر اجلاس میں اس موضوع پر خطاب اور سیمیناز ہوتے ہیں۔ چین کو آج کے دور کی ایسٹ انڈیا کمپنی کہا جاتا ہے جو رفتہ رفتہ پاکستان کے سارے وسائل پر قبضہ کرلے گی اور پاکستانیوں کو قرض میں جھکڑ کر سب کچھ ہتھیا لے گی۔
گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمان جب کہتے ہیں کہ غیر ملکی سرمائے کی مدد سے علاقہ میں عدم استحکام پیدا کیا جارہاہے تو ان کی بات سمجھ میں آتی ہے کیونکہ وہ حالیہ احتجاج کو وسیع تر تناظر میں دیکھتے ہیں۔ کئی ممالک چاہتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں بھی بلوچستان کی طرح عدم استحکام ہو تاکہ پاک چین منصوبوں کی رفتار سست کی جاسکے۔ گلگت بلتستان کے شہری تمام تر محرومیوں کے باوجود نہ صرف پرامن شہری ہیں بلکہ زبردست محبت وطن بھی ہیں۔ ابھی تک غیر ملکی عزائم کو کامیابی نہیں مل سکی۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس خطے کے عوام کے جائز مطالبات کو اہمیت نہ دی جائے۔ گلگت بلتستان کی حکومت کو زیادہ سے زیادہ با اختیار بنایا جانا چاہیے۔ گلگت بلتستان کونسل جس کے سربراہ وزیراعظم پاکستان ہیں کہ انتظامی اور مالی اختیارات کو کم سے کم کرکے انہیں گلگت بلتستان کی اسمبلی کو منتقل کیا جائے تاکہ گلگت بلتستان میں ایک با اعتماد لیڈرشپ اپنے مسائل خود حل کرسکے اسے معمولی فیصلوں کے لیے بھی اسلام آباد کی رضامند ی درکار نہ ہو۔
- بھارتی سرکاری اہلکار پر امریکہ میں ٹارگٹ کلنگ کا الزام - 12/12/2023
- آزاد کشمیر سڑکوں پر - 09/10/2023
- سردار تنویر الیاس کیوں ناکام ہوئے؟ - 20/04/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).