مولانا طارق جمیل، نور جہاں اور عدنان خواجہ سرا


موت آجائے گی مہ پاروں کو
ہائے یہ لوگ بھی مر جائیں گے
بشیر منذر کا یہ شعر جب پڑھا، میڈم نور جہاں یاد آئیں۔ اور اس یاد آنے کی وجہ یہ تھی کہ تین چار سال پہلے ایک مضمون حسن عباس رضا صاحب نے لکھا تھا نور جہاں کے بارے میں قلم برداشتہ مضمون تھا، تو اس کا اختتام اس شعر سے ہوا تھا۔
آج بیٹھے بٹھائے میڈم نور جہاں کی یاد ایسے آ گئی کہ فقیر مولانا طارق جمیل کے کسی لیکچر کا ایک ٹکڑا سن بیٹھا۔ اعتراف، کہ گناہ گار ہیں ہم۔ اعتراف کہ تبلیغی بیانات سننے سے دور کا بھی علاقہ نہیں۔ اعتراف کہ آج تک کبھی نہیں سنا تھا مولانا کو۔ ہاں نام بہت سنا تھا، گہری عقیدت میں ڈوبے اپنے بھائیوں کو دیکھا تھا۔ بات بات پر ریفرنس کوٹ کرتے دیکھا تھا۔ تو پھر بھی کبھی توفیق نہ ہوئی سننے کی۔ آج جب نور جہاں کا نام دیکھا تو ہم نے سوچا چلو یار دیکھتے ہیں مولانا کیا فرماتے ہیں۔ تو بس یہ ہوا۔
اس پانچ منٹ کی ریکارڈنگ سننے سے دو معاملات واضح ہو گئے۔ ایک تو یہ الزام تھا کہ مولانا صرف اہم شخصیات کو تبلیغ فرماتے ہیں، اس کی شدت زائل ہو گئی۔ اور دوسرا یہ تھا کہ عموماً مولوی لوگ گانے والوں کو بہت برا سمجھتے ہیں، تو اس کی شدت بھی کچھ کم ہو گئی۔ ہمارے دل پر تو وہ وقت بھی لکھے تھے کہ جب میڈم کی نماز جنازہ نہ پڑھانے کے بھی فتوے آئے تھے۔ بہرحال مولانا طارق جمیل روایت شکن ثابت ہوئے۔
مولانا نے فرمایا کہ نور جہاں کی وفات چوں کہ ستائیسویں رمضان کو ہوئی، اور وہ شب قدر تھی، تو وہ بخشی گئیں اور بے حساب بخشی گئیں۔ سن کر بہت خوشی ہوئی۔ پھر باقاعدہ لوگوں کو مخاطب کر کے یہ بات کہی کہ اب تم لوگ خدا پر مقدمہ نہ کر بیٹھنا کہ اے خدا، تو نے یہ کیا کر دیا، ارے بھئی اس نے اس رات کا انتخاب ہی اس لیے کیا کہ وہ انہیں بخشنا چاہتا تھا۔ پھر عامر خان کی مثال دی کہ وہ بھی شوبز کا بندہ ہے۔ لیکن ایسا عمدہ انسان کہ میرا دل کرتا تھا کہ اس سے بیعت ہو جاوں۔
اللہ اکبر! ایک عالم دین کا یہ عجز، یہ انکسار، یقین جانیے وہ انشراح قلبی نصیب ہوا کہ کیا کہنے۔ پھر مولانا نے فرمایا کہ بھئی امت میں صفات محبت دو، اتنی نفرت کیوں بانٹتے پھرتے ہو۔ اس کے بعد یہ چار بیتی/دوہا پڑھا؛
دھن رے دھنئے اپنی دھن
پرائی دھنی کا پاپ نہ پن
تیری روئی میں چار بنولے
سب سے پہلے ان کو چن
یعنی اے فانی انسانو، سب سے پہلے اپنے قول و فعل کی فکر کرو، دوسروں نے کیا کیا، اس چکر میں مت پڑو بابا۔ اپنے عیب دور کرو کہ تمہاری قبر میں تمہیں نے جانا ہے۔ یہاں اک عجیب کہانی ہوئی۔

کمال ہے، اسے اتفاق کہیے یا حسن اتفاق،
لیکن عجب معاملہ ہوا۔
یہ ویڈیو جیسے ہی بڑھی، اگلی خبر یہ نظر آئی کہ عدنان نامی ایک خواجہ سرا پانچ جنوری کو پشاور میں فائرنگ کے نتیجے میں سخت زخمی ہوئیں، انہیں لیڈی ریڈنگ ہسپتال لے جایا گیا لیکن ڈاکٹروں نے تین گھنٹے تک انہیں ہاتھ بھی نہ لگایا۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ خواجہ سرا ہیں۔ تین گھنٹے بعد ان کا علاج شروع کیا گیا اور گولیاں نکالی گئیں۔
یعنی تین گھنٹے ایک مریض آپ کے سامنے ہے، مرنے والا ہے اور آپ ہاتھ نہیں لگاتے۔
آپ کا کوئی پیارا، خدا نہ کرے اسے کئی گولیاں لگیں، خدا نہ کرے وہ ہسپتال آ کر بھی تین گھنٹے موت و حیات کی کشمکش میں رہے، خدا نہ کرے کہ اس کا بہت سا خون ضائع ہو، خدا یہ بھی نہ کرے کہ اس پر بولنے والا بھی کوئی نہ ہو۔ خدا یہ بھی کبھی نہ کرے کہ میڈیا سے کوئی ایک بندہ بھی آپ کے پیارے کے حق میں کبھی نہ لکھے۔ اور خدا یہ بھی کبھی نہ کرے کہ حکومت بھی اس معاملے کو نظر انداز کر کے سوتی رہے۔
اور خدا ایسا تو کبھی ہرگز نہ کرے کہ آپ کے پیاروں میں سے کوئی مخنث (خواجہ سرا) ہو۔
اگلے زمانوں میں انہیں جنت کی چڑیاں کہا جاتا تھا۔ جو مخنث مائل بہ مردانہ صفات ہوتے وہ اردابیگی کا خطاب پاتے اور بادشاہوں اور شاہ زادیوں کے محافظ دستوں (پروٹوکول ایسکارٹ) کا حصہ ہوتے۔ جو مائل بہ تانیث ہوتے وہ خواجہ سرا کا لقب پاتے اور از قسم پیغام رسانی وغیرہ کے معاملات پر متعین رہتے۔ گویا روزگار کا سکون ہوتا۔ بادشاہ کے اقبال بلند رہتے اور ان کا دانہ پانی بھی چلتا رہتا۔ یہ لوگ معاشرے کا حصہ رہتے اور عافیت کا بسران کرتے۔
اب معاملہ کچھ اور ہے۔ زیادہ تفصیل میں جانے کے بجائے صرف یہ دیکھ لیجیے کہ ایک خواجہ سرا کو دیکھ کر آپ کے دل میں کیا جذبات ابھرتے ہیں۔
نفرت؟
شدید نفرت؟
کراہت؟
حقارت؟
شرارت؟
بعید از اخلاق گراوٹ؟
یا ہمدردی؟
یا پیار؟


سوچیے، ایسا کیوں ہے۔ جب آپ پیدا ہوئے، تب تک بھی انہیں کے بھائی بند گھروں پر آ کر مبارکیں دیتے تھے۔ شگون کے پیسے لیتے اور چلتے بنتے تھے۔ اب ایسا کیوں نہیں ہے۔ اب یہ صرف تقریبات میں ناچ گانے یا سڑک پر مانگنے تک کیوں محدود ہیں؟
شاید اس لیے کہ اس گھٹن زدہ ماحول میں ان پر کسی ہمدرد کی نظر نہیں پڑی۔ ان کے حق میں کسی مذہبی شخصیت کا آج تک بیان نہیں آیا۔ جو تاثیر، جو معجز بیانی مولانا طارق جمیل صاحب رکھتے ہیں، جیسا درد مند دل ان کا ہے، اگر وہ اس معصوم عدنان کے حق میں ایک بیان یہ ہی دے دیں کہ بھئی یہ مخلوق بھی تم ہی جیسی انسان ہے، اس سے اس قدر غیریت نہ برتو کہ سامنے پڑا بندہ مرتا مر جائے اور تم بے غیرتوں کی طرح کھڑے دیکھتے رہو، ہاتھ تک نہ لگاو، کجا علاج کرنا، یہ حیوانیت چھوڑ دو۔ تو ہمارا خیال ہے کہ ان کے ماننے والوں کی بڑی تعداد اس بات کی مذمت میں اٹھ کھڑی ہو گی اور اس مجبور ترین فرقے کو کچھ سکھ کا سانس نصیب ہو جائے گا۔
صاحب دیکھیے، بات پھر وہی ہے۔
دھن رے دھنئے اپنی دھن
پرائی دھنی کا پاپ نہ پن
تیری روئی میں چار بنولے
سب سے پہلے ان کو چن
مولانا کہتے ہیں کسی کی طرف انگلی اٹھاتے ہو تو دھیان رکھو کہ باقی تینوں انگلیاں تمہاری طرف ہیں۔ کسی کے بارے میں کچھ بھی سوچنے، کوئی بھی رائے قائم کرنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکو۔
ذرا اپنے گریبان میں جھانکیے تو سہی صاحب۔ کیا کسر ہے؟ کس بات کے بھاﺅ ہیں؟ کیوں ہے اتنی اتراہٹ؟
صرف اس لیے کہ آپ کی اعضائے جسمانی درست تناسب میں ہیں تو آپ جو مرضی چاہے کرتے پھریں اور آپ کہلائیں اشرف المخلوقات؟ اور وہ جو اشرف المخلوقات ہوتے ہوئے بھی اس شرف سے محروم رہیں کہ ان میں ’چوّنی کم ہے\” تو یہ کہاں کی انسانیت ہے؟ وہ گولیاں کھائیں، تڑپ تڑپ کر جان دے دیں، آپ کی بلا سے۔ آپ ہاتھ نہیں لگائیں گے کیوں کہ آپ اشرف ہیں اور وہ اسفل ہیں۔
ڈاکٹر صاحب، آپ شاید وہ حلف نامہ بھول گئے جو ڈاکٹری کے لیے آپ اٹھاتے ہیں وہ انسانیت کی خدمت وغیرہ والے معاملات۔ صاحب، یہ بھی انسان ہیں۔ یہ بھی سانس لیتے ہیں۔ ان کے بھی بھائی بہن ماں باپ ہوتے ہیں۔ یہ بھی آپ کے ہمارے جیسے ہنستے ہیں، روتے ہیں، جاگتے ہیں، سوتے ہیں، مگر ہاں، چوں کہ ابھی تک کسی مذہبی عالم کا مذمتی بیان نہیں آیا تو ہم امید نہیں کر سکتے کہ یہ تحریر آپ تک پہنچے گی۔
تو اس لیے، اس وقت، رات کے بارہ بج کر چوالیس منٹ پر ہم مولانا طارق جمیل کے تمام چاہنے والوں سے درخواست کرتے ہیں کہ مولانا تک یہ تحریر پہنچائی جائے اور ان سے دست بستہ گذارش کی جائے کہ حضور آپ کا دیا گیا یک سطری بیان لوگوں کے دل پلٹانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ خدارا کچھ ان کے حق میں بات کیجیے، کچھ اس واقعے کی مذمت کر دیجیے تو شاید اگلی بار کوئی عدنان ڈاکٹر کے انتظار میں نہ پڑی رہے۔
تو ایسا ہو جائے تو کیا ہی اچھا ہو کہ یہ بھی انسان ہیں اور خبر نہیں کون حج پر جائے اور مر جائے، خبر نہیں کس کی مغفرت شب قدر پر مرنے سے ہو جائے، خبر نہیں کون بخشا ہوا ہے، خبر نہیں کون گناہ گار ہے کہ ہم تو ہمیشہ نقصان میں رہنے والی مخلوق ہیں اور عالم غیب بھی ہم میں سے کوئی نہیں۔

(15 جنوری 2016)

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments