نئے سال کی مبارک باد اور بڑھتی ہوئی تنگ نظری


قصور وار سوشل میڈیا ہے یا اہل وطن کی انتہا پسندی ہے مگر ان دونوں نے ہم سے بہت سی خوشیاں چھین لی ہیں۔ بہت سے تہوار، بہت سی رسمیں تھیں جو ہم بہت شوق سے منایا کرتے تھے او ر چاہتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو بھی حسین رسمیں ورثے میں دے جائیں۔ مگر کسی نہ کسی بہانے سے ہمیں باور کرایا گیا کہ یہ رسمیں غلط ہیں یہ نہیں منانا چاہئیں۔ انہی میں سے ایک رسم سالِ نو کا جشن ہے۔

ایک وقت تھا جب دسمبر کے آخری دنوں میں رخصت ہونے والے سال یا نئے سال کے اشعار یاد کر کے ایک دوسرے کو سناتے پھرتے، نوٹ بکس، ڈائریوں میں دسمبر شروع ہوتے ہی نئے سال کے حوالے سے اشعار لکھنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ دوست احباب، کزنز کو خطوں میں پرانے سال کے جانے کا تذکرہ کرتے، نئے سال کے بہتر ہونے کی تمنا کرتے۔ گدگداتے ہوئے اشعار لکھے جاتے۔ ہمیں بھی اسی طرح کے خط ملتے۔ یادیں تازہ کرتے ہیں۔ نئے سال کے استقبال کے لئے شعراء نے کیا کیا شاندار شعر تخلیق کیے

یہ سال تیرے واسطے خوشیوں کا نگر ہو
کیا خوب ہو ہر روز تیری عید اگر ہو
کچھ خوشیاں کچھ آہیں دے کر ٹال گیا
لو جیون کا اک اور سنہرا سال گیا
نئے سال جب بھی آنا تم
سب کے لئے بس خوشیاں لانا تم
جو سوئے ہوئےہیں انہیں جگانا
جو روٹھےہوئے ہیں انہیں منانا تم
اور دعائیہ پیغامات ہوتے
اللہ کرے یہ سال آپ کی خوشیوں میں اضافہ کرے، صحت و تندرستی لائے وغیرہ وغیرہ

سیل فون کا دور آیا تو ڈائریوں میں شعر لکھنے یا خطوں کے ذریعے نئے سال کی خوشی کے پیغام کی بجائے میسج کے ذریعے یہ پیغام بھیجے جانے لگے۔ سارا سال میسج نہ کرنے والے دوست بھی ہیپی نیو ایئر کے میسج ضرور بھیجتے۔ میسج کی بار بار کی ٹوں ٹوں بنا دیکھے ہی بتا دیتی کہ ہیپی نیو ایئر کا ایک اور میسج آیا ہو گا۔ 31 دسمبر کی شام سے ہی دنیا میں جہاں بھی رات کے بارہ بج رہے ہوتے پی ٹی وی ان ممالک کے جشن دکھانا شروع کر دیتا اور ہم بہت شوق سے دیکھتے۔ آتشبازی ہو رہی ہوتی۔ لوگ ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے ہوتے سب بہت خوش ہوتے۔ یہ سب کچھ بہت اچھا لگتا تھا۔

لیکن پھر یوں ہوا کہ آہستہ آہستہ سے ہمیں بتایا جانے لگا کہ یہ سب کام غلط ہے۔ جیسے جیسے ملک عزیز میں دھماکوں کے شعلے بلند ہونے لگے ویسے ویسے مقررین کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ یہ بھی غیر شرعی ہے وہ بھی غیر شرعی ہے۔ دین میں یہ منع ہے وہ منع ہے۔ دین خطرے میں ہے۔ دین کی سربلندی اسی میں ہے کہ حجاموں کی دکانیں بند کر دو، سی ڈی بیچنے والوں کی دکانیں جلا دو، دین اسی طرح بچ سکتا ہے کہ گلے کاٹنے شروع کر دو۔ جو لوگ دوسروں کو نقصان پہنچا کر خوش ہونے والی نفسیات رکھتے تھے وہ بھی انتہا پسندوں کی آوازوں میں آوازیں ملانے لگے۔ اور پھر یوں ہوا کہ نئے سال پر محبت بھرے پیغامات، دعائیں آنے کی بجائے اس کے غیر اسلامی ہونے، ہیپی نیو ایئر کہنے پر سخت گناہ کی وعید کے میسج ملنے لگے۔ سوشل میڈیا کا دور ہے تو اب اتنے میسج نئے سال کے نہیں آتے جتنے اس کو نہ منانے کے آتے ہیں۔ ہمیں کہیں کوئی ایسا حوالہ نہیں مل سکا جس میں کسی کو مبارک باد دینے سے منع فرمایا گیا ہو۔ کسی کی خوشی کو اس کے مسلک یا مذہب کے حوالے سے پرکھا گیا ہو۔ ہمارے نبی کریم ؐ تو بلاتکلف غیر مسلموں کے ساتھ کھانے میں شریک ہو جاتے۔ ہمارے خلفائے راشدین اور ان کے بعد کے خلفاء غیر مسلموں کے ساتھ کاروبار بھی کرتے انہیں اپنے درباروں میں جگہ بھی دیتے۔

ایک صاحب اپنے مولوی دوست کے ساتھ دریا کنارے سیر کر رہے تھے۔ اچانک مولوی کا پاؤں پھسلا اور وہ دریا میں گر گئے۔ صاحب نے پکارا۔ اپنے ہاتھ دیجئے اپنا ہاتھ دیجئے۔ مولوی صاحب ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں لیکن دوست کو ہاتھ نہیں پکڑا رہے۔ ایک جاٹ جو یہ منظر دلچسپی سے دیکھ رہا تھا اس نے مشورہ دیا۔ یوں نہ کہو کہ ہاتھ دو۔ مولوی لوگ کسی کو کچھ نہیں دیتے یہ صرف لینے کے عادی ہوتے ہیں۔ تم کہو یہ میرا ہاتھ لو۔ جب وہ تمہارا ہاتھ لینے کے لئے اپنا ہاتھ بڑھائے تو اسے پکڑ کر باہر نکال لینا۔ صاحب نے جونہی پکارا۔ میرا ہاتھ لیجیے مولوی نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔

ہمارے علماء کرام کسی کو گنجائش دینے کی کوئی گنجائش نہیں رکھتے۔ ان کے نزدیک دین وہی ہے جس کی ترجمانی وہ خود کریں۔ بلکہ اب تو وہ ہمیں یہ بھی یاد دلاتے ہیں کہ کتنی دکھ بھری بات ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہو کر بھی یہاں کتنی غیر اسلامی حرکتیں ہوتی رہتی ہیں فرماتے ہیں

”ہمارے کیلنڈروں پر انگریزی تاریخ ہی درج ہوتی ہے، دفاتر میں انگریزی تاریخ والا کیلنڈر، ملازمین کی تنخواہیں اسی کیلنڈر کے مطابق، چھٹیاں بھی ان ہی تاریخوں کے حساب سے، گویا کہ اسلامی مہینوں کی تاریخیں محض رمضان المبارک اور عیدیں سے ہی معلق ہوکر رہ گئی ہیں جبکہ اسلامی مہینوں کی بنیاد چاند کے گھٹنے اور بڑھنے تر ہے جس کا ادراک ایک عام ان پڑھ آدمی بھی کرسکتا ہے پھر دوسری طرف اسلامی مہینوں کے نام شریعت نے وضع کیے اور چاند کے گھٹنے اور بڑھنے کو ان کی بنیاد قرار دیا گویا کہ اسلامی سال اور مہینوں کا نظام ایک باقاعدہ ترتیب شدہ اور اعلی و معیاری ہے اور ہم ہوش مند مسلمانوں نے معیاری چیز کو چھوڑ کر غیر معیاری اور گھٹیا چیز کو سینے سے لگالیا “

پاکستانی معاشرے کی تقسیم میں سب سے بڑا کردار علمائے کرام کا ہے۔ انہوں نے اپنی مساجد، اپنی پگڑی، اپنی داڑھی، شلوار کا سائز بلکہ اپنے ماتھے کے محراب تک کے نشان کو اتنا اتنا الگ الگ کر لیا ہے کہ دور سے دیکھ کر ہی پتا چل جاتا ہے کہ فلاں مسلک کا بندہ آ رہا ہے۔ اور اس سے دو منٹ بات کر کے یہ بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا تعلق کس مذہبی جماعت سے ہے۔ اگر ہم سنجیدگی سے سوچیں تو شہرت کے متلاشی علمائے دین نے پاکستان کو محض نفرت ہی دی ہے۔ دین اسلام کی عظیم الشان روایات سے بے بہرہ کر دیا ہے۔

ان کے ہیپی نیو ایئر کے خلاف ہونے کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ سال شروع ہوتے ہی شراب نوشی میں اضافہ ہو جاتا ہے اور ناچ گانے کی محفلیں سجائی جاتی ہیں۔ شراب نوشی کے تو ہم بھی خلاف ہیں لیکن اس کی وجوہات کچھ اور ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو شراب نوش ہیں، ناچ گانے کی محفلیں سجانے کے شوقین ہیں وہ اپنے شوق پورا کرنے کے لئے ہیپی نیو ایئر کے محتاج نہیں۔ وہ اپنا کام سارا سال جاری رکھتے ہیں۔

آج سال کا آخری دن ہے کچھ لوگ نئے سال کو خوش آمدید کہنے کے لئے کہیں جمع ہوں گے تو کچھ لوگ جن کے چہرے پر داڑھی ہو گی، پائنچے اونچے ہوں گے، کف کھلے ہوں گے، منہ میں گالیاں اور ہاتھوں میں ڈنڈے ہوں گے اور یہ سڑکوں اور بازاروں میں لوگوں کی کھڑی گاڑیوں پر ڈنڈے برسا رہے ہوں گے۔ المیہ تو یہ ہے کہ وہ یہ سب کچھ دین کے نام پر کر رہے ہوں گے۔ اور اس کے لئے انہیں ان کے علمائے کرام نے اکسایا ہے۔ انہیں بتایا ہے کہ دین اسلام خطرے میں ہے۔ جس دین کی حفاظت کا ذمہ خود خدا نے لیا اس دین کو ایک عالم اپنے مفاد کے لئے خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے کا حکم دیتا ہے۔ اور ایسے ہی حکم دیتا ہے۔ یہ نہیں بتاتا کہ ہمارے دین میں بے شمار اچھی باتیں بھی ہیں۔ انسان سے چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو اس سے حسن سلوک کا حکم ہے۔ میانہ روی کا حکم ہے۔ رواداری برتنے کا حکم ہے۔

سال نو کے لئے ایک دوسرے کو مبارک باد کے پیغامات کا تبادلہ شروع ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں نئے سال کی آمد پر خوشی کا اظہار کرتا ہے۔ دعاکی جاتی ہے کہ نئے سال کا سورج نئی امنگوں اور امیدوں کے ساتھ طلو ع ہوگا۔

بھر نیا سال نئی صبح نئی اُمیدیں!
اے خدا خیر کی خبروں کے اُجالے رکھنا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).