والدین اور بچوں کی بدلتی ہوئی دنیا


 \"Hussain01\"

ایک زمانہ تھا جب اولاد کی سعادت مندی کو والدین کی بہترین تربیت کا معیار تصور کیا جاتا تھا، اولاد جس قدر فرمانبردار ہوتی اس گھرانے کا نام اتنے ہی عزت و احترام سے لیا جاتا ، ایسی اولاد کو خوش ذایقہ پھل دار درخت سے تشبیہ دی جاتی اور والدین کو بہترین باغبان سے۔ اولاد کی سعادت مندی کا معیار اگر کسی بزرگ سے معلوم کیا جائے تو وہ انتہائی عاجزی سے کہیں کہ ہماری اولاد نے کبھی ہماری اجاذت کے بغیر پانی کا ایک گھونٹ تک نہیں پیا۔ پھر زمانے نے کروٹ لی ماہرینِ نفسیات کی جدت پسند تحقیق نے نا صرف اس بات کا دعوہ کیا بلکہ نئی نسل کو یقین بھی دلادیا کہ بے جا روک ٹوک اور سختی سے بچوں کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ان کی تخلیقی صلاحیتیں بھی ختم ہوجاتی ہیں، جب کہ اس امر سے انکار کسی طور ممکن نا ہوگا کہ اس تحقیق کو انجام دینے والے اشخاص زمانے گزشتہ کے تربیت یافتہ اساتذہ سے ہی تعلیم حاصل کر کے آج محقق بنے ، نا صرف یہ بلکہ تحقیق کے لئے جو آلات و اسلوب کا استعمال کیا گیا ہوگا وہ بھی گزشتہ زمانے ہی کی مرہون منت ہوگا۔ بہرحال آج کے دور میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو دل سے روائیتی تربیت کے قائل ہیں مگر جدید تقاضوں سے بھی انحراف نہیں کر سکتے لہذا زمانئے گزشتہ کی سعادت مند اولاد کو دورِ جدید کی آزادی رائے دینے کا ایک آسان حل ماں باپ کی باہمی سانچ گانٹھ ہے، جب اولاد کوئی معاملہ والدہ کہ روح بروح پیش کرے اور والدین کی رائے اولاد کے بر عکس ہو تو اول تو والدہ نرم مزاجی سے ان کی رائے کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتیں ہیں اور ناکامی کی صورت میں والد کی سخت مزاجی کا سہارا لے کر اپنا فیصلہ اولاد کے منہ کا لقمہ بنا لیتی ہیں اور اگر معاملہ والد کی عدالت میں ہو تو وہ والدہ کی بے بسی اور لاچارگی کی دوہائی دے کر اپنی بات پر قائل کر لیتے ہیں گویا یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں جو حالات کے ساتھ صرف اپنی سمت تبدیل کرتے ہیں حقیقت نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments