دو قومی نظریے پر عجب وقت پڑا ہے !


\"kashifقوموں کی تشکیل میں مذہب کے بنیادی کردار کو عیاں کرتا \”دو قومی نظریہ\” درست تھا یا غلط اس سے قطع نظر عملی طور پر  اس خطہ برصغیر میں آج بھی اسی طرح زندہ ہے جس طرح  نصف صدی قبل تھا۔ یہاں تک  کہ سقوط ڈھاکہ نے بھی اس کی قوت کے سامنے ہتیار ڈالتے ہوئے مسلم بنگال اور ہندو بنگال کے درمیان اس حد فاصل کو قائم رکھا ہے جو مذہبی بنیادوں پر ملک کی تقسیم کے وقت قائم ہوئی تھی۔ اس قوت نے نہ صرف یہ کہ بنگال اور پنجاب  کی قدیم تاریخ کو دو لخت کیا بلکہ میرٹھ سے کلکتہ، گجرات سے حیدرآباد اور بمبئی سے مدراس تک کڑوروں انسانوں کو پرکھوں کے وطن سے  ہجرت کرکے اجنبی سرزمین کو اپنانے پر بھی مجبور کردیا۔تمام تر ناموافق حالات کے باوجود آج بھی اس نظرئے کی جڑیں  اتنی گہری اور توانا ہیں کہ سو لاکھ کوششیں کر لیں،  نہ  نواز شریف اسے ختم کرسکتے ہیں اور نہ شیخ حسینہ واجد۔

کاٹ خانے والی غلامی کے زمانے میں\”مذہب\” کو ذاتی زندگیوں سے نکال کر ملک اور قومی سیاست کا بنیادی محور  و مرکز بنانے والی \”مسلم لیگ\” مذہبی علماء پر مشتمل نہ تھی بلکہ اس کی باگ دوڑ اس وقت کی  مسلم اشرافیہ کے ہاتھ میں تھی۔ کہا جاتا ہے کہ مسلم اشرافیہ نے \”مذہب\” کو اپنے سیاسی اور معاشی مقاصد کے لئے استعمال کیا کیونکہ وہ اپنے سے کئی گنا طاقتور ہندو اشرافیہ سے خوفزدہ تھی۔ بڑے سے بڑا عمل بھی اگر اخلاص سے خالی ہو تو اس کے نتائج میں کہیں نہ کہیں گڑبڑ ضرور پیدا ہوجاتی ہے اس لئے عین ممکن ہے کہ پاکستان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہو۔ گزشتہ ستر برسوں سے یہ ملک سیاسی، فوجی اور کاروباری اشرافیہ کے مفادات کا ترنوالہ بنا ہوا ہے۔  اگر قائد اعظم کی جیب میں  کھوٹے سقوں کے ساتھ کچھ اصلی  ہیرے بھی موجود ہوتے تو شاید قیام پاکستان کے فوری بعد نہ قیادت کا بحران پیدا ہوتا، نہ آئین  سازی میں غیرمعمولی تاخیر ہوتی  اور نہ چاروں موسموں میں عوام کو مایوسی کی طرف دھکیلنے اور ابہام پھیلانے والے دانشور  قومی ذرائع ابلاغ پر دندناتے پھرتے۔ اگر ہم تاریخ کا اجتمالی جائزہ لیں تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ  کس طرح ذاتی مفادات اور  نظریات نے ہمیں گھیرے رکھا ہے۔  یوں نظریات اور مفادات کی جنگ میں ملک ان تمام خوابوں ، وعدوں اور  دعووں سے دور ہوتا گیا جو 14 اگست 1947 سے قبل  مسلم اشرافیہ \”مسلم لیگ\” کے پلیٹ فارم سے  ہندوستان کے  طول عرض میں  پھیلے گاوں، قصبوں اور شہروں میں مسلم عوام کے سامنے پیش کرتی تھی۔

جن زمانے  میں  مملکتِ پاکستان کی تشکیل  ہوئی، ٹھیک انہی دنوں اسرائیل کا قیام بھی عمل میں آیا تھا۔ دونوں  نوزائیدہ ریاستوں کے قیام  میں مذہب نے اہم کردار ادا کیا لیکن شاید فرق صرف قیادت کی یکسوئی، اخلاص اور واضح اہداف  کا تھا۔ ایک مختصر جغرافیہ اور انواع و اقسام کے  رنگ و نسل رکھنے والے شہریوں کا   ملک اسرائیل چاروں طرف سے دشمن عرب ریاستوں میں گھرا، کٹر یہودی اور صیہونی نظریات پر کھڑا پھل پھول رہا ہے جبکہ دوسری طرف پاکستان  کے حالات ہے۔جس اشرافیہ نے اسے قائم کرنے کی سعی کی، آج خود ان کی  دوسری اور تیسری نسلیں اس کی جڑ یں کھودنے میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔ جو دستور 26 برس کی آوارگی کے بعد، نشان منزل طے کرنے کے لئے کچھ بڑوں نے مل جل کر بنالیا تھا، اسے بھی گلی محلوں میں گھسیٹا جارہا ہے اور جو نظریہ اس کے قیام  کا سبب بنا، اسے بھی لعن طعن کرنے میں کوئی کسر روا نہیں رکھی جاتی ہے۔ کنفیوزن اس قدر  ہے کہ کبھی کبھی لگتا ہے کہ اس ملک کا ہر دانشور ایک اپنا ہی بیانیہ لے کر کھڑا ہے اور ملک کا دستور ان سب سے الگ تھلگ کسی تاریک زندان میں قیدِ تنہائی کے دن گزارنے پر مجبور ہے۔

نواز شریف  تو سیاسی آدمی ہیں، ان کا ماضی و حال گواہ  ہے کہ انہوں نے  اقتدار کے لئے ہر حربہ اختیار کیا۔ کبھی وہ توہین رسالت کے قانون  259 سی سے عمر قید کی سزاکو نکال باہر کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی سود سے متعلق شرعی عدالت کے فیصلے کو چیلنج کرتے ۔ کبھی وہ پاکستان ٹیلیوژن پر خواتین میزبانوں کو دوپٹہ اوٹھنے کا حکم نامہ جاری کرتے ہیں تو کبھی  ڈھکے  سروں کو ننگا کرنے کی فرمائش  صادرہوتی ہے۔ کبھی شریعت بل کے ذریعے امیر المومنین بننے کی کوشش کرتے ہیں تو کبھی متنازع حقوق نسواں بل اور لبرل پاکستان کے نعروں کے ساتھ  جلوہ افروز نظر آتے ہیں۔سوال تو ان اہل قلم سے ہیں جو دانش کو اپنے آنگن کی لونڈی اور فکر کو اپنے گھر کا پیڑ قرار دیتے نہیں تھکتے  لیکن جب بات ریاست پاکستان کی ہو تو   قومی مفادات کو پس پشت رکھ کر ہوا کے رخ پر اڑنے لگتےہیں۔ اہل قلم کا کمال لفظوں سے کھیل کر زبان و بیاں کا ساحر بننا  نہیں بلکہ قاری کے سینے میں ان کی حرمت اور  معنی پیوست کرنا ہے۔ لیکن جب لفظ مفادات اور حالات کے تابع ہوجائیں تو  پھر  لفظوں کی حرمت کیا، دستور اور ریاست کی توقیر بھی پامال ہونے لگتی ہے۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ دریائے سندھ کے دونوں جانب آباد اقوام میں مذہب کے سوا کوئی دوسری شہ مشترک نہیں ہے، وہ  ناجانے وہ کن  سہاروں پر  سیکولرازم کی تحریک برپا کئے ہوئے ہیں۔کوئی کہتا ہے کہ ریاست کے مذہبی دستور نے دہشتگردی اور انتہاپسندی کو جواز بخشا ہے تو کسی کا دعوا ہےکہ مادی اور فکری ترقی میں مذہب اور مذہبی روایت رکاوٹ ہیں۔ میرے مختصر سے دو سوال ہیں ، پہلا یہ کہ    ریاستِ پاکستان، مذہب اسلام سے خلع لیکر اپنی چار سگی اور تین لے پالک اولادوں کو کیسے ایک چھت کے نیچے جمع رکھ سکے گی اور یہ کہ  کیا کوئی سیکولر ریاست ، مذہبی لوگوں کو   اپنےدستور  اور متعین    قومی منزل پر یوں حملہ آور ہونے کی اجازت دے گی ؟

تیسری دنیا کے ہر ملک کی طرح پاکستان کے مسائل  بھی نظریاتی نہیں، حسن انتظام سے وابستہ ہیں۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ متفقہ   آئین کی تشکیل کے بعد کسی بھی نئی بحث کی گنجائش بند ہوجاتی ۔تمام طبقات مل جل کر تعمیر وطن میں اپنا حصہ ڈالتے اور اسرائیل کی طرح ایک کامیاب مذہبی ریاست کا عنوان پاتے ۔ لیکن اشرافیہ کا ایک  طبقہ آج بھی  عوام کوان   طے شدہ  نظریاتی اورآئینی ابحاث  پر الجھا کرجہاں ایک طرف نئی نفرتوں اور  دشمنیوں کو بڑھارہا ہے تو وہیں دوسری طرف ریاست کے ساتھ بروئے کار عسکریت پسندوں کےگمراہ کن نظریات کو  بھی  اس بھٹی پر پکنے اور پختہ تر ہونے کے مواقع حاصل ہورہے ہیں۔اگر حکمران اپنی سابقہ روش پر چلتے ہوئے  مفادات کے تابع ہیں تو  کوئی  طبقہ یہ نہ سمجھےکہ وہ  آسانی سے متفقہ دستور کر  نکال باہر کردے گا۔ صاحبو تمام تر ناموافق حالات کے باوجود آج بھی اس نظریہ کی جڑیں  اتنی گہری اور توانا ہیں کہ سو لاکھ کوششیں کر لیں  نہ  نواز شریف اسے ختم کرسکتے اور نہ شیخ حسینہ واجد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments