ڈائنو شوہر


 ہمارے بچپن میں پولکا آئس کریم والوں نے بچوں میں اپنی آئس کریم کی فروخت بڑھانے کے سلسلے میں جانوروں کاایک تصویری البم بنانے کا دلچسپ مقابلہ شروع کیا۔ ہر پولکا آئس کریم کے ایک کپ کے ساتھ چار یا پانچ اسٹیکرز پر مشتمل ایک پیکٹ ملتا تھا۔جتنی آئس کریم خریدتےاتنے ہی اسٹیکرز اکٹھے کر سکتے تھے۔ بعض اوقات ایسے اسٹیکرز نکل آتے تھے جو پہلے ہی البم کی زینت بن چکے ہوتے ۔تب بچوں کا آپس میں اسٹیکرز کا لین دین شروع ہو جاتا۔ جو بچےمقابلے کی آخری تاریخ سے پہلے سو اسٹیکر پورے کر لیتے تو ایک عدد سائیکل کے حقدار ٹھہرتے ۔ہم ننانوے اسٹیکرز لگا چکے تھے مگر سواں اسٹیکر باوجود انتہائی کوشش کے ہمیں دستیاب نہ ہو سکا اور ہماری البم ادھوری رہ گئی۔ وہ سواں اسٹیکرایک ڈائنوسار کا تھا۔

ڈائنوسار کروڑوں برس قبل کرہ زمین پر پائی جانے والی ایک مخلوق تھی۔ ہالی ووڈ کی دلچسپ فکشن پر مبنی کئی فلموں کی کہانیاں ڈائنوسار کے مرکزی کردار کے گرد گھومتی ہیں۔ ان فلموں میں ڈائنوسار ایک دیوہیکل اور وحشی مخلوق کے طور پر دکھائے جاتے ہیں جو صرف اور صرف تباہی و بربادی پھیلانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ کبھی کبھار وہ انسانی دنیا میں آنکلتے ہیں اور پھر انسانوں کی عقل کے ساتھ ان کا مقابلہ ہوتا ہے۔ ہر مرتبہ انسان اچھی خاصی تباہی کے بعد فاتح ٹھہرتے ہیں۔ بےچارے ڈائنوسار کے حصےمیں ہر مرتبہ شکست آتی ہے۔

ڈائنوسار کے کروڑوں برس کے بعد ہم نے کرہ ارض پر ڈائنوسار جیسی خصوصیات رکھنے والی ایک اور مخلوق کے بارے میں تحقیق کی جو کہ بقا کے نہایت خطرے سے دوچار ہے۔ اس مخلوق کو ہم نے ڈائنوسار سے چندخصوصیات میں مماثلت کی بنا پر ” ڈائنو شوہر ” کا نام دیا ہے۔ اس مخلوق کی معلوم تاریخ کے مطابق اس کا سلسلہ باوا آدم کے زمانے سے شروع ہو کر موجودہ زمانے تک پھیلا ہوا ہے۔ اس وقت سے لے کر اب تک یہ مخلوق اپنی بقاکو درپیش سنگین خطرات کے باوجود کسی نہ کسی طرح اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔

ڈائنو شوہر ہمیشہ جوڑے کی شکل میں پایا جاتا ہے۔ اسی سے ملتی جلتی ایک مخلوق جس کو کچھ مظلوم ڈائنوشوہر اپنی مظلومیت کی بنا پر ڈائن بھی کہ دیتے ہیں ہمیشہ ڈائنوشوہر کے ساتھ بلکہ آس پاس پائی جاتی ہے۔ اردو زبان میں اس مخلوق کو بیوی کہا جاتا ہے۔ ایک اچھا بھلا انسان جب اس مخلوق کے ساتھ جوڑا لگاتا ہے تو وہ انسان سے تبدیل ہو کر ڈائنوشوہر بن جاتا ہے۔ جوڑا لگانے کے اس عمل کو شادی کہتے ہیں۔ جب تک یہ شادی چلتی ہے ڈائنوشوہر قائم رہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں عموماً ڈائنوشوہر آخری سانسوں تک بیوی کے ساتھ رہتے ہیں۔فکشن فلموں کی طرح حقیقی دنیا میں بھی ڈائنوشوہروں کا بیویوں سے مقابلہ ہی رہتا ہے اور اچھی خاصی تباہی کے بعد شکست بےچارے ڈائنوشوہر کا ہی مقدرہوتی ہے۔

شادی کے بعد ڈائنوشوہر کو زیادہ تر گھاس پھونس پر ہی گذارا کرنا پڑتا ہے۔کبھی کبھار اسے گوشت بھی نصیب ہوتا ہے اور جب گوشت نصیب ہوتا ہے تو اس ڈائنوشوہر کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ ڈائنوسار کی اڑنے والی قسم کی طرح ڈائنوشوہر کی بھی اڑنے والی صلاحیت سامنے آئی ہے۔ اکثر ڈائنوشوہر یہ کہتے پائے گئے ہیں “اڑتا ہی پھروں ان ہواؤں میں کہیں” اس کے علاوہ کچھ ڈائنوشوہر ذہنی طور پر بھی ہوا میں اڑتے پائے گئے ہیں۔ تاہم اڑنے والوں ڈائنوشوہروں کی تعداد انتہائی قلیل ہے۔ البتہ رینگنے والے ڈائنوشوہر جابجا ملتے ہیں۔ خاص طور پر گھر داماد قسم کے ڈائنوشوہر چاروں ہاتھ پاؤں پر رینگتے ہوئے نوٹ کیے گئے ہیں۔

ڈائنوشوہروں کو کبھی انڈے دیتے نہیں نوٹ کیا گیا البتہ یہ دوسری مخلوقات کے انڈے شوق سے کھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ گھونسلے نما گھر بنا کر یہ اس میں اپنی مادہ یعنی بیوی اور دیگر مخلوقات کے ساتھ رہتے ہیں۔ ہزاروں سال قبل کےڈائنوشوہروں کی قامت بارہ فٹ تک بھی نوٹ کی گئی ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ گھس گھسا کر اب ان کی اوسط قامت چھ فٹ تک رہ گئی ہے۔ گاہے بگاہے آٹھ فٹ اور تین چار فٹ تک کے ڈائنوشوہربھی مل جاتے ہیں لیکن وہ ڈائنوشوہروں کی کل تعداد کا صفر اعشاریہ صفر صفر فیصد بھی نہیں ہوتے۔

آج کل کے زمانے میں ڈائنوشوہروں کو خواتین کی آزادی کی خواہش سے بقا کے سنگین خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ مغربی ممالک میں شادی کے بغیر رہنے کے کچھ کامیاب تجربوں کے بعد شادی کو فرسودہ سمجھا جانے لگا ہے جس کی وجہ سے ڈائنوشوہروں کی نسل تیزی سے معدوم ہوتی چلی جا رہی ہے اور اس کی جگہ “بوائے فرینڈوسار” اور “پارٹنروسار” لے رہے ہیں۔ یہ خطرہ ہر گذرتے دن کے ساتھ ہمارے ملک کے دروازے پر بھی دستک دے رہا ہے۔ تاہم پاکستان میں فی الوقت ڈائنوشوہروں کی بقا کو اتنے شدید خطرات لاحق نہیں ہیں جس قدر خطرات مغربی معاشروں میں سامنے آ چکے ہیں۔

اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ اس خطرے کا ہنگامی بنیادوں پر تدارک کر کے ڈائنوشوہر نام کی اس مخلوق کو بچانے کے اقدامات کیے جائیں۔ خواتین کو آزادی کے ساتھ ساتھ خاندان اور معاشرے کی اہمیت اور ضرورت کا احساس دلایا جائے ۔ ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جیسے ڈائنوسار کی نسل معدوم ہو چکی ہے اسی طرح مستقبل میں ڈائنوشوہر کی نسل بھی ختم ہو جائے۔

نوٹ: اس مضمون کو محترمہ تحریم عظیم صاحبہ کے تازہ مضمون “صنفی امتیاز، جنسی گھٹن اور ہمارا معاشرہ ” کا جواب بالکل نہ سمجھا جائے۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad