ایک ٹھرکی کی نیو ایئر نائٹ


“ابے سی ویو پر نیو ایئر نائٹ کی ٹائٹ پارٹی ہے۔ “

“فِٹ ہے۔ کیا پلان ہے؟”

” بچیاں ہوں گی۔ چِل ماریں گے ۔ سمجھ رہا ہےنا؟”

“اسپیشل ” والی پارٹی کریں گے۔”

“ہاں ہاں۔ اور سُن۔ میڈیکل اسٹور سے ہوتا ہوا آئیں ۔ دس بجے پہنچ جائیو مک ڈونلڈ پے۔”

اور فون بند ہو گیا۔

یہ میرے دوست کا فون تھا۔ اس سے دو ماہ پہلے فیس بک کے ایک گروپ میں دوستی ہوئی تھی۔ کھلا ڈلا بندہ تھا۔ باپ سرکاری ملازم تھا۔ اوپر کی کمائی کافی تھی اس لیے پیسے کی ریل پیل تھی۔ اس سے دو۔تین مرتبہ ملاقات ہوئی تھی۔ ہر بار اپنی نئی گرل فرینڈ کا ذکر کرتا تھا۔ اس کے حسن و شباب کے قصیدے ایسے پڑھتا کہ میرا بھی دل اس کی گرل فرینڈ سے ملنے کو مچلتا تھا۔ میری اپنی بھی ایک گرل فرینڈ تھی ۔ بہت پر کشش تھی مگر اب “پرانی” ہو گئی تھی۔ اس سے دل تھوڑا بھر گیا تھا اور مجھے نئی کی تلاش تھی۔ مگر آج رات کی اسپیشل پارٹی کے لیے تو پرانی والی بھی چل ہی جاتی۔

اوہو۔ میں اپنا تعارف کروانا تو بھول ہی گیا۔

میں ایک ٹھرکی ہوں۔ ٹھرکی سمجھتے ہیں نا آپ؟

میرا باپ ٹھیکے دار ہے اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں گھر بناتا ہے۔ ادھر بھی کھلا پیسہ ہے۔ اور جب پیسہ کھلا ہو تو وہ بلاوجہ اچھلتا رہتا ہے۔ اور جب پیسہ اچھلتا ہے تو پھر اخلاق، کردار اور ایمان بھی اچھلتا رہتا ہے۔ جب یہ سب کچھ اچھلنا شروع کر دے تو پھر حرام حلال کی تمیز اٹھ جاتی ہے۔ مجھ میں سے بھی اٹھ گئی تھی۔ حرام چیزیں مزہ دیتی تھیں اور حلال کاری کا میں قائل ہی نہیں تھا۔ اور وہ فارسی کی کہاوت تو آپ نے سنی ہی ہوگی کہ “کند ٹھرکی باہم ٹھرکی پرواز۔خباثت بہ خباثت باز بہ باز” تو میرے سنگی ساتھی بھی مجھ جیسے ہی تھے۔ یعنی ٹھرکی تھے۔

گھر میں ماں بھی تھی اور دو بہنیں بھی مگر وہ اللہ میاں کی گائیں تھیں۔ جب کبھی مجھے گھر میں جھانکنے کا موقع ملتا تو وہ ٹی وی کے سامنے ہوتیں یا پھر ٹیوشن گئی ہوئی ہوتیں۔ ابا کو اپنی ٹھیکے داری سے فرصت نہیں تھی۔ ٹھیکے داری میں بہت ٹھوک بجا کر کام کرنا پڑتا ہے اور ابا کو خوب اچھی طرح ٹھوکنا آتا تھا۔ پچھلے سال پولیس نے گھر پر چھاپا بھی مارا تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ ابا نے دو مزدوروں کو ٹھوک دیا تھا۔ پولیس والوں کو شیرٹن میں تین چار بار دعوت کھلائی تھی ابا نے اور پولیس نے عدم ثبوت کی بنیاد پر کیس دفتر داخل کر دیا تھا۔

ہاں تو آج نیو ایئر نائٹ کا پروگرام تھا۔ میں نو بجے اپنی گاڑی لے کر نکل آیا تھا۔ گلشن سے کلفٹن کافی دور ہے۔ ٹائم لگ جاتا ہے جاتے جاتے۔ آج تو رش بھی تھا۔ اور میں نے اپنی والی کو پی۔ای۔سی۔ایچ۔ایس سے لینا تھا۔ میں گاڑی تیز چلاتا ہوں۔ خوب کٹ شٹ مارتا ہوں۔ لگ وگ جائے تو رکتا نہیں ، بھگا لے جاتا ہوں۔ الحمد للہ آج تک پکڑا نہیں گیا۔ آج بھی دو گاڑیوں کو ٹچ کیا تھا مگر نیو ایئر نائٹ کی ترنگ تھی لہٰذا ان کو “وہ” والی انگلی دکھاتا ہوا نکل گیا۔ پی۔ ای۔ سی۔ ایچ۔ ایس میں اپنی والی کے گھر کے باہر والی گلی میں پہنچا تو پونے دس ہو گئے تھے۔ وہ گلی کے نکڑ پر برقع ڈالے کھڑی تھی۔ گاڑی رکتے ہی فوراً بیٹھ گئی اور میں نے گاڑی دوڑا دی۔

وہ “پرانی” سہی پر اس کے بیٹھتے ہی جسم میں گرم گرم لہریں دوڑنے لگی تھیں ۔ وہ بھی سرور میں تھی۔ سوا دس بجے سی ویو پہنچ ہی گئے۔ میرا دوست ابھی تک نہیں آیا تھا۔ سالا ہمیشہ لیٹ آنے کا شوقین تھا۔ میں اور میری والی میک ڈونلڈ کے ساتھ والے ساحل پر ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ٹہلتے رہے۔ دل تو اور بھی بہت کچھ کر رہا تھا مگر اس کے لیے بارہ بجے کے بعد والی تنہائی کا پروگرام تھا۔ وہ پرے والی چٹانوں کے پیچھے۔

سوا گیارہ بجے میرا دوست پہنچ گیا۔ وہ اکیلا تھا۔ میں نے اس سے اس کی گرل فرینڈ کا پوچھا تو کہنے لگا کہ وہ گھر والوں کو نیند کی دوا دے کر آئے گی تاکہ سکون سے نکل سکے۔ میں نے دل ہی دل میں اس کی گرل فرینڈ کی ہمت اور ذہانت کو داد دی۔

بارہ بجے تک کا وقت ہم نے باتیں کرتے گزارا۔ بارہ بجنے میں دو منٹ تھے جب میرا دوست ایک دم ایک لڑکی کی طرف بڑھا۔ میں اپنی والی میں گم تھا پھر بھی اس لڑکی کو دیکھنے کی کوشش کی مگر رش کی وجہ سے دیکھ نہ سکا۔

بارہ بجے تو ہیپی نیو ایئر کا شور شرابا اور ہاؤ ہو شروع ہو گئی۔ میں نے اپنی والی کی کمر میں ہاتھ ڈالا اور چٹانوں کی طرف چل پڑا۔ وہ ایک یادگار رات تھی۔ ایک بجے جب میں چٹان کے پیچھے سے نکلا تو دیکھا میرا دوست ساتھ والی چٹان کے پیچھے سے نکل رہا تھا۔ اس کی نئی والی گرل فرینڈ اس کی بانہوں میں تھی۔ میں نے اس کو دیکھا۔ بہت اچھی طرح دیکھا۔ اور اس نے بھی مجھے دیکھ لیا۔

رات تین بجے گھر واپس پہنچا تو ابا، امی اور ایک بہن گہری نیند میں تھے۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad