شریف گل آ رہا ہے، جا رہا ہے۔۔۔ مسکرا رہا ہے!


جمعرات کوبارش لگتی تو اعتقاد تھا کہ اب سورج اگلی جمعرات کوہی نظرآئےگا۔ معلوم نہیں یہ جھڑیاں کہاں روٹھ کر چلی گئیں۔ایک ہفتہ مسلسل سنائی دینے والی بارش کی ٹپ ٹپ آج بھی حافظے میں محفوظ ہے ۔ کچےگھر تھے چھت تیسرے دن ہی ٹپکنا شروع کر دیتی۔پانچویں دن یہ حالت ہوتی کہ کمروں اورپسار(برآمدے) میں ایک چارپائی  کے لیے محفوظ جگہ تلاش کرنی پڑتی۔ چولہے کے پاس کھانا کھا رہے ہوتے تو اچانک سرپر بوند ٹپکتی اور  نوالے کو بدستور چباتے چباتے ہی تھرک کر جگہ بدل لی جاتی۔ دوسرے یا تیسرے روز جب بارش کی رفتار کچھ دیر کے لیے مدہم پڑتی تو دادا کہتے چلو جوہڑ پر پانی دیکھ آئیں کہ جوہڑ کتنا بھر چکا ہے اور کتنا بھرنے سے رہ گیا ہے۔ یہ سرگرمی دلچسپ ہوتی تھی کیونکہ بچے  بارش کی وجہ سے ایک ہی جگہ قید ہو چکے ہوتے تھے۔ دادا راستے میں شکرادا کرتے جاتے، کھیتوں میں کھڑا پانی دیکھ کر بہت خوش ہوتے اور شکرادا کیے جاتے، ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ کیسے وہ آسمان سے برسنے والی ہر بوند کا شکریہ  وہ واپس آسمان کو  پوسٹ کریں۔ بارانی علاقے کے کسان کو اپنے ، اپنے بچوں اور جانوروں کے پیٹ نظر آرہے ہوتے تھے۔ بارش کی مقدارسے ان پیٹوں کے بھرنے کی ضمانت  کا تعین ہوتا ہے۔میں اس خوشی کو بیان کرنے سے قاصر ہوں جو  بارش کو دیکھ کر کسانوں کو ہوتی تھی۔ کڑی مشقت کرنے والوں کی چلم اور حقے کی گڑگڑاہٹ کے مابین وقفے کم ہو جاتے تھے اور قہقہوں کی مدت طوالت اختیار کر جاتی تھی۔

جوہڑ کو دیکھ کر دادا خوش ہو جاتے ۔کہیں پانی کے جوہڑ میں آنے سے کوئی رکاوٹ پیدا ہو رہی ہوتی تو اس کو درست کرتے۔ کچھ  پتھر از سر نو بٹھاتے۔واپسی پر عموما ہمیں کاندھوں پربٹھا لیتے۔ کہیں پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ کھیتوں میں ہل چلاتے ہوئے بھی ہمیں کاندھوں پرسوار کر لیتے تھے۔ ہم کاندھے پر سوار بلندی سے کھیتوں میں پڑتی لکیروں ، بیلوں کی گھنٹیاں اوردادا کی ٹٹکاری سنتے رہتے۔ کوئی شک نہیں کہ دادا نے زندگی سے میرا ابتدائی تعارف انتہائی بھرپور انداز میں کروایا۔

بارش برستی رہتی۔ صبح شام دن رات ایک جیسے ہو جاتے، صرف ہمارے لیے نہیں بلکہ جانوروں کے لیے بھی جواندرہی بندھے ہوتے۔ چارہ گیلا ہوتا تھا اس لیے وہ مسلسل بھوسے اور آٹے وغیرہ کو کھا کھا کر تنگ آ جاتے۔صبح ہوتی تو دادا نماز پڑھنے کے بعدبستر پربیٹھ جاتے اوررضائی کاندھے پراوڑھ لیتے۔میں بھی دادا کے ساتھ ہی اس رضائی میں بیٹھ جاتا۔آج یہ کسی کو بتانا مشکل ہے کہ ہم آپس میں بغیر کوئی بات کیے گھنٹوں  کیسے بیٹھے رہتے تھے اور یکسانیت کا شکار نہیں ہوتے تھے۔سامنے کھیتوں کودیکھتے رہتے۔افق تک نظر آتی بارش دیکھتے رہتے اور بیٹھے رہتے۔ آج شاید کوئی ایسی صورتحال پیدا ہو بھی جائے تو آپکو دادا پوتا اپنے اپنے موبائلوں میں مصروف ملیں گے۔لیکن اس وقت  خود اپنی ذات کے ساتھ بیٹھنے  کے لیے وقت ہی وقت تھا۔شاید یہ مسلسل بیٹھے رہنے اوردیکھتے رہنے کے کمالات ہیں جو مجھے آج بھی  دادا کے جسم کی خوشبو، ٹپکتی چھت کی ٹپ ٹپ، کسی بکرے کی میں میں ، سناٹا، درختوں سے اچانک اڑتے کسی پرندے کی پھڑپھڑاہٹ، مرغی کابچوں کے لیے بارش میں دانہ دنکا چگنے کی کوشش میں جانا اور پسپائی اختیار کرنا، بکروں کا آپس میں الجھنا اور ان کی شفیق ماں کا شکایت بھرے چہرے سے دیکھنا، بارش میں بیٹھے  کتے کاہرتھوڑی دیر بعد مضطرب ہو کر جسم کو تھر تھرانا اور اس کے جسم سے اڑتے پانی کے چھینٹے،  کتے کابارش سے اکتانااور دادااور میری چارپائی کے نیچے آکر بیٹھ جانا ، ہوا کا جھونکا آنے پرخوش درختوں کاکچھ لمحوں کے لیے سناٹے کو توڑنا ، جانوروں کا کچے فرش کو بار بار کھر سے رگڑنا وغیرہ سب یاد ہیں۔

مختلف موسموں کی بارش کی مختلف یادیں ہیں۔ مونگ پھلی کی فصل تلہ گنگ میں بہت بعد میں آئی۔ ا یسی بارشوں کے سلسلے میں پسار میں بیٹھے مونگ پھلی کے دانے پودوں سے الگ کرتے رہتے ۔ دو باتوں پرمجھے ڈانٹ پڑتی ۔ایک تو جب میں کوئی پودا مونگ پھلی الگ کرنے کے بعد پھینکتاتو دادا کی عقابی نظریں نشاندہی کرتیں کہ تم پودوں کے ساتھ دانے چھوڑ رہے ہو ۔دانے پتوں میں اوجھل ہو کر کئی دفعہ دکھائی نہیں دیتے تھے اوررہ جاتے تھے۔دوسری ڈانٹ دادی سے پڑتی کیونکہ پودوں کے ساتھ لگے کچے دانے کھانے کا شوق تھا۔ جب مونگ پھلی کا دانہ ابھی بچہ ہوتا ہے تو خول اور اس کے اندر بیج یکجان ہوتے ہیں۔ اگر آپ ان کو کھائیں تو ذائقے میں قدرے میٹھے اوررس بھرے سے لگتے ہیں۔ دادی کی ڈانٹ کیوجہ یہ تھی کہ ایسے دانوں سے گلا خراب ہو جاتا اورکھانسی لگ جاتی تھی۔

ہماری پڑدادی مونگ پھلی پروجیکٹ میں ہمارا حصہ نہ بنتیں ویسے تو وہ کسی کام کا بھی حصہ نہیں بنتیں تھیں لیکن مونگ پھلی سے ان کو خدا واسطے کا بیر تھا ۔ اس کوحرام کی پھلی کہتیں۔ اصل میں ان کی زندگی کے بہت آخری  مرحلے  میں یہ فصل گاؤں  میں آئی۔اس کی کاشت اوراسکواٹھانے کے طور طریقے جدا تھے پھر پہلی والی نسلوں کی ایک لگی بندھی تربیت تھی اچانک آنے والی مونگ پھلی نے ان کا موڈ خراب کر دیا تھا۔ مونگ پھلی باقی اناج کی فصلوں کے مقابلے میں زیادہ منافع بخش تھی لیکن پڑدادی کو اقتصادی معاملات سے بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ پڑدادی ایک پیدائشی آرٹسٹ تھیں۔ان کو گیت گانے ڈھول شہنائی گپ شپ تو اچھی لگتی تھی لیکن کام سے ان کا بیر تھا۔ دادا اوردادی دوسرے کسانوں کی طرح شدید مصروف رہتے اوران کو دیکھ دیکھ کر پڑدادی کڑھتی رہتیں۔ پڑدادای اپنی بیٹی پر زیادہ کڑھتی تھیں کہ ہر وقت کام میں جتی رہتی ہے۔ دادا پر پڑدادی کڑھتی نہیں بلکہ غصہ کرتی تھیں۔ دادا کو ہم نے کبھی ساس کے سامنے بولتے نہیں دیکھا ہاں کبھی کبھار چلتے پھرتے کوئی ہلکی پھلکی جگت مار جاتے تھے اور پھر پڑدادی سے بہت کچھ سنتے بھی تھے لیکن کبھی توتکار کی نوبت نہیں آئی۔

پڑدادی ایک خوبصورت کردار تھیں۔ جب فوت ہوئیں تو عمر 100 سے اوپرتھی۔ میں اس وقت آٹھویں میں پڑھتا تھا۔ پڑدادی نے طویل عمر پائی اور آخر تک ان کے اندر کا فنکار جیتا رہا۔ گاؤں میں خوش رہتی تھیں کہ سہیلیوں کے ساتھ گپ شپ رہتی لیکن پھر شاید بیٹی کی یاد میں ڈھوک پرآ جاتیں۔ ابھی دو ہفتے بھی نہ گزرے ہوتے کہ پھر شور مچا دیتیں ۔۔مجھے شہر (گاؤں) لے جاؤ، میں اس جنگل میں نہیں رہ سکتی۔ یہاں کہیں کوئی انسان نظر نہیں آتے بیٹی اور داماد مشینیں ہیں ان کے پاس بات کرنے کا وقت نہیں۔ صبح اٹھتی ہوں تو اچانک درختوں پر نظر پڑتی ہے۔ ہائے یہ مردود  درخت میری چھاتی میں لگتے ہیں ۔ ہائے میری آنکھوں میں سبزہ اتر آیا ہے۔ ہائے میرے خدایا جدھر دیکھو  یہ منحوس درخت ہی درخت کھڑے ہیں مجھے واپس شہر(گاؤں) چھوڑ آؤ۔

ایک دفعہ دادا چھت پر لگانے کے لیے مٹی تیار کر رہے تھے۔ مٹی کے ڈھیر میں پانی اور بھوسہ ملا کر اس میں چل رہے تھے کہ مٹی اوربھوسہ یکجان ہو جائیں ۔ اسی دوران ان کو ماں بنویعنی پڑدادی کا شورسنائی دیا۔ وہ مٹی میں لتھڑے پاؤں کے ساتھ پڑدادی کے پاس آئے اورکہا ۔۔چل بنو ابھی چل۔۔میں تمہیں چھوڑ کر آؤں۔ابھی چھوڑ کر آؤں پاؤں بھی نہیں دھوؤں گا پاؤں جا کر گاؤں والے جوہڑ میں دھوؤں گا لیکن تمہیں ابھی چھوڑ کر آتا ہوں۔۔تو ایسی دلچسپ تکرار چلتی رہتی۔ (گاؤں ڈھوک سے پانچ کلومیٹردور تھا)

پڑدادی جیسا کہ بتایا ہے فنکار تھیں ان کی تین ہی سرگرمیاں تھیں۔ ایک گانے گانا۔ اوردوسرا مٹی سے کھلونے بنانا اورتیسرا روح افزا پینا جسے وہ سرخ شربت کہتی تھیں۔ گانے گانے کے لیے انہیں کسی اور شاعر کے کلام کی ضرورت نہیں تھی کلام کی خالق خود ہی تھیں۔ تلہ گنگ اٹک کے دیہاتوں میں خواتین ماؤں کا شاعرانہ کلام زیادہ تر بیٹوں کے  فوجی نوکری سے چھٹی آنے یا چھٹی ختم ہونے کے حوالوں سے ہی ہوتا تھا تو دادی کی شاعری بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ میرے والد یعنی اپنے نواسے کو شریف گل (محمد شریف ملک) کہتی تھیں ۔ ان کی وجہ سے گاؤں میں پرانے لوگ آج بھی شریف گل کے نام سے ہی پکارتے ہیں۔ دادی کا بیشتر غیر مطبوعہ کلام ایسے ہی مصرعوں پر مشتمل تھا جیسے میرا شریف گل فلاں راستے سے چھٹی آ رہا ہے ۔۔۔اب چھٹی ختم ہو گئی میرا شریف گل فلاں راستے سے واپس جا رہا ہے ۔۔شریف گل مسکرا رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔

صبح اٹھتے ہی جہاں دنیا جہاں اپنے کاموں پر نکل پڑتا پڑدادی ڈھوک کے ساتھ ہی لاٹھی ٹیکتی  اپنی مخصوص جگہ پر پہنچ جاتیں۔ سب سے پہلے مٹی گوندھتیں۔ پھر مختلف کھلونے بناتیں جیسے جانور اور برتن وغیرہ۔ وہ دوپہر تک منہمک رہتیں ایسی منہمک کہ  دنیا و مافہیا سے بے خبر۔ ہم جاتے تو وہ کھلونے ہمیں دے دیتیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ وہ صرف بچوں کے لیے یہ شغل نہیں کرتیں تھیں شاید ڈھوک پر ایک بھی بچہ نہ ہوتا تو بھی ان کی کھلونا بنانے کی صنعتی پیداوار میں کوئی فرق نہیں آنا تھا۔ دوپہر کو واپس لوٹتیں اور اپنی چارپائی کے نیچے چھپائی سرخ بوتل یعنی روح افزا نکالتیں۔ روح افزا کی بوتل کو ہمیشہ چھپا کر رکھتیں گو کہ وہاں ان کے اس خزانے پر ڈاکہ ڈالنے والا کوئی نہیں تھالیکن اس کے باوجود وہ اس کو چھپا کر رکھتیں۔ اس عادت سے ہمیں ان کی روح افزا سے محبت اور ان کے  نزدیک  روح افزا کی قدروقیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔

پڑدادی کے کان نچلی لو سے اوپر تک چھدے ہوئے تھے یعنی کوئی سات آٹھ سوراخ تھے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس قدرزیور اور بناؤسنگھار کی شوقین رہی ہوں گی۔ ان کے تکیے کے نیچے ایک شیشہ آخری عمر تک ان کے ساتھ رہا۔نماز پڑھتی تھیں اور کہنے دیجئے کہ بس پڑھ ہی لیتی تھیں۔ نماز کے دوران بھی کئی ایسی سرگرمیاں جاری رکھتیں تھیں جن کی کوئی نیک مرد دیکھنے کی تاب نہیں رکھ سکتا، ایک دفعہ گیند گم گئی ۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ پڑدادی نے گیند سنبھال کر اپنے صندوق میں رکھ لی ہے۔ میں روتے روتے پسار میں داخل ہوا ۔۔میری گیند میری گیند میری گیند کی قوالی جیسے ہی نماز پڑھتی پڑدادی نے سنی  تو دوران نماز ہی چارپائی کے نیچے صندوق کھولا اس میں ٹٹول ٹٹول کر گیند تلاش کی ، گیند نکالی اور میری طرف اچھال دی۔۔۔لیکن ساتھ ہی نماز جاری رکھی!

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik