نیا سال اور کروڑوں پاکستانیوں کی سالگرہ


یکم جنوری کو پاکستان میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں پاکستانیوں کی سالگرہ ہے اور اس کی وجہ اسکولوں کے وہ ماسٹر اور محلوں کے وہ چوکیدار ہیں، جو اپنی مرضی سے بچوں کی تاریخ پیدائش لکھوا دیا کرتے تھے۔ اندراج کے وقت سب سے آسان کام یہ ہوتا تھا کہ یکم جنوری ڈال دو۔

ہمارے پرائمری سکول نمبر چار کے ہیڈ ماسٹر محمد اکرام ہر داخلے کے وقت بچے کی ماں سے پوچھتے کہ بچے کی تاریخ پیدائش کیا ہے، وہ بیچاری تین چار مرتبہ سوچتی، ’ماشٹر جی، جو دل کرے لکھ دیو‘۔ لیکن یہ کوئی چھ سال کا ہونے والا ہے۔ اسی طرح ماسٹر صاحب نے سینکڑوں لڑکوں کی وہی تاریخ پیدائش لکھی جو ان کے اپنے بیٹے کی تھی۔

ایک دن میں نے دیکھا کی امی جی کے شناختی کارڈ پر یکم جنوری 1946 کی تاریخ پیدائش لکھی ہوئی ہے۔ پھر دیکھا کی ابو جی کی بھی یہی لکھی ہوئی ہے حالانکہ ابو جی، امی سے کوئی دس برس بڑے تھے۔ پھر میں نے تایا جی اور نانا جی کا شناختی کارڈ دیکھا تو ان کی تاریخ پیدائش کا آغاز بھی یکم جنوری سے ہو رہا تھا۔

دس، پندرہ برس پہلے تک خاص طور پر دیہاتوں میں سالگرہ منانے یا تاریخ پیدائش یاد رکھنے کا کوئی کنسیپٹ ہی نہیں تھا۔ سالگرہ تو اب فیس بک کے آنے کے بعد لوگوں نے منانی شروع کی ہے۔ یا کم از کم مبارکباد لینے اور دینے کا آغاز اب ہوا ہے۔

میری اپنی اصل تاریخ پیدائش کا کسی کو نہیں پتا۔ ٹاؤن کمیٹی میں بھی اندراج ابھی سات سال پہلے میں نے خود کروایا تھا۔ جب بھی امی سے پوچھو کہ میں کب پیدا ہوا تھا تو وہ کہتی ہیں کہ ’’جب تم پیدا ہوئے تھے، تب سردیاں تھیں اور میں تمہیں دھوپ میں لے کر بیٹھا کرتی تھی۔ تم چالیس دن کے ہونے والے تھے، جب تمہاری پھوپو کےایک بیٹے کی شادی ہوئی تھی۔ ‘‘ اب کسی کو یہ ہی یاد نہیں ہے کہ اس وقت پھوپو کے کس بیٹے کی شادی ہوئی تھی اور جو شک ہے کہ جن کی شادی ہوئی تھی ان کا نکاح نامہ ہی کسی کے پاس نہیں ہے، اب بندہ کرے تو کیا کرے؟

ہمارے ایک انتہائی زندہ دل دوست علی اکبر اعوان ہیں اور اب یو کے میں ہوتے ہیں۔ ایک دن بازار میں انتہائی افسردہ چہرہ لیے گھوم رہے تھے، میں نے پوچھا تو کہنے لگا کہ کسی ’ملنگ ماسٹر‘ نے ان کی تاریخ پیدائش 30 فروری درج کی ہوئی ہے اور اس بات کا اُسے اندازہ سب کو اس وقت ہوا، جب اس نے برطانوی ویزے کے لیے اپلائی کیا۔ ویزہ سیکشن والوں نے کہا کہ بھائی تیس فروری کا تو کوئی دن ہی نہیں ہوتا، تم کیسے اس دن پیدا ہو گئے؟ اور اس وقت تک علی اکبر لاہور سے اپنا بیچلر کر چکا تھا، کسی ایک ’جینئس‘ کو بھی اس کا اندازہ نہیں ہوا۔ بیچارے کو اپنی ساری کی ساری ڈگریاں تبدیل کروانا پڑیں۔

تو جناب تمام یکم جنوری والوں کو سالگرہ مبارک ہو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).