مختلف زبانیں سیکھنا کارآمد ہوتا ہے


میں صرف 11 سال کی تھی جب میں نے اسکول میں ترکی زبان سیکھنی شروع کی، اور اس کو صرف مڈل اسکول میں تین سال پڑھنے کے باوجود اس میں میں نے ایک مقامی اسپیکر جتنی گرفت پا لی تھی۔ اس بات کا منہ بولتا ثبوت یہ تھا کہ میں نے ٹرکش اولیمپیاڈز کے پاکستان میں ہونے والے فائنلز تک کوالیفائی کیا جہاں ملک بھر سے سینکڑوں کی تعداد میں ایک سے بڑھ کر ایک قابل بچہ ”پاکستان برینجیسی“، یعنی پاکستان میں اول، کا خطاب حاصلِ کرنے کے لیے جی جان سے لگا ہوا تھا۔ اس مقابلے میں حصہ لے کے میں نے اپنے آپ کو اس محبت کی زبان کو روانی سے بولنے کی صلاحیت رکھنے کے قابل سمجھا۔ ترک اپنی زبان کو محبت کی زبان قرار دیتے ہیں۔

میرے ترکی زبان کے اساتذہ نے ہمیشہ ہمیں بہت نرم طریقے اور سرگرمیوں کے ذریعے زبان سکھانے کی کوشش کی تھی جو اس زبان کو اتنے مختصر وقت میں سیکھنے کی سب سے اہم وجہ ہے۔ میری چھٹی جماعت میں میری استانی اس وقت حال ہی میں ترکی سے آئی تھی تو اور اردو تو دور کی بات، وہ انگریزی تک سے انجان تھی۔ اس سے گفتگو کرنا شاریڈز کے کھیل سے کم نہیں تھا۔ ہم، اس کے طالب علم، ہاتھ میں لغت تھامے اس کو اداکاری کے ذریعے بات سمجھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہوتے، یہ نہ جانتے ہوئے کہ اپنی بات اس تک پہنچانے میں کامیاب ہوں گے بھی کے نہیں۔

دوسری طرف ہماری استانی بھی ہم جتنی ہی بوکھلائی ہوئی ہوتی اور اتنے ہی غور سے بات سمجھنے کی جستجو کر رہی ہوتی جتنی ہم سمجھانے کی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ آغاز میں کچھ غلط فہمیاں ضرور ہوئی تھیں، لیکن آخر میں بات ہمیشہ سمجھانے میں ہم کامیاب بھی ہوجاتے تھے، جو کہ ہمیشہ ہی بے حد خوشی کا باعث بنتا۔ اسی طرح آہستہ آہستہ الفاظ اور ان الفاظ کے ساتھ موجود صورتحال ہمارے ذہنوں میں برقرار رہنے لگ گئیں۔

محنت کرکے سیکھنے سے اندازہ ہوا کہ محنت کا پھل یقیناً میٹھا ہوتا ہے۔ ہماری استانی ہمارے ساتھ بہت مخلص تھیں۔ جتنی ہم علم حاصل کرنے کی خواہش رکھتے تھے، اتنی ہی وہ بھی علم دینے کی خواہش مند تھیں۔ ان کو اپنی زبان اور سے بہت پیار تھا اور اپنی زبان دوسروں کو سکھا نے کا اتنا ہیں شوق۔ ہر چیز پر اس کے ترکی میں لکھے نام کی پرچی لگانے سے لے کر ترکی فلموں اورگانوں تک، وہ ہمارے لیے ان گنت سرگرمیوں کا انتظام کرتی رہتی جس سے ہم لطف اندوز کرنے کے ساتھ ساتھ نئی نئی چیزیں بھی سیکھتے رہتے۔ میری استانی کاسب سے پسندیدہ کام ہمیں کتابیں پڑھانا تھا۔ ہم نے ان کتابوں سے ابتداء کی جو ترکی میں عموماً سات آٹھ سالہ بچے پڑھتے۔ ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ ہوتا جب ہم ان کتابوں میں لکھی ہوی کہانیاں سمجھتے اور بعد میں اسی طرح بیان کر سکتے۔ اس ہی طرح ہم جلد ہی قدرے مشکل تحریریں پڑھنے اور سمجھنے کے قابل ہو گئے تھے۔

یوں ہی بعض اوقات ہم لوگ خود کچھ مختلف حالات بناتے اور انپے عمل کرکے دکھاتے۔ ایک دفعہ فلم دیکھنے سے پہلے ہماری استانی نے ہماری جماعت کو فلم تھیٹر کا روپ دے کے تھیٹر کا منظر تخلیق کیا۔ اس میں اس نے ہمیں مختلف عملے کے کردار ادا کرنے کے لئے کہا۔ کسی کو ٹکٹ بیچنے والا بنایا گیا تو کسی کو کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنے والا بننے کا کہا گیا، جبکہ باقی سب فلم کے ناظرین کی حیثیت سے وہاں موجود تھے۔ اس کے بعد اس نے ہمیں ایک دوسرے سے فلم شروع ہونے تک ترکی میں بات چیت کرنے کی تاکید کی۔ اس طرح ہم دوستوں نے پورا تھیٹر کا منظر بنا کر سارا کچھ اسی طرح کیا جس طرح ایک اصل تھیٹر میں ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ اس نئے ماحول کے مطابق ترکی کی پریکٹس بھی ہو ‏گئی۔ اسی طرح اکثر اوقات وہ ہمیں خود سے کچھ کرنے کا کہ دیتی۔

میرا پسندیدہ ترین موقعہ تب تھا جب ہم نے اپنے اساتذہ کی طرح ملبوسات پہن کر مزاحیہ ترین انداز میں ان کی نقل اتارنے کی کوشش کی تھی اور بعد میں انہیں اساتذہ کو پیش کرکے دکھایا تھا۔ یہ مزاح ہونے کے علاوہ بھی ہمارے لئے بے حد فائدہ مند ثابت ہوا کیونکہ اس سے ہمیں ان لوگوں کا غور سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا جن کا کردار ہم ادا کر رہے تھے جس کے باعث ہم نے سیکھا کے لوگ کیسے گفتگو کرتے تھے، کس قسم کے الفاظ استعمال کرنے کو ترجیح دیتے، اور کون سے خاص جملے پسند کرتے۔ یوں مقابلوں اور انعامات کے چکر میں ہم یہ زبان سیکھ گئے، نہ جانتے ہوئے کہ یہ سب کھیل و تفریح دراصل کھیل و تفریح سے زیادہ اہمیت کے حامل تھے۔

آٹھویں جماعت میں میں اپنے اسکول کے ہمراہ لنگویج ایمرژن کیمپ کے لئے ترکی کے دورے پر گئی اور جو کچھ میں نے اب تک سیکھا تھا اس کو حقیقی دنیا میں استعمال کرنے کا سنہری موقع حاصل کیا۔ مجھے اب بھی یاد ہے کی کئی لوگ یہ جان کر دنگ رہ گئے تھے کے میں ترک لڑکی نہیں بلکہ دراصل پاکستانی لڑکی ہوں۔ ترکوں کی زبان جاننے کی وجہ سے انہوں نے مجھے بے انتہا پیار محبت اور عزتی دی جس کو الفاظ میں بیان کرکے میں کبھی انصاف نہیں کر سکتی۔ ان میں سے کئی لوگوں نے ہمیں صرف ہمارے ان کی زبان اور ثقافت کہ بارے میں اتنے پرجوش ہونے کی وجہ سے اپنی حیثیت سے بڑھ کر مجھے اور میرے ساتھیوں کو اکاموڈیٹ کیا۔ پورا ملک اور اس کے ساتھ آنے والے ان گنت مواقع ہمارے لئے کھلے تھے۔

ترکی ایک ایسا ملک ہے جہاں اکثریت صرف ترکی زبان ہی بول سکتی ہے اور کچھ گنے چنے لوگوں کو ہی انگریزی آتی ہے۔ اس طرح کہ ملک میں جا کے زبان ‏ نہ آنے کی رکاوٹ مجھے پیش نہ آئی، بلکہ میں ہر کسی سے بات چیت کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ ایک بھی دفعہ انگریزی میں بات کیے بغیر دکانداروں سے سستی چیز کے لئے بھاؤ تاؤ کروانے سے لے کر کسی تاریخی مقام کی اہمیت معلوم کرنے تک، میرے لئے سب کچھ ممکن تھا۔

اس سارے وقت کے دوران مجھے کبھی احساس نہیں ہوا تھا کے کسی دوسری زبان سے واقف ہونا کتنی بڑی نعمت ہے۔ کافی عرصے بعد میری جب میری ایک ترک دوست سے ملاقات ہوئی اور میں نے ترکی میں بات کرنے کی کوشش کے تو مجھے بہت بڑا دھچکا لگا جب میں ترکی میں ایک سادہ ترین جملہ نا ادا کرسکی! مجھے احساس نہیں تھا کی نوبت یہاں تک آ پہنچی تھی۔ ہائی سکول میں او اور اے لیول کی فکر اور ایک نوجوان کو ہونے والی ”بے حد ضروری مصروفیات“ کی وجہ سے میں ترکی کی کلاسز نہ لے سکی تھی اور ‏نہ ہیں میرا ترکی سے واقف دوستوں میں اٹھنا بیٹھنا رہا تھا۔ اسی وجہ سے جس طرح میں نے اسے سیکھا تھا اس ہی طرح بھولتی چلی گئی تھی۔ یہ میرے لیے ناقابل یقین تھا کہ میں ایسا کچھ بھول گئی ہوں جس کو میں نے اتنے پیار اور لگاؤ کے ساتھ سیکھا تھا۔ ترکی زبان اور اس کے ساتھ آنے والی پوری دنیا میرے وجود کا ایک بہت ہی اہم حصہ تھی۔ مختلف زبانیں جاننا ایک بہت بڑا تحفہ ہے جس کے ساتھ صرف انسان ایک زبان کا لہجہ نہیں سیکھتا بلکہ اس زبان سے جڑی ثقافت اور اس زبان کے بولنے والوں کے طور طریقے بھی سیکھتا ہے۔

مجھے اس بات کا احساس ترکی زبان کو بھول کر دوبارہ سیکھنے سے آیا کہ میرے کردار کی بناوٹ میں اس کا کتنا بڑا ہاتھ تھا اور یہ میرے لیے کتنی اہم ہے اور اس سے دور جانے کا مطلب اپنے کردار کے بہت بڑے حصے سے دور جانا ہے۔

میں جب انڈر گریجویٹ کے لیے امریکہ آئی تو اپنے آپ کو بہت اکیلا محسوس کیا۔ ایک نئی جگہ، انجان لوگ، اور میرے قریبی لوگ اور دوست سب پاکستان میں۔ لیکن یہاں جو میرے ترک دوست بنے ان سب نے مجھے بالکل اپنوں کی طرح ہی قبول کیا۔ میں سات سمندر پار تھی لیکن یہاں ہونے والی میری ”ٹرکش فیملی“ نے مجھے اس بات کا احساس نہیں ہونے دیا۔ ان لوگوں نے مجھے صرف اس لیے اپنایا کے میں ان کے کلچر سے واقف تھی اور ان کو سمجھتی تھی، جو ان کی زبان سے واقف ہونے کا نتیجہ تھا۔

میری ایک ترک سہیلی نے ایک دفعہ میرے سے اپنی محبت و خلوص کا اظہار کرتے ہوئے مجھے اپنا پاکستانی ورژن کہا تھا، اور اس کی مجھے بہت خوشی اور فخر ہے کہ اس نے مجھے اس قابل سمجھا۔ اس سے یقیناً ثابت ہوتا ہے کہ ایک زبان کے ساتھ اس کا پورا کلچر بھی آتا ہے۔ ترکی میں ایک مشہور کہاوت ہے کہ انسان کو جتنی مختلف زبانیں آتی ہیں اس کے اتنے ہی مختلف روپ اور کردار ہوتے ہیں۔ کم ازکم میں اس بات میں سچائی کی گواہی سکتی ہوں اور اس کے ساتھ آنے والی اپنائیت کی بھی جو مجھے اس انجان جگہ میں ملی۔ ایک مختلف زبان کا آنا میرے لیے ایک نہایت کارآمد ہنر سے کم نہیں ہے، اور میں دنیا میں جہاں مرضی جاؤں، یہ میرے لیے فائدہ مند ہی ثابت ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).