داعش کے غبارے میں ہوا بھرنے والے


جس عیاری سے امریکا بہادرنے خطے میں دہشت گردی کا بیج بویا تھا، اسی عیاری کے ساتھ اس کو آب پہنچانے کا عمل اب بھی جاری ہے۔ جب تک اپنے وسیع تر مفادات میں اسے مکمل کامیابی حاصل نہ ہوجائے، امریکا کی طرف سے اس بیج کی آبیاری ہوتی رہے گی۔ اپنے مالی وسائل کو اس جنگ میں جھونک کر امریکا نے پھر بھی اپنے اس شیطانی کھیل کے ذریعے، اپنے اہداف حاصل کیے اور کررہے ہیں؛ ماتم تو اسلامی ملکوں کے اُن حکمرانوں اور ان کے پراکسیز کی عقل پر کیا جاسکتا ہے، جنھوں نے بدلے میں نہ صرف اپنے لوگوں کی لاشوں کے تحفے وصول کیے، بلکہ اپنے مذہب کا چہرہ مسخ کرکے رُسوائی کے سوا کچھ حاصل نہیں کیا۔

سوویت یونین کی انہدام کے بعد، ایک بڑا فاتح کی صورت میں جہاں امریکا کا مورال بہت بلند ہوگیا تھا، وہاں اس کومستقبل میں اس قسم کی جنگ جاری رکھنے سے بے شمار اہداف حاصل کرنے کا یقین بھی ہوچکا تھا۔ امریکا سمجھتا تھا کہ روس جیسی طاقت کو سبق سکھا کر، وہ اس ناپرساں خطے کے مالکان کو مزید بے وقوف بناکر مستقبل میں بھی بہت کچھ حاصل کرسکتا ہے۔

اڑتیس سال قبل جنرل ضیا الحق کے دور میں شروع ہونے والی، اس جنگ کے شعلوں نے اس وقت پوری مسلم دُنیا کو کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ جن مجاہدین کو سرخ افواج کے خلاف میدان میں لاکر نان نفقہ مہیا کیا گیا تھا، آج اس کی کوکھ سے ان گنت جنگ جو تنظیموں نے جنم لیا ہے۔ طالبان اور ٹی ٹی پی سے لے کر القائدہ اور پھر داعش جیسی تنظیم اس خونی کھیل کے وہ کردار ہیں، جسے استعمال میں بھی لایا گیا اور بعد میں اسے ہٹانے کا فریضہ بھی وہی امریکا انجام دیتا رہے گا۔

پچھلے چند برسوں سے اس کھیل میں ایک اہم کردار داعش ادا کررہی ہے، جس کا نیٹ القائدہ سے بھی وسیع اور بین الاقوامی ہوچکا ہے۔ عراق اور شام کے بعد اس کا رُخ پہلے سے تباہ حال افغانستان کی طرف موڑ دیا گیا، جو اس وقت وہاں پر دن دُگنی رات چوگنی ترقی کررہی ہے۔

رواں سال اپریل کے مہینے میں امریکی ملٹری نے یہ دعویٰ کیاتھا کہ افغان خطے میں اس وقت صرف سات سو داعش کے جنگ جو باقی رہ گئے ہیں۔ جس کومنطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ تین ماہ بعد جولائی کے مہینے میں تو گویا امریکا نے سیکنڈوں میں اس کوختم کرنے کا تہیہ کیا، کہ ننگرہار میں ’’تمام بموں کی ماں‘‘ MOAB)) نام کا نان نیوکلیئر بم گرا کر اس کے زیر زمیں پناہ گاہوں کوختم کرنے اور اس کے قریب جنگ جو مارنے کا دعویٰ کرلیا تھا۔ پھر جون میں امریکی ملٹری کی طرف سے یہ دعویٰ بھی سامنے آیا کہ اس نے خراسان (افغانستان) میں داعش کے سربراہ ابو سعید کو بھی ایک آپریشن کے دوران ماردیا ہے۔

پینٹاگون کے ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا، کہ ”ان کی فوجی عملیات کی برکت سے افغان سرزمیں سے اس تنظیم کا جلد خاتمہ ہوگا، جو اس وقت وہاں پر مستقل پناہ گاہیں بنارہی ہے‘‘۔

اس پر مستزاد یہ کہ امریکی ایئرفورس سنٹرل کمانڈ کے مطابق رواں سال صرف اکتوبر کے مہینے میں داعش اور دوسری شدت پسند تنظیموں کے ٹھکانوں پر چھہ سوتریپن بم گرائے گئے، جو تعداد میں گزشتہ سال کے اکتوبر میں گرائے جانے والی بموں سے دُگنا ہیں۔ داعش کے ٹھکانوں پرتمام بموں کی ماں گرانے، صرف اکتوبر کے مہینے میں چھہ سو سے زیادہ بم گرانے کے بلند بانگ دعووں کے بعد از قیاس کا تقاضا تو یہ تھا، کہ اب اس خون خوار تنظیم کا مکمل طور پر صفایا ہوتا، لیکن احوال یہ ہے کہ اس کی کارروائیوں میں ماضی سے کہیں زیادہ تیزی آئی ہے۔

افغانستان میں پچھلے سال سے اب تک ہونے والے داعش کی کارروائیوں کی ایک لمبی فہرست میرے سامنے موجودہے، جس میں صرف رواں سال کے دسمبر میں ساٹھ سے زیادہ افراد اس کے حملوں میں مارے گئے ہیں۔

نام نہاد امن کے لیے وہاں پر متعین نیٹو کمانڈر جنرل جون نکولسن نے بھی کیا مضحکہ خیز بات کہی ہے، کہ ’’افغانستان میں داعش نام کی تنظیم ایک غبارے کی شکل اختیار کرچکی ہے، ہم اس کا ہوا نکالنے کے لیے اس کا پیچھا کررہے ہیں، لیکن یہ دفعتاً کہیں اور دوسرے علاقے میں منتقل ہوجاتی ہے‘‘۔

اشرف غنی حکومت اب بھی یہ آس لگائے بیٹھی ہے کہ سرزمیں افغانستان کے لیے امن کا پیام بر اگر ہے تو امریکا اور اس کے اتحادی افواج ہی ہے۔ اس وقت ہوش کے ناخن لیے ہیں تووہ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی صاحب ہیں جو آج کل امریکا کو تمام خبائث کی جڑ سمجھتے ہیں۔ دس برس سے زیادہ عرصہ افغانستان کے صدر رہ کر حامد کرزئی پر ناصرف امریکی دوغلی پالیسیاں منکشف ہوگئی ہیں، بلکہ وہاں اس کی افواج کی مسلسل انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے بھی خوب آشنا ہوگئے ہیں۔ انھیں اپنی صدارت کے مہ و سال کے دوران یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ اس بدمست ہاتھی کی منہ میں دو قسم کے دانت ہیں۔ وہ اس ہاتھی کے دکھانے والے دانتوں کی بجائے اس کے کھانے والے دانتوں کو سمجھ چکے ہیں۔ اسی لیے تو وہ ہر دوہفتے بعد امریکا بہادر کی منافقانہ پالیسیوں کو خوب تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔

داعش کو ٹھکانے لگانے کے بہانے امریکا کی جانب سے ’’تمام بموں کی ماں‘‘ بم گرانے کے وقت تو وہ اتنے سیخ پا ہوگئے تھے، کہ اس عمل کی اجازت دینے پر صدراشرف غنی کو بھی کھلے الفاظ میں غدار ٹھہرایا۔ داعش کی افغانستان میں بڑھتے ہوئے کارروائیوں کے دوران کرزئی صاحب نے یہ دعویٰ بھی کیا اور شاید بجا کیا ہے کہ اس تنظیم کے جنگجووں کو ان کے ملک کے اندر امریکی فوجی ہیلی کاپٹر اسلحہ پہنچا رہے ہیں اور اس کے فوجی اڈے سہولت کاروں کا کردار اداکررہے ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جس ننگرہار میں داعش کے اوپر اتنا طاقتور بم گرایا جاتا ہے، وہاں پر اگلے دن اسی تنظیم کے جنگجو کیوں کر ایک پورے ضلع پر قبضہ کرنے کے اہل بن جاتے ہیں‘‘؟

بین الاقوامی سطح پر اپنا نیٹ ورک بچھانے والی یہ تنظیم نہ صرف بوکو حرام، الشباب، اسلامی فرنٹ آف ازبکستان، جماۃ الاحرار اور ٹی ٹی پی جیسی تنظیموں کے جنونیوں کے لئے پرکشش بن گئی ہے، بلکہ انٹرنیٹ پراس کے جذباتی تشہیر لڑکیوں اور خواتین کی ایک بڑی تعداد کو بھی اس کے صفوں میں شامل کروا رہی ہے۔

دیرالزور جنگ زدہ ملک شام کا، وہ آخری علاقہ تھا، جہاں پر برسوں سے لڑنے والے داعشی جنگ جو اکتوبر کے مہینے میں شکست کھاگئے ہیں؛ یوں شام کے بعد اس کا اگلا ہدف وسطی ایشیا اور افغانستان کے علاقے بن گئے ہیں، جہاں خاص طور پر جنوب مشرقی صوبے ننگرہار کے کئی علاقوں میں پہلے ہی سے اپنا اثر و رُسوخ بڑھاچکے ہیں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ اپنا قدم جمانے کے لیے داعش کو اس وقت ایک انارکی والا افغانستان بہت ضروری ہے، جہاں افغان حکومت اور طالبان کی ایک دوسرے سے مسلسل نبرد آزمائی اس کو سنہری مواقع فراہم کررہی ہے۔ سو! اس عالمی انتہا پسند تنظیم کے فساد سے افپاک (Af۔ Pak) خطے کو صرف اس صورت میں بچایا جاسکتا ہے کہ اولاً پاکستانی حکومت کی باہمی تعاون سے غنی حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کو یقینی بنایا جاسکے۔ ثانیاً اس تنظیم کی تخریبی کارروائیوں سے نپٹنے کے لیے امریکا پر انحصار اور اس سے ڈکٹیشن لینے سے مکمل طور پر گریز کیا جاسکے۔ وگرنہ خاکم بدہن پہلے سے متاثر اس خطے کے معصوم لوگوں کو ایک نئے عذاب کا سامنا ہوگا۔

اس وقت بھی پاکستان کے قبائلی علاقے اور بلوچستان میں داعش کے اثرات پہنچے ہوئے ہیں، یوں افغانستان میں مستقل پناہ گاہیں بنانے کی صورت میں اس کو اپنا دائرہ کار یہاں تک بڑھانے میں کوئی امر مانع نہیں ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).