اعتراف کون کرے گا؟


اچھا ہی ہوا بلکہ بہت ہی اچھا ہوا، آرمی چیف کی اپنے رفقا کے ہم راہ پارلیمنٹ ہاؤس کے ایوان بالا پہنچ کر ملک کی موجودہ سکیورٹی صورت حال اور درپیش خطرات کے پیش نظر ارکان کو بریفنگ دی، تلخ و شیریں سوالات کے جوابات دیے اور یہ بھی فرمایا، کہ آرمی کی جانب سے جمہوریت کی بساط لپیٹنے کا کوئی ارادہ نہیں؛ وہ جمورہیت کے تسلسل میں یقین کامل رکھتے ہیں۔ فیض آباد دھرنے سے افواج کا تعلق ثابت ہوا تو وہ استعفےٰ دے دیں گے۔ وغیرہ۔

کہا جا رہا ہے کہ آرمی چیف کی جانب سے پارلیمنٹ کو مقدم تسلیم کرکے یوں سر تسلیم خم کرنا طویل آمریتوں اور بے شمار سازشوں پر مبنی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جمہوریت کی جانب ایک بہترین پیش رفت ہے؛ ایک تازہ ہوا کے جھونکے کے مترادف ہے؛ کچھ تجزیہ کار آرمی چیف کے اس اقدام کو ان تمام قیاس آرائیوں کے خاتمے سے بھی تشبیہہ دے رہے ہیں، جس کا اظہار نااہلی کا فیصلہ آنے کے بعد میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کی جانب سے ببانگ دہل کیا جارہا ہے، کہ ملک میں جمہوریت پہ شب خون مارنے والے ایک بار پھر سے اپنے کام میں لگ گئے ہیں۔

پاک آرمی کے سپہ سالار کی جانب سے اٹھایا گیا اقدام، بے شک و شبہ قابل تحسین تو ہے، پر ایک بات ہر وقت میرے ادنیٰ سے ذہن میں گردش کرتی رہتی ہے کہ آخر مملکت خداداد کو اس نہج پہ لانے کے ذمہ دار کون سے عناصر ہیں اور ستر سال کی بدترین ناکامیوں اور بے شمار سازشوں کا اعتراف کرنے سے پس و پیش سے کام کیوں لیا جاتا ہے؟ ہر دن، ہر ہفتے، ہر مہینے اور ہر سال پاکستان کے حالات نازک ہی کیوں بتائے جاتے ہیں؟

ملک کی موجودہ صورت احوال میں جب آرمی بھی پارلیمنٹ کے سامنے پیش ہونے سے انکار نہیں کررہی تو کیوں نہ اس موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام فریقین مل بیٹھ کر ماضی میں کی گئی اپنی ان تمام غلطیوں اور سازشوں کا اعتراف کریں اور ستر سال کے دوراں ملک و ملت کے ساتھ کی گئی ان سب ستم ظریفیوں جو کہ سیاست دان، ججوں اور جرنیلوں کی جانب سے اب تک کی گئی ہیں، کو تہہ دل سے تسلیم کرکے قوم کو ان تمام حقائق سے آگاہ کیا جائے، جو تقسیم در تقسیم کا سبب بنیں؛ قوم کو آج تک یہ بتانے سے کیوں گریز کیا گیا ہے کہ 1949ء میں قرارداد مقاصد کس اصول کے تحت منظور کرائی گئی، جو کہ ملک میں نظریہ ضرورت کا بنیاد بنی اور خانہ خراب کردیا۔

قوم کو آج تک ہر چھوٹی بڑی پیش رفت کی پس پردہ حقیقت سے اندھیرے میں کیوں رکھا گیا؟ کیا کبھی اس بات کا اعتراف کیا جائے گا کہ 1951ء سے 1958ء تک وزارت عظمیٰ کے عہدے کے حصول کے لیے میوزیکل چیئر گیم کن نادیدہ قوتوں نے شروع کرائی تھی اور سیاست دان کیوں مہروں کے مانند با آسانی استعمال بھی ہوتے رہے اور پھر نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ صدر مملکت اسکندر مرزا کو ایک آمر ایوب خان نے گن پوائنٹ پر ایوان صدر سے چلتا کیا اور مارشل لا نافذ کرکے گیارہ سال کے طویل عرصے تک سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے اور جمہوریت کا پودا پروان چڑھنے سے پہلے ہی سوکھ سا گیا، جب کہ ایوب خان صاحب نے جاتے جاتے بھی اقتدار کا ہما اپنی ہی برادری کے یحییٰ خان کو سونپ کر نکلے تھے؟!

کیا اس بات کا کوئی اعتراف کرے گا کہ پاکستان بننے کے بعد 1948ء میں اردو کے ساتھ بنگالی بھاشا کو قومی زباں کا درجہ دینے سے صاف انکار کرکے بنگالیوں میں نفرت کا بیج بویا گیا، جس کا نتیجہ 1971ء میں سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور بقول منجھے ہوئے صحافی جناب وسعت اللہ خان کے، کہ انسانی تاریخ میں پہلی بار ایک اکثریت، اقلیت کی نا انصافیوں سے تنگ آکر ہمیشہ کے لیے الگ ہوگئی۔

کیا کسی ادارے، سیاسی، مذہبی و دیگر حلقوں کی جانب سے کبھی یہ اعتراف سامنے آئے گا کہ 1970ء کے عام انتخابات میں شیخ مجیب الرحمان کی جماعت عوامی لیگ کو عوام کے جانب سے دیا گیا واضح مینڈیٹ تسلیم نہ کرکے سقوط ڈھاکا کی راہ ہموار کی گئی، چلیں جی فال آف ڈھاکا کو چار دہائیوں سے زائد کا عرصہ بیت چکا پر کیا 16 دسمبر 1971ء کے بعد ایک لمحے کے لیے بھی کسی نے اس بات پہ غور کیا، کہ اب چھوٹے صوبوں کے مطالبات تسلیم کرکے 1940ء کی قرارداد میں کیے گئے وعدوں کے مطابق تمام حقوق ہی دے دیے جائیں۔ جی نہیں! اس بات پہ کیوں کر سوچا جائے گا، یہ تو حرام سی چیز ہے ناں۔

اس ملک میں، آرمی چیف کا پارلیمنٹ میں جانا اچھی بات ہے پر مجھے آج بھی کہیں ان غلطیوں کا اعتراف نظر نہیں آتا جو افغان جہاد پالیسی کی بنیاد پر سرزد ہوگئی ہیں۔

معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس ملک میں عدلیہ کا مجموعی کردار بھی آئیڈیل نہیں رہا، جس کا ثبوت اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے تمام آمروں کو آئینی راستہ فراہم کرنا ہے؛ یہاں تک کہ ایک ماڈل ڈکٹیٹر کے دور میں ہماری عدلیہ ایک مہرہ بنی رہی اور منصف، ایک منتخب وزیراعظم کو تختہ دار تک پنہچانے جیسا فیصلہ کرنے سے بھی زرہ بھر نہ جھجکے، نہ شرمائے۔ عدلیہ بحیثیت ایک اہم ترین ریاستی ادارہ بھٹو کے عدالتی قتل کے اعتراف اور معذرت کرنے سے آج تک کیوں گریز پا رہی ہے؟ کیوں نہیں کیا جاتا یہ اعتراف کہ تمام فوجی بغاوتوں کو ہمیشہ عدلیہ ہی نے کندھا فراہم کیا ہے اور اس ملک کے ابن الوقت سیاست دان ان کی تو کیا ہی شان دار سی تاریخ ہے؛ محض آپس کے سیاسی اختلافات کے باعث ہمیشہ فوج کو مداخلت کی دعوت دیتے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔

اس بات کا اعتراف کون کرے گا کہ ملک و قوم کے موجودہ حالات 1977ء سے لے کر 1988ء تک غیر آئینی طور پر اقتدار میں بیٹھے رہنے والے ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق کی ان پالیسیوں کا نتیجہ ہے، جن کے سبب معاشرے کے اندر تشدد کا وہ بیج بویا گیا جو اب تن آور درخت کا روپ دھارے ہمارے معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کررہا ہے۔

خیر قصہ مختصر کہ ریاست کے تمام ستون آپس کی لڑائی میں جمہوریت، ریاست اور سب سے بڑھ کر غریب عوام کا ناقابل تلافی نقصان کر چکے ہیں تو میرے ملک کے پیارے سیاست دانوں، جرنیلوں اور معزز جج صاحبان سب ماضی میں کی گئی اپنی غلطیوں کا دیر آید درست آید کے مانند اعتراف کرلیں اور عوام کو بنا تفریق سارے حقوق فراہم کرکے جمہوریت کو کم سے کم اگلے ستر برس تک تسلسل کے ساتھ چلنے دیا جائے۔ آپ سب کی بڑی مہربانی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).