نیا سوشل کنٹریکٹ، 2018 کے فاٹا کی ضرورت


ژاں جیکس روُسو(Jean Jacques Rousseau) کی شہرہ آفاق کتاب ”نیوسوشل کنٹریکٹ“ کی سن 1762 میں تصنیف کے وقت یورپ میں فاٹا جیسی مطلق العنانی تھی پروہاں بادشاہ اتنے طاقتورنہ تھے جتنی طاقت آج سول اور عسکری حکام فاٹا میں رکھتے ہیں۔ لاقانونیت کے اس دور میں روسو نے اپنی تصنیف کے ذریعے فرانسیسی قوم کو ایک نئے معاہدہ عمرانی کا تصور دیا اور یوں اس کی کتاب ایک طرف ”انقلاب فرانس کی بائبل“ ٹھری اور دوسری طرف امریکہ نے ان برطانوی نو آبادیاتی قوانین سے رہائی پائی جن میں فاٹا 1901 سے آج تک بری طرح قید ہے۔

روسو کے مطابق ریاست بذات خود کچھ بھی نہیں، یہ افراد کے درمیان معاشرت کے بنیادی اصولوں اور اخلاقیات پرباہمی رضامندی کے سوشل کنٹریکٹ (معاہدہ عمرانی) کا نام ہے جس کے مطابق شہریوں نے ٹیکس دینا ہے جبکہ ریاست نے تین اداروں یعنی انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ کے تشکیل شدہ معاشرتی نظام کے تحت شہریوں کوامن وامان، شہری آذادیوں کا تحفظ، انسانی حقوق کو یقینی بنانا اور بنیادی سہولیات فراہم کرنی ہوتی ہیں۔ پھر اس کنٹریکٹ کو نافذ کرنے کے لئے یہی افراد نمائندے منتخب کرتے ہیں، یہ نمائندے ادارے اور ریاستی ڈھانچہ بناتے ہیں اور یوں یہ معاہدہ ریاست کی شکل میں قائم رہنے کا جواز پاکر چلتا رہتا ہے۔

فاٹا کو روسو کی نظر سے دیکھا جائے تو زمینی حقائق یہ ہیں کہ آپریشنوں سے قبل ریاست کے مذکورہ تین اداروں میں صرف انتظامیہ وہاں کام کررہی تھی جبکہ مقننہ اورعدلیہ کا وجود نہیں تھا۔ آج آپریشنوں کے بعد فوج نہ صرف انتظامیہ پر حاوی ہوچکی ہے بلکہ مقننہ اورعدلیہ کا کردار بھی خود ادا کررہی ہے جس کی نہ آئین پاکستان میں کوئی گنجائش نہیں نہ ہی فوج کو ایسی تربیت دی گئی ہے۔

نقل مکانیوں، کیمپوں، مسماریوں اور انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں کو اگر قربانی کے نام سے قبول کربھی لیا جائے تو امر کو کیا نام دیا جائے گا جب پشتون روایات سے مرصع علاقوں کے پورے کے پورے گاؤں کے مرد، خواتین اور بچوں کو گھنٹوں سے لے کر دنوں تک بطور سزا گھروں سے باہر کھڑا رہنے کی سزا دی جاتی ہے۔ جہاں لائنوں میں کھڑا رہنے، مرغا بنو، سورج دیکھو، گاڑی کی چھت پر چڑھو، ایک ٹانگ پر کھڑے رہو، تھپڑ، لات اور گرفتاری جیسے اقدامات معمول ہیں۔ مشران کی صورت قبائلی قیادت منشی اور سپاہی کی غلام ہے۔ بغیر رائلٹی کے وسائل لوٹے جارہے ہیں، ملکیتی زمین پر قبضہ کرکے سرکاری بلڈنگ اور سڑکیں تعمیر ہورہی ہیں۔ FWO کے ٹھیکوں کی قیمتیں سمجھ سے بالاتر ہیں۔ بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ سکول، ڈسپنسری، ٹیوب ویل، تعمیراتی ٹھیکہ اور نوکری قانونی کوائف پورے کیے بغیر جیسے بیچ دیے جاتے ہیں۔

ادویات کی جانچ پڑتال کے لئے ڈرگزریگولیرٹری اتھارٹی آف پاکستان کے قوانین کا اطلاق فاٹا پرنہیں ہوتا اور عوام دوائی کے نام پر زہر کھانے پر مجبور ہیں۔ ڈونرز سے وصولیوں کے لئے ہر ایجنسی میں چند پرشکوہ عمارتیں بنائی گئیں ہیں جبکہ میٹرز کے حساب سے سکول مسمار پڑے ہیں۔ پرمٹ کی شکل میں ٹیکس فرد واحد کے ذاتی اکاؤنٹ میں جاتا ہے۔ NOC کے نام پر بھتہ لیا جاتا ہے۔ دوسری طرف اساتذہ کی اکثریت سکولوں سے غیر حاضر ہے جبکہ ڈاکٹرز محکمہ صحت کی آشیرواد سے صرف کاغذوں میں موجود ہیں۔ جوآتے ہیں وہ شفٹوں میں تقسیم ہوکرکام کرتے ہیں۔ بجلی کے بل اور میٹر کا کوئی تصور نہیں۔ ٹریفک قوانین اور بینک نہیں۔ میونسپل کمیٹی اور یونین کونسل نہیں۔ المختصر یہ کہ فاٹا ایک جنگل بن چکا ہے جہاں افراد اور وسائل کے کنٹرول کی پالیسی کے تحت نظام چلایا جارہا ہے۔ ریاست سوشل کنٹریکٹ کے نفاذ میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے لہذا فاٹا کو لاقانونیت میں مزید نہیں رکھا جاسکتا۔

روسو لکھتا ہے ”عوام کو اگر اپنے محلے، اپنے قصبے اپنے شہر یا اپنے ضلع کے معاملات طے کرنے کا موثر اختیار حاصل ہو تو انہیں دارالحکومت کی طرف پرُ امید نظروں سے دیکھنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی“۔

لہذا، 2018 کا یہ سورج فاٹا میں ایک نئے سوشل کنٹریکٹ کا متقاضی ہے۔ جہاں ایسے مضبوط سماجی و ریاستی قوانین لاگو کیے جائیں جو بچے کی پیدائشی سرٹیفیکیٹ سے لے کر شہریت، اس کی قانونی حیثیت ومقام اور تمام تر زندگی میں اُس پر اثر انداز ہونے والے قوانین اور اُسکی موت کی تصدیق کیے جانے کی سرکاری تصدیق نامے تک کی قانونی لوازمات کے ضامن ہوں۔ جہاں عوام اور سول و عسکری ادارے آئین پاکستان کی تفویض شدہ حدود میں رہنے پر مجبور ہوں۔

جہاں ٹیکس قومی خزانے میں جائے، بجلی کا بل TESCO کو ملے اور عدالت، کچہری، پولیس انصاف فراہم کرے، اسلحہ لائسنس اور گاڑی کسٹم شدہ ہو۔ سرکاری اداروں میں حاضریوں کے لئے بائیومیٹرک سسٹم موجود ہو۔ ہرادارے کا آڈٹ ہو۔ ریاست فاٹا کے معدنیات سے مضبوط ہوتی رہے جبکہ عوام کو رائلٹی ملتی رہے۔ چیک پوسٹ پر پولیس کھڑی ہو، ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر اور ڈرگز انسپکٹر موجود ہوں۔ صحافت، قلم اور کیمرہ آزاد ہو۔ کسی ناخوشگوار واقعے کی سزاء پورے قبیلے، قوم، خیل یا گاؤں کو نہ ملے۔ انسانی حقوق سے محروم فاٹا کی عوام کو جمہوری حقوق تک مل پائیں۔ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ نئے عمرانی معاہدے اور قوانین کے اطلاق سے فاٹا کا معاشرہ مجموعی حوالوں سے منظم اور اجتماعی مفادات کا ضامن بن کر پرامن فاٹا پرامن پاکستان کا ضامن بنے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).