بیوی اگر شکی ہو تو کیا ہوتا ہے؟


دسمبر کا مہینہ تو جیسے شادیوں کا مہینہ بن چکا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ اگلے چند برسوں میں اس ماہ کو شادیوں کا عالمی مہینہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے لیکن ایک ایسی ہی شادی کی تقریب میں بیٹھے ہنستے مسکراتے جوڑے کو خوشی سے نئی زندگی کا سفر شروع کرتا دیکھ کر احسن کسی اور ہی دنیا میں کھوئے ہوئے دکھائی دیے۔ شادی کے چودہ برس بیت جانے کے بعد احسن اب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وہ کچھ بھی کرلیں اپنی بیوی کی نظر میں کبھی سرخرو نہیں ہوسکتے کیونکہ ان کی بیوی ایک شکی عورت ہے۔ ایک اچھی پوزیشن پر کام کرنے والے وجیہہ شخصیت کے مالک احسن کی اٹھائیس برس کی عمر میں شادی ہوئی۔ شادی ارینج تھی اس لئے دونوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے میں وقت لگا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں احسن ترقی کرتے گئے اور اپنی فیملی کو ایک پر آسائش اور آرام دہ زندگی دینے میں کامیاب ہوئے وہیں انھیں ایک ایسے مسئلے کا سامنا کرنا پڑا جس کی انھیں کبھی توقع نہ تھی۔ احسن کی بیوی نے ان پر شک کرنا شروع کردیا۔ پہلے پہل یہ سب خاموشی سے چلتا رہا اور پھر اس کا اظہار ان کی بیگم نے کھل کر کیا۔

احسن کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کا فون اور زیر استعمال دیگر اشیاءکی تلاشی لی جاتی تھی۔ اکثر و بیشتر ان کے دفتر میں ان کے آنے جانے کے اوقات کا معلوم کیا جاتا رہا جس کا اثر یہ پڑا کہ ان کے آفس کا عملہ انھیں عجیب نظروں سے دیکھنے لگا لیکن وہ اسے بھی نوٹس نہ کرسکے۔ یہ بات تب کھلی جب ایک بار وہ اپنے کسی دوست سے ملنے کے لئے گئے تو انھیں اپنے دوست کی زبانی معلوم ہوا کہ ان کے آنے کی تصدیق ان کے دوست کی بیگم سے پہلے ہی کر لی گئی ہے جس پر انھیں شدید طیش آگیا۔ گھر جاکر باز پرس کرنے پر ان کی بیوی نے یہ کھل کر کہا کہ وہ اپنے شوہر پر بھروسہ نہیں کرتیں۔ یہ بات احسن کی ہمت کو توڑ گئی۔

جواز یہ دیا گیا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی بیوی کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ ان کے شوہر کے پاس پیسہ ہے، ہر طرح کے لوگوں کے ساتھ ملنا جلنا بھی ہے، غیر ممالک کے دورے، آفیشل ڈنرز اور دیگر مصروفیات کے سبب وہ اب گھر کو پہلے کی طرح وقت نہیں دیتے ان کی زندگی کا محور اب ان کی بیوی نہیں بلکہ باہر کی کوئی بھی عورت ہوسکتی ہے۔ ساتھ ہی یہ مثال بھی پیش کی گئی کہ ان کی بیوی کی کسی سہیلی کے شوہر نے اپنی بیوی کو دھوکہ دیا تو وہ اب چوکنا ہیں کیونکہ انھیں یہ حساس دلایا گیا ہے کہ مرد بے وفا ہی ہوتا ہے اور کبھی بھی بدل سکتا ہے۔ احسن کا کہنا ہے کہ وہ عورتیں جن کے نصیب میں شکی مرد آجائے ان کی زندگی جہنم ہوتی ہے اسی طرح ایک مرد جو سب کچھ اپنی بیوی اور بچوں کے لئے کرتا ہو، ان کے لئے اپنی خواہشات کو پس پشت ڈال کر صرف ان کو بہتر مستقبل دینے کا سوچتا ہو اسے جب یہ معلوم ہو کہ اس کی شریک حیات اس کو قابل بھروسہ نہیں سمجھتی تو زندگی میں کتنی ہی آسائشیں کیوں نہ ہوں زندگی برباد ہوجاتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دو ا جنبی مجبورا ایک چھت تلے رہ رہے ہوں۔

انیلہ تین بچوں کی ماں ہیں۔ خوش شکل ہونے کے ساتھ ساتھ خوش لباسی میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں، ان کے بچے شہر کے ایک اعلی اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ فیشن ہو یا پھر گھر کی آرائیش و زیبائش، انیلہ کا گھرانہ کسی سے کم نہیں یہ سب ان کے شوہر کی بدولت ہے جو ایک اچھے عہدے پر فائز ہیں۔ لیکن انیلہ کا اپنے سوشل سرکل میں یہ لیکچر دینا لازمی ہے کہ شوہر کو خود پر حاوی نہ کیا جائے نہ ہی اسے حاکم سمجھا جائے وہ اگر کچھ کر رہا ہے تو یہ کوئی احسان نہیں ہے بلکہ اس کا فرض ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انیلہ کے دوست احباب میں سب یہ جانتے ہیں کہ وہ اپنے شوہر سے کس طرح پیش آتی ہیں اور ان کی ہم خیال خواتین اسی فارمولے پر عمل کر تے ہوئے شوہر کو خاطر میں نہیں لاتیں کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ وہ کسی سے کم نہیں اگر ان کے شوہر جان مار رہے ہیں تو یہ تو ساری دنیا کے مرد کرتے ہیں اس میں نیا کیا ہے۔

احسن کی طرح علی بھی ایک مسئلے کا شکار ہیں لیکن یہاں معاملہ تھوڑا مختلف ہے، علی کا یہ شکوہ ہے کہ ان کی بیگم کے نزدیک دنیا کے بہترین مرد صرف ان کے والد اور بھائی ہیں۔ وہ کبھی کچھ غلط نہیں کرتے نہ ہی کہتے ہیں۔ ان کا ہر عمل درست ہے جبکہ ان کے شوہر کا نمبر اس فہرست میں کہاں آتا ہے وہ یہ نہیں جانتے۔ شادی کے پندرہ برس گزر جانے کے بعد انھیں اپنی بیوی کی جانب سے یہ سننے کو ملتا ہے کہ فلاں دوست کے شوہر نے فلاں مہنگی سوسائٹی میں گھر بنالیا، جائیداد خرید لی لیکن آپ سے یہ نہ ہوسکا، یہاں تک کہ ان کی بیوی اپنے بھائیوں اور اپنی نند کے شوہر تک سے روزانہ اپنے شوہر کا موازنہ کرتی ہیں۔ چاہے وہ پیسے ہوں، طرز زندگی یا پھر کچھ اور۔ ان کی تان اسی بات کو لے کر ٹوٹتی ہے کہ فلاں یہ کرتا ہے آپ سے نہیں ہو پایا میرے بھائی میرے والد نے یہ دیا، آپ کہاں افورڈ کر پائیں گے۔

علی کا کہنا ہے کہ شروع میں، میں نے اس بات کو نظر انداز کیا لیکن جب میں ان گھروں کو دیکھتا ہوں جہاں بہت سی چیزوں کی کمی کے باوجود شوہر کا احترام، ان کی عزت اور شکر گزاری ہے تو مجھے اپنے گھر کے حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے جہاں ٹھنڈے دودھ کو پھونکیں مارنے کا رواج عام ہے۔ میں جو کہوں اس کی نفی کرنا فرض سمجھا جاتا ہے۔ صرف وقت پر کھانا بنانا، بچوں کا خیال رکھنا گھر سمیٹ کر صاف ستھرا رکھنا ہی عورت کا کام نہیں، گھر کے سربراہ کی عزت کرنا اور اسے اہمیت دینا بھی اس کے فرائض میں شامل ہے خاص کر جب شادی ہوجائے تو عورت کو اپنے شوہر کو اس کا وہ مقام دینا چائیے جو وہ اپنی بیوی سے توقع کرتا ہے۔

حال ہی میں ایک شادی میں شرکت کا اتفاق ہوا جس لڑکی کی شادی تھی اس کی عمر لگ بھگ چوبیس برس ہوگی، تین بھائیوں کی اکلوتی بہن کو ماں باپ نے کیا کچھ نہیں دیا۔ شایان شان انداز سے رخصت کیا، کیا جہیز، کیا زیور، کسی چیز کی کمی نہ چھوڑی گئی لیکن چھ ماہ کے اندر ہی لڑکی کو طلاق کا پروانہ دے کر رخصت کردیا گیا۔ سب کے لئے یہ ایک دھچکے سے کم نہ تھا۔ لڑکی اور اس کے گھر والوں سے اچھے بات چیت تھی تو ملاقات کرنے پر معلوم ہوا کہ قصور لڑکی اور اس کے والدین کا بھی تھا جنھوں نے اپنی بیٹی کے سسرال کے سامنے یہ گردان لگائی ہوئی تھی کہ ہمیں کسی چیز کی کمی نہیں اگر داماد کچھ دینے دلانے میں کوتاہی برتے گا تو لڑکی کا باپ ہے جو اسے سب دے سکتا ہے۔ یہ سوچ لے کر لڑکی رخصت ہوئی شوہر کو جاتے ہی اپنے بھاری بھرکم جہیز کا احسان جتانے سے لے کر اس کو اور اس کے گھرانے کو خاطر میں نہ لانے کی روش اپنائے رکھی۔ یہ لڑکا چونکہ اس دور کا تھا سو فیصلہ بھی جلد لیا کہ اگر بیوی آج عزت نہیں دے رہی تو بعد کی زندگی اور مشکل ہوگی، سو تین بول، بول کر اور کاغذ تھما کر اس کے ماں باپ کے گھر رخصت کیا اور ساتھ ہی یہ کہہ بھیجا کہ جن چیزوں اور ابا بھائیوں پر اتنا گھمنڈ ہے اب ان ہی کے ساتھ رہو۔

افسوس ناک بات یہ کہ اس گھرانے کو اپنے کیے پر ابھی بھی پچھتاوا نہیں۔ یہ سب دیکھ کر مجھے احسن اور علی کے گھر کے حالات یاد آئے اور یہ احساس بھی ہوا کہ جس طرح ایک عورت اپنے گھر کو بچانے کے لئے سب کچھ داؤ پر لگانے کو تیار ہوجاتی ہے اسی طرح مرد بھی اپنی اولاد کی خاطر اور آشیانے کو قائم رکھنے کے لئے صبر سے کام لے رہا ہوتا ہے۔ یہاں یہ تفریق کرنا کہ صرف عورت ہی گھر بناتی ہے درست نہیں، گھر مرد اور عورت دونوں ملکر بناتے ہیں اور توڑتے بھی ہیں۔ لیکن اگر کوئی ایک اپنے ہی گھر کی خوشیوں اور سکون کو ختم کرنے پر تلا ہو اور دوسرا ہمت اور صبر سے کام لے رہا ہو تو وہ کمزور ہر گز نہیں ہوتا بلکہ وہ یہ بخوبی جانتا ہے کہ اس کے بعد کیا ہوگا۔ بے لگام خواہشات اور امیدیں تنکا تنکا جوڑ کر بنے گھونسلے کو بے وزن کرتی جاتی ہیں اور ایک روز یہ گھونسلہ اپنا توازن کھو کر درخت سے زمین پر منہ کے بل آ گرتا ہے۔

لڑکیوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب ان کی شادی ہو تو وہ اپنی ان سہیلیوں سے مشورے لے رہی ہوتی ہیں جن کا یا تو گھر بسا نہیں ہوتا یا اگر بسا ہو تو وہ اپنی بے عقلی کے سبب اس کو خود برباد کرنے پر تیار بیٹھی ہوتی ہیں ایسے میں وہ لڑکی جس کی زندگی کا نیا سفر ایک نئے خاندان کے ساتھ شروع ہوتا ہے وہ بھی اس پر عمل کرنا شروع کردیتی ہے۔ اسے بتایا جارہا ہوتا ہے کہ شوہر کو قابو میں رکھنا، اس پر بھروسہ نہ کرنا، سسرال میں کوئی بھی بات ہو ماں باپ کو ضرور آگاہ کرنا، شوہر کس سے ملتا ہے، کس سے دوستی ہے، کب آتا ہے، کب جاتا ہے، ماں کو کتنا وقت دیتا ہے سب حساب رکھو۔ یہ باتیں دماغ میں بٹھا کر جب بیٹی رخصت کی جائے تو اس نے ساری زندگی انھی باتوں کے تانے بانے جوڑنے ہیں ایسے میں وہ گھر جو جنت بننا چائیے جہنم بننے لائق ہوجاتا ہے۔ کیونکہ مرد اگر شکی ہو تو عورت کی زندگی مشکل ہوتی ہے لیکن یہ اس کی خوبی ہے کہ وہ بچوں اور گھر کی ذمہ داریوں میں خود کو جھونک کر کندن بن جاتی ہے اور زندگی جیسے تیسے کاٹ لیتی ہے۔ لیکن جس گھر میں بیوی شکی ہو وہاں معاملات بدتر سے بدترین ہوتے جاتے ہیں، مرد اگر بے قصور ہو یا نہ ہو تو بھی اس کے پاس کئی اور ایسے راستے ہوتے ہیں جنھیں آزمانے اور چننے کا اسے موقع مل جاتا ہے کیونکہ وہ عورت کی طرح پابند نہیں ہوتا۔

میرے سامنے دو ایسے گھرانوں کی مثالیں ہیں جہاں بہو بیٹی سے بڑھ کر ہے۔ شوہر اور سسرال کا اطمینان اور خوشی ان کے چہروں سے دکھائی دیتا ہے۔ ایک گھرانہ درمیانے طبقے کا جبکہ دوسرا کافی خوشحال ہے ایک شادی کو سولہ برس تو دوسری جانب سات برس کا رشتہ ہے۔ دونوں جگہ بڑا سسرال ہے، بچے ہیں، ذمہ داریاں ہیں لیکن ایک بات مشترک ہے کہ وہاں بیاہ کر جانے والی لڑکیوں نے محبت اور احترام سے سب کا دل جیتا۔ سب ہوتے ہوئے یا تھوڑی بہت کمی کے باوجود بھی شوہر نے کبھی اپنی بیوی اور گھر کا موازنہ اپنے دوست کے گھر سے نہیں کیا نہ ہی بیوی نے شوہر کا موازنہ کسی اور سے۔ شوہر سے ہونے والے اختلافات کو انا کے سپرد نہیں کیا گیا اسے عزت نفس کا مسئلہ نہیں بنایا گیا۔ شوہر کو اگر کوئی شکایت ہوئی تو اسے بات چیت سے حل کیا گیا نہ کہ چیخ و پکار کر کے شوہر کی آواز سے اپنی آواز اونچی کر کے دھونس دھمکی دے کر محلے کو اپنا مسئلہ سنایا گیا۔

وہاں میکے سے ملنے والی چیزوں کی لسٹیں بار بار نہ دکھائی گئیں نہ جتائی گئیں۔ میاں کو دفتر سے آنے میں تاخیر ہوئی یا پرانے دوستوں میں بیٹھنے کا خیال آیا تو اس پر شک کا دائرہ وسیع کر کے کٹہرے میں کھڑا کر کے بنا سنے سزا نہیں سنائی گئی۔ اختلافات لڑائی جھگڑے ان گھرانوں میں بھی ہوئے لیکن ثابت قدمی اور تحمل سے انھیں نمٹایا گیا یہ گھرانے آج اس لئے لوگوں کے لئے مثالی اور قابل رشک ہیں کہ اس گھر کے میاں بیوی نے یہ طے کر لیا تھا کہ زندگی ہماری ہے اور یہ اگر اچھی گزرے گی تو ہماری نسل سنوریں گی یہ اگر بری کٹے گی تو بھی ہماری نسل بھگتے گی تو کیوں نہ اچھے سے گزاری جائے تاکہ آگے ہماری اولاد بھی سکھ پائے اور سکھ دینے کا سبب بن جائے۔ اس لئے شک اور بد گمانی سے بچیں یہ گھروں کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر دیتی ہے اور جہاں بنیاد کمزور ہو وہاں عمارت پھر ہمیشہ زمین بوس ہونے کا خطرہ ہی محسوس کرتی ہے۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar