سب رنگ المعروف استاد بڑے غلام علی خاں


استاد بڑے غلام علی خاں کی نسبت سے ایک قصہ یاد آتا ہے؛ کہا جاتا ہے جب ہدایت کار کے آصف ”مغل اعظم“ بنارہے تھے، تو انھوں نے اپنی فلم میں اساطیری مقام پانے والے گائیک تان سین کی نمایندگی کے لیے استاد بڑے غلام علی خاں کی آواز لینا چاہی۔ اس زمانے میں کلاسیکی موسیقی سے جڑے فن کار فلم کے لیے گانے کو معیوب سمجھتے تھے۔ ظاہر سی بات ہے بڑے غلام علی خاں نے انکار ہی کرنا تھا۔ کہا مشہور ہے کہ کے آصف نے اس وقت کے ایک بہت بڑے اداکار کو استاد بڑے غلام علی خاں صاحب کے یہاں سفارش کے لیے بھیجا۔ بڑے غلام علی خاں نے انکار کیا، تو اداکار موصوف نے خاں صاحب کے سامنے تجویز رکھی، کیوں کہ مجھے آپ کے یہاں سفارشی بنا کے بھیجا گیا ہے، تو آپ میری عزت کی خاطر صاف انکار نہ کریں، بل کہ اتنا معاوضہ طلب کرلیں کہ کے آصف انکار کیے بنا نہ رہ سکے۔

استاد بڑے غلام علی خاں

اس زمانے میں لتا منگیشکر اور محمد رفیع کا طوطی بولتا تھا، ان کا معاوضہ دو سو سے چار سو رُپے فی نغمہ بتایا جاتا ہے۔ طے شدہ ملاقات کے لیے ہدایت کار کے آصف استاد بڑے غلام علی خاں کے پاس پہنچے، تو استاد جی نے کلاسیکی انگ کے ”پریم جوگن بن کے“، اور ”آیا شبھ دِن“ کا پچاس ہزار طلب کرلیا، تاکہ ان کی طرف سے انکار بھی نہ ظاہر ہو اور جان بھی چھوٹ جائے۔ اس طرف بھی کے آصف تھے انھوں نے بھاو تاو کرنے کے بہ جائے، اک لمحے کا توقف کیے بغیر اڈوانس پیش کردیا۔ استاد بڑے غلام علی خاں زبان دے چکے تھے، اور زبان سے پھرنا شریفوں کا شیوہ نہیں ہوتا۔

حیدر آباد دکن کے چار مینار کے اطراف میں ڈیرا میر مومن میں مدفون استاد بڑے غلام علی خاں، موجودہ پاکستان کے شہر قصور میں موسیقی کے ’قصور پٹیالہ گھرانا‘ کے استاد علی بخش کے یہاں 2 اپریل 1902ء میں پیدا ہوئے۔ موسیقی کی ابتدائی تعلیم محض پانچ سال کی عمر سے حاصل کرنا شروع کی، ان کے پہلے استاد ان کے چچا استاد کالے خاں صاحب تھے؛ بعد میں انھیں ان کے والد استاد علی بخش نے موسیقی کی تعلیم سے آراستہ کیا۔

میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں پاتا کہ ان کے فن کے رموز پر کلام کروں، لہاذا اتنا کہ کر کنارا کرتا ہوں، کہ استاد بڑے غلام علی خان کا ماننا تھا کہ ’سنوئیے‘ لمبے الاپوں سے بیزار آجاتے ہیں، اس لیے انھوں نے الاپ کی طوالت کو کم کرنے کے تجربے کیے، تاکہ کلاسیکی موسیقی کو سننے والوں کا حلقہ پھیلے۔

مغل اعظم کا ایک منظر

ہندُستان کی تقسیم کے بعد استاد بڑے غلام علی خاں اپنے آبائی شہر قصور چلے آئے، لیکن پاکستان میں اپنے فن کی ناقدری دیکھ کر واپس ہندُستان چلے گئے۔ مور رقص کے موجد ڈاکٹر فقیر حسین ساگا صاحب ایسے موقعوں پر خوب یاد آتے ہیں؛ ہندُستان کے دورے کے دوران ان کو بے پناہ عزت سے نوازا گیا تو میں نے دل لگی کے واسطے کوئی سوال چھیڑ دیا، ساگا صاحب نے حسرت سے جواب دیا، کہ ”بارڈر کے اُس پار (پاکستان میں) ہم کنجر ہیں، اور بارڈر کے اِس طرف (بھارت میں) کلاکار“۔

مغل اعظم کا ایک منظر

نوزائیدہ مملکت پاکستان میں استاد بڑے غلام علی خاں صاحب کی ناقدری کی بہت سی کہانیاں عام ہیں۔ ان کی پوتی نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ حیدر آباد دکن کے نواب معین الدولہ نے انھیں ریڈیو پاکستان سے گاتے سنا، تو پیغام بھیج کر حیدر آباد بلوالیا۔ استاد بڑے غلام علی خاں کو حیدر آباد والوں نے بہت عزت و مقام عطا کیا؛ وہ مرتے دم تک اس شہر سے جڑے رہے اور وہیں دفن ہوئے۔ 23 اپریل 1968ء بشیر باغ پیلس حیدرآباد میں ان کا انتقال ہوا۔ چھیاسٹھ برس اکیس دن کے جیون میں، وہ موسیقی کی دُنیا میں اپنا نام امر کرگئے۔

استاد بڑے غلام علی خاں صاحب کے دو چھوٹے بھائی استاد سلامت علی خاں اور استاد نزاکت علی خان بھی موسیقی کی دُنیا کے معتبر نام گزرے ہیں۔ استاد بڑے غلام علی خان کے شاگردوں میں کئی نمایاں نام ہیں۔ ان کے بیٹے اور شاگرد استاد منور علی خاں صاحب نے جہاں ان کے فن کی روایت کو آگے بڑھایا۔ وہیں استاد مظہر علی خاں، استاد جواد علی خاں، استاد رضا علی خاں، نقی علی خاں، پورن چند وڈالی، کمار مکھرجی، سنجوکتا گھوش، اجے چکرورتی، میرا بنرجی، سندھیا مکھرجی اور بہت سے قابل شاگرد ہوئے، جنھوں نے ان سے سیکھ کر خود استاد کا درجہ پایا اور ان کے نام کو چار چاند لگادئیے۔

استاد بڑے غلام علی خاں

استاد بڑے غلام علی خاں دُنیا بھر میں بھارت کی شناخت بنے؛ یوں ہندُستانی حکومت نے انھیں متعدد سرکاری اعزازات سے نوازا؛ ان میں ’سنگیت ناٹک ایوارڈ‘، ’سر دیوتا ایوارڈ‘، ’آفتابِ موسیقی ایوارڈ‘، ’سنگیت سمرت ایوارڈ‘، اور 1962ء میں دیا جانے والا ’پدما بھوشن ایوارڈ‘ ان کی خدمات کا منہ بولتا اعتراف ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran