ٹرمپ کی ٹویٹ دھمکی اور پاکستان کا ردعمل


یوں تو امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی ٹویٹر ڈپلومیسی کے حوالے سے اس قدر بدنام ہو چکے ہیں کہ اگر ان کی طرف سے کوئی اچھا یا برا پیغام ٹویٹر کے ذریعے موصول ہوتا ہے تو اس پر سنجیدگی سے غور کی بجائے ہنسی مذاق زیادہ کیا جاتا ہے۔ تاہم اگر یہ معاملہ پاکستان سے متعلق ہو اور پیغام دینے والا خواہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسا مسخرہ اور غیر سنجیدہ ہی سہی لیکن امریکہ کا صدر ہو جو اس وقت سپر پاور کی حیثیت رکھتا ہے اورجس کے بغیر دنیا میں کہیں بھی کوئی اچھی یا بری خبر ظہور پذیر نہیں ہوتی ، تو اس ٹویٹر پیغام کو اتنی غیر سنجیدگی سے نہیں لیا جاسکتا جیسا کہ بعض امریکی ’فیک نیوز‘ چینل لیتے ہیں اور اس کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ پاکستان کو اس پر محتاط ہونے، اپنے ارد گرد دیکھنے، پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے اور دھمکی کا جواب بھبکی سے دینے کی بجائے اس پر غور کرکے دلیل سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔ بھلا ہو پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف کا کہ انہوں نے ٹرمپ کے جواب میں ٹویٹ تو ضرور کیا لیکن وہ لب و لہجہ اختیار کرنے سے گریز کیا جو صدر ٹرمپ کا خاصہ بن چکا ہے اور نہ ہی کوئی واضح بات کرنے کی کوشش کی کہ وہ خود نئے نویلے وزیر خارجہ ہیں اور جو اپنی دانست میں بات تو ملک کے مفاد اور قومی وقار کے لئے کرتے ہیں لیکن اس کا الٹ اثر ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ ایسے بیان پر وزارت خارجہ کو یا تو خاموشی اختیار کرنا پڑتی ہے یا بلاواسطہ طور سے بات کرتے ہوئے اس کی تصحیح کا اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے خواجہ صاحب کا شکریہ ادا کرنا تو بنتا ہے کہ اس بار انہوں نے ٹرمپ کو للکارنے کی بجائے یہ کہنے پر اکتفا کیا ہے کہ اس ٹویٹ پیغام کا مدلل جواب دیا جائے گا۔

آج سے پورے ایک سال قبل صدارت سنبھالنے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے دن سے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ وہ انتخابی مہم کے دوران اپنائے جانے والے رویے میں تبدیلی کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ انہوں نے نعرے بازی اور دوسروں کو دھمکانے کا وہی رویہ صدر کے طور پر بھی جاری رکھا ہے جس کی وجہ سے انتخابی مہم کے دوران پہچانے گئے تھے اور خبروں کی زینت بننا شروع ہوئے تھے۔ صدارتی مہم میں ٹرمپ کی کامیابی کی ایک وجہ ان کا کھرا، سخت ، جارحانہ ، دوستوں کے بارے میں مبالغہ کی حدود پار کرتا اور مخالفین کے بارے میں تباہ کن اور ہر قسم کے سیاسی و سفارتی معیار سے گرا ہؤا لب و لہجہ بھی رہا ہے۔ اس طرز اظہار کی وجہ سے ایک طرف انہیں امریکہ کے انتہا پسند اور مذہبی رجعت پسند حلقوں میں پذیرائی نصیب ہوئی تو دوسری طرف نئے سیاسی انداز کی وجہ سے وہ امریکی اور عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے۔ وہ اگرچہ اپنے مخالف میڈیا کو انتخابی مہم کے دوران ہی سے ’فیک نیوز‘ میڈیا قرار دیتے رہے ہیں لیکن یہی فیک نیوز میڈیا امریکہ اور دنیا بھر میں انہیں گھر گھر پہنچانے اور ان کی بھلی بری باتوں کی ہمہ وقت تشہیر کرنے کا سبب بھی بنا۔ اس لحاظ سے ٹرمپ میڈیا اسٹریٹیجی کے حوالے سے کامیاب ترین سیاستدان کہے جا سکتے ہیں۔ امید کی جارہی تھی کہ وہ صدر بننے کے بعد اپنے طرز عمل میں تبدیلی کریں گے۔ اور صدارت کی ذمہ داریوں کو قبول کرتے وقت ان حساسیات کا خیال رکھیں گے جن کا پاس کرنا اس اہم ترین عہدے پر فائز شخص کا فرض منصبی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ٹرمپ نے خود کو ’ماڈرن صدر‘ ثابت کرتے ہوئے نہ صرف امریکہ کی اسٹیبلشمنٹ اور مسلمہ قومی اداروں کے بارے میں تنقید کا سلسلہ جاری رکھا بلکہ اس رویہ کی وجہ سے ان کی سیاسی مقبولیت کو ابھی تک کوئی نقصان بھی نہیں پہنچا ہے، کیوں کہ انہیں ووٹ دینے والے جب یہ دیکھتے، پڑھتے اور سنتے ہیں کہ ان کا امیدوار مصالحت کرنے اور خود کو بدلنے پر آمادہ نہیں ہے تو وہ اس کے حوصلہ اور سچائی کے مزید قائل ہوجاتے ہیں اور ان کے حق میں پہلے سے بھی زیادہ جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اسی لئے امریکہ کے میڈیا کی ذبردست مخالفت اور نکتہ چینی کے باوجود ٹرمپ ایسے اداروں اور صحافیوں کے بارے میں سخت ترین الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں، ٹی وی پروگرام اور اخبارات کے صفحات ان کے خلاف تبصروں سے بھی بھرے ہوتے ہیں لیکن ان کی بنیادی مقبولیت میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ اسی لئے انہوں نے اپنے قریب ترین معاونین کے بار بار مشورہ کے باوجود ٹویٹ کرنے اور اس پر اپنے حامیوں تک مواصلت کرنے کا سلسلہ ترک نہیں کیا ہے۔ بیس ملین سے زیادہ لوگ صدر ٹرمپ کے ٹویٹر پیغام براہ راست وصول کرتے ہیں ، اسی لئے وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ اپنی بات اپنے لب و لہجہ اور الفاظ میں لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکی صدر نے یہ رویہ صرف داخلی امور پر اظہار خیال کرنے یا سیاسی مخالفین کی کردار کشی ہی کے لئے اختیار نہیں کیا ہے بلکہ وہ اس میڈیم کو عالمی سفارت کاری کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ شمالی کوریا کے لیڈر کم جون ان یا ایرانی قیادت کے بارے میں ان کے ٹویٹ پیغامات اس طرز عمل کی مثال کہے جاسکتے ہیں۔ اب نئے سال کے موقع پر انہوں نے ٹویٹ پیغام کے ذریعے ہی پاکستان کے بارے میں اپنے خیالات یا دوسرے لفظوں میں دھمکی کا ایک بار پھر اعادہ کیا ہے۔ نئے سال کی صبح جاری ہونے والے پیغام میں کہا گیا ہے کہ ’ امریکہ نے احمقانہ طور پر پندرہ سالوں میں پاکستان کو 33 ارب ڈالر کی مدد فراہم کی ہے۔ انہوں نے ہمیں سوائے جھوٹ اور دھوکے کے کچھ نہیں دیا ہے۔ وہ ہمارے لیڈروں کو بے وقوف سمجھتے رہے ہیں اور ان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتے رہے ہیں جن کاہم افغانستان میں ان کی نہ ہونے کے برابر مدد سے تعاقب کررہے ہیں۔ اب ایسا نہیں چلے گا‘۔ اس سخت اور تند و تیز ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے کوئی نئی بات نہیں کہی ہے ۔ وہ انتخابی مہم کے علاوہ گزشتہ اگست میں نئی افغان پالیسی کا اعلان کرنے کے بعد سے تسلسل سے پاکستان پر ایسی تنقید کرتے رہے ہیں لیکن چونکہ یہ حرف زنی ایک طاقتور ملک کے صدر کی جانب سے پاکستان جیسے کمزور اور مشکلات میں گھرے ملک کے خلاف کی گئی ہے اس لئے اس پر پاکستان کی حکومت اور عوام کو تشویش لاحق ہونا لازم ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اس کے جواب میں اپنے ٹویٹ پیغام میں کہا ہے کہ ’ پاکستان اس بارے میں جلد اپنا رد عمل ظاہر کرے گا۔ ہم دنیا کو حقیقت بتائیں گے۔ حقائق اور مفروضے کا فرق واضح کریں گے۔‘

امریکہ کے الزامات اور پاکستان کے جوابات اب اہل پاکستان کے علاوہ دنیا کے ہر باخبر فرد کو ازبر ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے تشویش کی بات البتہ یہ ہے کہ برس ہا برس سے امریکہ کے ساتھ الزام تراشی اور جوابی وضاحت کا یہ سلسلہ دراز کیوں ہو رہاہے۔ پاکستانی حکام اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لانے سے کیوں قاصر ہیں اور امریکہ کو ’بے بنیاد ‘ الزام تراشی سے روکنے کے لئے کیا اقدام کئے گئے ہیں۔ پاکستان کی سول حکومت یا فوجی قیادت کے نمائیندے اس بارے میں کوئی ٹھوس بات کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ امریکی الزامات کے جواب میں پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ اور قربانیوں کی بات دہرائی جاتی ہے اور یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پاکستان کو امداد کی نہیں بلکہ عزت اور دہشت گردی کے خلاف کارکردگی کے اعتراف کی ضرورت ہے۔ امریکہ بوجوہ یہ ’ضرورت‘ پوری کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ تو پاکستان کے سیاست دان، سفارت کار اور فوج کے پاس کیا کوئی متبادل موجود ہے کہ وہ اس امریکی مؤقف کو مسترد کرنے میں کامیاب ہو سکے۔ جس طرح امریکہ کے پاس اپنے الزامات ثابت کرنے کے لئے کوئی ٹھوس شواہد نہیں ہیں، اسی طرح پاکستان نے بھی اپنی بات ثابت کرنے کے لئے کوئی ٹھوس ثبوت ریکارڈ پر لانے کی کامیاب کوشش نہیں کی ہے۔ یہی وجہ ہے دنیا امریکہ کی بات پر غور کرتی ہے اور اس پر یقین بھی کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان امریکی الزامات کا پردہ فاش کرنے کے لئے کون سی معلومات عام کر سکتا ہے۔ یا اس کا کون سا طرز عمل تبدیل ہونے سے امریکہ کی تشفی ہو سکتی ہے۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی میں ملوث حقانی نیٹ ورک کے پاکستان میں ٹھکانے ہیں اور پاکستانی فوج اس کو پناہ فراہم کرتی ہے جبکہ پاکستان کا سرکاری مؤقف ہے کہ آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کے بعد ملک کے ہر علاقے میں ہر قسم کے دہشت گرد گروہ کے خلاف یکساں قوت سے کارروائی کی گئی ہے۔ امریکہ نہ صرف پاکستان کی اس کامیابی کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے بلکہ وہ بھارت کو افغانستان میں پاؤں جمانے اور پاکستان کے خلاف مصروف عمل گروہوں کو مضبوط کرنے کا سبب بھی بن رہا ہے۔ پاکستان اب یہ مطالبہ کررہا ہے کہ پاکستان سے ’ڈو مور ‘ کا مطالبہ کرنے کی بجائے اب پاکستان کے لئے ’ڈو مور‘ کیا جائے۔ یعنی افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف سرگرم عمل گروہوں کے ٹھکانے تباہ کئے جائیں، ان کی قیادت کو ختم کیا جائے یا گرفتار کرکے پاکستان کے حوالے کیا جائے۔ امریکہ اس حوالے سے پاکستان کے مؤقف کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتا ہے۔ جبکہ اپنی اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کی پشت پناہی کررہا ہے اور افغان طالبان کی قیادت کو اپنی سرزمین پر سہولتیں اور تحفظ فراہم کررہا ہے۔ پاکستان کی پوزیشن بظاہر مستحکم اور واضح ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ اسے تسلیم نہیں کرتا اور پاکستان باقی ماندہ دنیا کے سامنے اپنی ’مظلومیت ‘ کو واضح کرنے یا ثابت کرنے میں بھی ناکام ہے۔ اس کی گوناں گوں وجوہ ہو سکتی ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ دنیا کی سپر پاور ہے۔ کوئی بھی ملک پاکستان کے مقابلے میں امریکہ کی بات کو زیادہ توجہ سے سنے گا۔ امریکی مؤقف کو زیادہ قابل اعتبار بنانے کے لئے افغانستان اور بھارت اپنے اپنے طور پر پاکستان پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کے الزامات عائد کرتے رہتے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کا مؤقف اگر درست بھی ہے تو بھی وہ دنیا کے لئے ناقابل قبول ہے۔ اسی لئے امریکی صدر کا کوئی بھی پیغام یا وارننگ پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کا سبب بنتی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ اپنی اسی حیثیت کا فائدہ اٹھا کر پاکستان کو دباؤ میں لانا چاہتے ہیں تاکہ وہ اس سے زیادہ سے زیادہ فائیدہ اٹھا سکیں۔ یہ فائیدہ کیا ہو سکتا ہے۔ ایک تو پاکستان کو مسلسل دفاعی پوزیشن میں رکھ کر امریکی عوام کو یہ باور کروانا کہ افغانستان میں امریکہ ناکام نہیں ہؤا بلکہ پاکستان نے امریکی عوام اور لیڈروں کو بے وقوف بنایا ہے۔ دوسرے اس دباؤ کے نتیجے میں اگر پاکستان طالبان کو مذاکرات اور مصالحت پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوسکے تو امریکہ افغانستان کے بارے میں اپنے منصوبہ میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ یعنی طالبان کو کچھ مراعات دے کر کابل میں اپنی حمایت یافتہ حکومت کو مستحکم کیا جائے۔ امریکی صدر جانتے ہیں کہ طالبان سے مصالحت ایک پیچیدہ اور دقت طلب مسئلہ ہے جس میں کئی دہائیاں بھی بیت سکتی ہیں ، اس لئے وہ فی الوقت پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا کر امریکی عوام کو یہ یقین دلانے کی سر توڑ کوشش کررہے ہیں کہ ان کی حکومت افغانستان میں ناکام نہیں ہورہی بلکہ وہ سابقہ صدرو کی غلطیوں کی اصلاح کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ٹرمپ کا ہدف افغان مسئلہ کا حل نہیں ہے بلکہ 2020 کا انتخاب جیتنا ہے۔

اس صورت حال میں پاکستان منہ زور امریکی صدر کا مقابلہ کیوں کر کرسکتا ہے۔ ٹرمپ نے پاکستان کو پندرہ برس میں 33 ارب ڈالر امداد دینے کا الزام لگایا ہے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ رقم اسے کولیشن سپورٹ فنڈ سے دی گئی ہے جس کا مقصد جنگ میں فراہم کردہ سہولتوں کی ادائیگی اور نقصان کی تلافی ہے۔ امریکی صدر بظاہر اس وضاحت کو تسلیم کرنے سے انکار کررہے ہیں۔ پاکستان کا یہ مؤقف بھی نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہو رہاہے کہ اس جنگ میں اسے 120 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ اس مؤقف کو اعداد و شمار سے ثابت کرنے کی بجائے سفارتی ہتھکنڈہ اور سیاسی نعرہ بنایا گیا ہے۔ اس لئے پاکستان اگر ٹرمپ کے الزامات کا جواب دینا چاہتا ہے تو افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو ہونے والے نقصان کے بارے میں کسی عالمی طور پر قابل احترام ادارے سے دستاویزی رپورٹ تیا رکروائی جائے تاکہ یہ واضح کیا جاسکے کہ پاکستان کو یہ نقصان کس طرح اور کن کن شعبوں میں برداشت کرنا پڑا ہے۔ تاہم اس حوالے سے آسان ترین اور ضروری حل یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت اور فوج سب سے پہلے ان 33 ارب ڈالر کا حساب دستاویزی ثبوت کے ساتھ سامنے لائیں جو ڈونلڈ ٹرمپ کے بقول پاکستان کو 15 برس کے دوران امداد میں دیئے گئے ہیں۔ ایسے اعداد و شمار اور حساب کتاب سامنے ہونے کی صورت میں نہ صرف امریکہ سے وصول ہونے والی درست رقم کا اندازہ ہو سکے گا بلکہ یہ بھی پتہ چلے گا کہ یہ رقم کب اور کس مد میں کس ادارے کو دی گئی۔ پھر حکومت کے اس ادارے یا شعبہ نے وہ رقم کیسے اور کن ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے صرف کی۔ اس طرح دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکتا ہے۔ پاکستانی حکام اگر یہ کاوش کرنے کی زحمت نہیں کریں گے تو ان کا مؤقف کمزور بھی رہے گا اور وہ امریکی الزامات کا جواب بھی نہیں دے سکیں گے۔

امریکہ کو پاکستان پر الزامات لگانے اور دنیا کو انہیں تسلیم کرنے میں آسانی اس لئے بھی ہوتی ہے کہ پاکستان میں بعض عالمی طور سے دہشت گرد سمجھے جانے والے گروہوں اور افراد کو آزادی سے کام کرنے اور متحرک رہنے کی آزادی ہے۔ اس لئے کسی کے لئے بھی یہ کہنا آسان ہے کہ اگر پاکستان حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر کی پشت پناہی کرتا ہے تو وہ افغانستان میں مصروف عمل گروہوں کو بھی ضرور سہولتیں دیتا ہوگا۔ امریکی الزامات کے غبارے سے ہوا نکالنے کے لئے ان گروہوں کے بارے میں سرکاری پالیسی واضح بھی ہونی چاہئے اور اس میں نمایاں اور دکھائی دینے والی تبدیلی بھی سامنے آنی چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali