آگ لگے ب برکت پلازوں کو


یہ جسے آپ اسمگلنگ کہتے ہیں ناں یہ تجارت ہے۔ یہ حلال ہے اس کا شاید کچھ ثواب بھی ہوتا ہو گا۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی بات کر رہا۔ یہ ٹریڈ ہمارے قبائل کو روزگار فراہم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ رہی ہے۔ کچھ کیے بغیر یہ سب دیکھتے بڑے ہوئے۔ یاد آ گیا بہت کچھ کرتے بھی رہے۔

ہم جماعت اور سکول فیلو بہت تھے جو فاٹا کے تھے۔ افغانی بھی تھے، زیادہ تر ان کے خاندان اسی کام سے منسلک تھے۔ جس طرح ایک بار گھر سے بھاگ کر جہاد کرنے کابل پہنچے تھے۔ ویسے ہی ایک کاروباری تجربے کے لیے بھی بارڈر پار کیا ہوا ہے۔ دبئی سے سامان جلال آباد منگوا کر بہت تفصیل کے ساتھ خجل خوار ہوتے رہے تھے۔ اپنے مشر اور اس کے کزنوں کے لیے بہت کاروباری خط و کتابت بھی کر رکھی ہے۔

یہ سب لکھ کر بتانا یہ ہے کہ کاروبار جو ہے ناں یہ لکھت پڑھت قانون کا اتنا محتاج نہیں ہوتا۔ پاکستان کے اہم سیاسی خاندان کاروباری خاندان اکثر قبائلی تاجروں کے پارٹنر رہے ہیں۔ افغان جہادی لیڈر حضرات کے پیسے کس صراف کے پاس ہوتے ہیں، کون سی فیملی کس کے پیسوں سے کاروبار کرتی ہے یہ سب ہم سنتے دیکھتے تھے۔

فاٹا کے شنواریوں اور آفریدیوں کو کام کرتے دیکھا۔ یہ جانا کہ وہاں یہ اہم نہیں ہوتا کہ جائیداد یا کام کس کے نام ہے۔ اہم بس یہ ہوتا ہے کہ یہ جائیداد ہے کس کی۔ وقت بدل رہا ہے، اب ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ ہمارے اپنے دوست جائیداد پر مقدمے بازی کر رہے ہیں۔ قانونی سمجھ بوجھ کا یہ برا پہلو دیکھا کہ اپنا حصہ بڑھانے کے لیے مقدموں میں الجھ گئے۔ پھر بھی یہ تنازعات طے ہو جاتے ہیں۔ یہ تنازعات کیسے طے ہوتے ہیں؟ یہ جاننا چاہتے ہیں تو جواب ہے کہ ملک حضرات کرتے ہیں۔ قبائلی پریشر یہ تنازعہ طے کراتا ہے۔

صراف بھی یہ تنازعات طے کرا دیتے ہیں۔ صراف ایک بڑا مزے کا کردار ہے۔ ایک واحد ہستی جو پورے بنک کا کام کرتا ہے۔ اس کے پاس کاروباری خاندانوں کے پیسے پڑے ہوتے ہیں۔ صرافوں کی کل تعداد اب بھی چند سو ہی ہو گی پاکستان افغانستان میں ملا کر۔ یہ دنیا بھر میں پیسے بھجواتا اور وصول کرتا ہے۔ ان کا حساب رکھتا ہے، بوقت ضرورت ادھار فراہم کرتا ہے۔ مکمل خاموش بھی رہتا ہے۔ ڈان کو تو بارہ ملکوں کی پولیس شاید پکڑ لے۔ صراف کی جان کو ساری دنیا ہی رو رہی ہے۔ آپ کا ہنسنے کو دل چاہ رہا تھا تو سنیں۔ کچھ سال پہلے تک افغانستان میں ہمارا یہ شیر صراف عالمی مالیاتی اداروں کو بھی سہولیات فراہم کرتا رہا ہے۔

صراف اک دلچسپ کردار ہے اس کے پاس مزے کی کہانیاں ہوتی ہیں، پر بولتا کدھر ہے۔ بہت سال پہلے اک صراف کو نسوار یاد آ رہی تھی۔ اسے روزہ لگا ہوا تھا۔ ہم اسے جہاد کی برکات پر چھیڑ رہے تھے۔ وہ شارٹ ہو گیا تو بولا کہ فلاں کمانڈر کو میں نے بولا تھا کہ تمھارے اتنے ملین ڈالر میرے پاس جمع ہو گئے۔ تم کوئی کاروبار کیوں نہیں کرتے جائیداد کیوں خریدتے رہتے ہو۔ تو کمانڈر صاحب بولے ہمیں اس مرنے مارنے کے علاوہ کچھ کرنا کدھر آتا ہے، کیسا لگا پڑھ کر۔

کاروباری لوگ تو کاروبار بھی کر مر لیتے ہیں۔ جنہیں بالکل کچھ کرنا نہیں آتا وہ جائیدادیں خریدتے ہیں، پلازے بناتے ہیں۔

پلازوں سے اک قصہ یاد آیا۔ وہ عظیم فنکار عظیم رقاص پروفیسر تو بیچارے مرحوم ہو چکے۔ کیا مزے کی گندی گندی باتیں کرتے تھے۔ وہ اپنے اک عزیز کا قصہ سنایا کرتے تھے۔ جو مزدوری کرنے عرب شریف گیا۔ اس کا مشن بس یہی تھا کہ کسی طرح پیسہ کمانا ہے۔ اپنے لاہور میں اک پلازہ بنانا ہے۔ بندہ جانباز تھا تاریخ جانتا تھا۔ پشاور بنوں قندھار کا مزاج شناس تھا۔ اس نے یمن کی صورتحال پر غور کیا، سب سمجھ گیا۔ اپنی جان اور اپنی عزت پر کھیل گیا۔ اندھی کمائی ہونے لگی۔

دو چار سال میں ہی اس نے اتنے پیسے جوڑ لیے کہ اپنا پلازہ بنانا شروع کر دیا۔ جب مکمل ہو گیا تو اس کا نام اس نے برکت پلازہ رکھا۔ ہمارے عظیم فنکار نے اس پلازہ کا نام ب برکت پلازہ رکھ دیا۔ ظاہر ہے وہ برکت تو ہرگز نہیں کہتے تھے۔

امریکیوں کو آج کل بہت اگ لگی ہوئی ہے۔ ان سے افغانستان میں اپنی چھلائی برداشت ہی نہیں ہو رہی۔ افغانستان کو لے کر وہ ہم پر گرج برس رہے ہیں۔ ہم بھی برابر جواب دے رہے۔ سب بول رہے ہیں۔ اس گرما گرمی میں اگر کوئی چپ ہے تو وہ کابل ہے۔ انہی کی بات ہے اور وہی چپ ہیں، یا حیرت۔

آج کل روز ہی سیر کرنے جاتا ہوں۔ آدھا اسلام آباد تو کراس کرتا ہی ہوں۔ راستے میں بہت سے پلازے آتے ہیں۔ اکثر آج کل سیل ہوئے پڑے ہیں۔ انہیں دیکھتا ہوں ہنستا ہوں۔ اپنی جان پر سو دکھ جھیل کر بنایا ہوا لاہوری کا برکت پلازہ یاد آ جاتا ہے۔ ایسے ب برکت پلازوں کو بھی آگ لگے جو بندے کو بولنے کے قابل بھی نہ چھوڑیں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi