قائد اعظم کا تصور ریاست


اس سے زیادہ جہالت اور بدقسمتی کی بات اور کیا ہوگی کہ ستر برس گزرنے کے باوجود پاکستانی قوم اس ایک نقطے پر متفق نہیں ہو سکی کہ بانی پاکستان کا تصور ریاست درحقیقت تھا کیا۔ ا س موضوع پر قوم واضح طور پر دوفرقوں میں بٹ چکی ہے۔ ایک طبقہ بضد ہے کہ قائد اعظم کو مذہب کا بھرپور داعی ثابت کر دے اوردوسرا طبقہ مصر ہے کہ قائد اعظم ایک لبرل اور سیکولرریاست کے قیام کے خواہش مند تھے(یہ ایک الگ بحث ہے کہ لبرل اور سیکولرریاست سے کیا مراد ہے)۔

دونوں کے پاس اپنے اپنے موقف کے حق میں ٹھوس دلائل موجود ہیں لیکن ظلم یہ ہے کہ قائد اعظم کے بنائے گئے اس ملک میں قائداعظم اور ان کے تصورریاست یا دوسرے نظریات پر تحقیق کی آزادانہ اجازت ہی نہیں تاکہ ان دلائل یا ثبوتوں کی حقانیت کو پرکھا جاسکے۔ کسی کو اگر میری اس گزارش سے اتفاق نہیں تو میرا سیدھا سا سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ممکن ہے تو ستر برس میں یہ قضیہ ختم کیوں نہیں کیا جا سکا؟ ایک گروہ اپنی نام نہاد اسلام پسندی کی وجہ سے قائداعظم کے بعض بیانات کی بنیاد پر یہ دعویٰ کرتاہے کہ قائداعظم محمدعلی جناح پاکستان کوایک مکمل اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ لیکن یہ طبقہ اس بات کا جواب دینے سے معذور ہے کہ اگر قائد اعظم ایسا ہی پاکستان چاہتے تھے تو اس طبقے کے فکری آباؤ اجداد پاکستان کو ”ناپاکستان“ اور ”پلیدستان“ کیوں کہتے تھے؟

قائداعظم کو کافر اعظم قرار دینے والے احرارکی سیاست تو تاریخ کے کوڑے دان میں دفن ہو گئی لیکن حیرت تو یہ ہے کہ پاکستان کو پلیدستان قرار دینے والوں کی روحانی اولاد مولانا غفور حیدری یہ فرماتے ہیں کہ ”قیام پاکستان کے لئے ہمارے آباؤاجداد نے قربانیاں دیں“۔ تاریخ سے کھلواڑ تو سنا تھا لیکن تاریخ کی اس اجتماعی آبروریزی کا کیا کیجئے؟ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ قائد اعظم محمد علی جنا ح پاکستان میں اسلامی قوانین نافذ کرنا چاہتے تھے لیکن اس بات کا جواب آج تک کوئی نہیں دے سکا کہ ایک ہندو جوگندر ناتھ منڈ ل کو پاکستان کا پہلا وزیر قانون بنا کر قائد اعظم ان سے کون سے اسلامی قوانین بنوانا چاہتے تھے۔ دوسرے طبقے کے دلائل قائد اعظم کی11اگست 1947کی اس تقریر سے شروع ہوتے ہیں جس میں انہوں نے فرمایاتھا کہ ”آپ آزاد ہیں۔ آپ اپنے مندروں، مساجد اور اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کے لئے آزاد ہوں گے۔ خواہ آپ کا کسی نسل، مذہب یا عقیدے سے تعلق ہوآپ کو کاروبار مملکت میں مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔ قانونی لحاظ سے سب شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں گے“۔ قائداعظم کے ان الفاظ سے استدلال کرنے والوں کی شدید خواہش ہے کہ قائداعظم کو ایک مغرب زدہ اور ملحد شخصیت قرار دے دیا جائے تاکہ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کی راہ ہموار ہو۔

بصد احترام! خاکسار ان دونوں نظریات سے شدید اختلاف کی جسارت کرتا ہے کیونکہ ان دونوں طبقوں کے موقف میں موجود شدت واضح طور پر انتہا پسندی کی حدیں چھوتی نظر آتی ہے حالانکہ بانی پاکستان کی شخصیت کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی شدت پسندی اور انتہا پسندی سے کوسوں دور تھے۔ قائد اعظم اگر اسلامی تعلیمات سے متاثرتھے یا اسلامی اصولوں کو پسند کرتے تھے تو اس میں برائی کیا ہے؟

کھوجنے کی اصل بات تو یہ ہے کہ قائد اعظم کا تصوراسلام کیا تھا؟ انہوں نے اسلامی تعلیمات سے کیا نتائج اخذ کیے؟ اسلام کے کون سے قوانین وہ پاکستان میں نافذ کرنا چاہتے تھے؟ طبیعت مکد ر نہ ہوتو 1943 میں دلی میں ہونے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں قائد اعظم کے خطاب کا اقتباس ملاحظہ کیجئے۔ ”پاکستان میں عوامی حکومت ہوگی اور یہاں میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کردوں، جو ایک ظالمانہ اور قبیح نظام کے وسیلے سے پھل پھول رہے ہیں اور اس چیز نے انہیں اتنا خود غرض بنا دیا ہے کہ ان کے ساتھ عقل کی کوئی بات کرنا بھی مشکل ہوچکاہے۔ عوام کی لوٹ کھسوٹ اس طبقے کے خون میں شامل ہوگئی ہے۔ انہوں نے اسلام کی تعلیمات بھلا دی ہیں۔ حرص اور خودغرضی نے ان لوگوں کو اس بات پر قائل کر رکھا ہے کہ دوسروں کے مفادات کو اپنے مفادات کے تابع بنا کر موٹے ہوتے چلے جائیں۔ میں دیہات میں گیا ہوں، وہاں لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں عوام اس حالت میں ہیں کہ ان کو ایک وقت کی روٹی نصیب نہیں۔ کیا یہی تہذیب ہے؟ کیا یہی پاکستان کا مقصود ہے؟ اگر پاکستان کا یہی تصور ہے تو میں اس کے حق میں نہیں ہوں“۔

قائد اعظم کی تقریر کے اس اقتباس کو ان کی 11اگست 1947والی تقریرکے اقتباس سے ملا کر پڑھا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ وہ پاکستان کو نہ تو مُلائی ریاست بنانا چاہتے تھے اور نہ ہی انہیں یہ برداشت تھا کہ عوامی فلاح کی اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال کرعوام کو سرمایہ دارانہ نظام کے شکنجے میں کس کر ان کا خون چوسا جائے۔ بحیثیت ایک طالب علم میں تو یہ جانتا ہوں کہ قائد اعظم کا تصور ریاست سیاسیات کے نظریہLIBERALISMسے ملتاجلتا ہے جو شہری آزادیوں اور فرد کی ذاتی زندگی میں ریاست کے کم از کم کردار کا حامی ہے۔ تاریخی حوالے یہ ثابت کرتے ہیں کہ قائداعظم ہندو مسلم بھائی چارے کے بھرپور حامی تھے لیکن یہ ہند و قیادت تھی جس نے انہیں اپنے اس خیال سے دستبردار ہونے پر مجبور کردیا۔ لیکن اس کایہ مطلب نہیں کہ وہ فطری انسانی رواداری سے ہی دستبردار ہو گئے تھے۔

پاکستان کا مطالبہ بعد از خرابی بسیار کیا گیا۔ جب قائد اعظم کو یقین ہو گیا کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق کا حصول ممکن نہیں رہے گا تو انہوں نے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق قیام پاکستان کا مطالبہ کیا۔ یہ مطالبہ کرتے ہوئے وہ اس امر سے بخوبی آگاہ تھے کہ ہندو اکثریت کے وہ علاقے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں پاکستان میں شامل نہیں ہوں گے لیکن حالات کی سنگینی اور نزاکت کے سبب انہوں نے یہ ہی مناسب سمجھا کہ کم از کم مسلم اکثریتی علاقوں کی مسلم اکثریت کے حقوق تو محفوظ ہوجائیں گے۔ میری دانست میں محمد علی جناح برصغیر کے مسلمانوں کے لیے سماجی انصاف اور ان کے سیاسی و جمہوری حقوق کو یقینی بنانا چاہتے تھے۔

ابتدا میں انہوں نے یہ مقصد متحدہ ہندوستان کے اند ر ہی اصل کرنا چاہا اور جب انہیں متحدہ ہندوستان کے اندر اس مقصد کا حصول ناممکن نظر آیا تو پھر اسی مقصد کے لیے انہوں نے الگ ریاست پاکستان کا مطالبہ کر دیا۔ قیام پاکستان دین اسلام کا کوئی حکم تو تھا نہیں۔ سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے مسلم قومیت کے تصور کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا جو سیاست میں کوئی انہونی بات نہیں ہے لیکن یہ نقطہ وہی سمجھ سکتا ہے جو سیاسیات کو ایک علم کے طور پر جانتا ہو نہ کہ موجودہ مفاداتی یا موروثی سیاست کے مداح۔ ہر گز ہرگز یہ مطالبہ ایک مُلائی ریاست کے قیام کے لئے نہیں تھا۔ اگر ایسا ہوتاتواس وقت کی جماعت اسلامی، احراراور جمیعت علما ہند قیام پاکستان کی مخالفت ہر گز نہ کرتے۔ ان مذہبی طبقات کی طرف سے قیام پاکستان کی مخالفت اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں پاکستان میں اپنی ہٹی بند ہوتی ہوئی نظر آرہی تھی۔

سمجھنا اگر ہم چاہیں تو قائد کے افکار جو ان کے اعمال سے واضح تھے ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ پاکستان کو کس قسم کی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ انسان جب اپنی زندگی کے اختتامی دور میں داخل ہوتا ہے تو وہ اپنی عمر بھر کی جمع پونجی جس طرح ٹھکانے لگاتا ہے اس سے بھی اس کے نظریات واضح ہوجاتے ہیں اور یہ ایسا وقت ہوتا ہے جب زندگی کے میچ کا فیصلہ ہونے والا ہو۔ قائد اعظم نے اپنی دولت کا بیشتر حصہ مختلف رفاہی اداروں میں تقسیم کر دیا تھا۔ ان کی وصیت کے مطابق ان کے ترکے میں سے 25000 روپے انجمن اسلام بمبئی، 50000 روپے بمبئی یونیورسٹی، 25000 روپے عریبک کالج دہلی، رہائشی جائیداد کا ایک حصہ سندھ مدرسہ کراچی، ایک حصہ اسلامیہ کالج پشاور اور بقیہ تیسرا حصہ علی گڑھ یونیورسٹی کو دیا گیا۔ قائد اعظم کی وصیت چیخ چیخ کر پاکستانیوں سے مطالبہ کرر ہی ہے کہ پاکستان کو جیسا بھی بنانا چاہو بناؤ لیکن اس میں تعلیم عام کردو۔ تعلیم وہ، جو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو نہ کہ وہ جو کفر کے فتوے لگانے والے مفتی تو پیدا کرے لیکن ریاست کو ایک کلرک مہیا کرنے سے معذور ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).