ایران میں ریاستی تنگ نظری کی موت


داعش اور طالبان کی پیش رو اسلامی شدت پسندی کی داعی ریاستیں 1979 کے بعد کا سعودی عرب اور ایران تھیں۔ کم و بیش چار دہائیوں کے بعد ان کو اس شدت پسندی کے نتائج بھگتنے پڑے ہیں تو دونوں اس سے دوری اختیار کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ معاملہ سادہ سا ہے۔ شدت پسندی کو اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔ اب اپنا اقتدار اس شدت پسندی کی وجہ سے خطرے میں دکھائی دے رہا ہے تو یہ ریاستیں دوبارہ انسانی آزادیاں واپس لوٹانے پر مجبور ہو رہی ہیں۔ ویسے بھی شدت پسندی سے معیشت کا نقصان ہوتا ہے جو اب یہ دونوں تیلی ریاستیں بھی برداشت کرنے سے قاصر ہیں۔

1979 میں شاہ کے خلاف ملا کے انقلاب کے بعد ایران میں ہر خوشی فراہم کرنے والی بات حرام قرار پائی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس انقلاب کے سرخیل آزادی کے متوالے تہران یونیورسٹی کے سرخ طلبہ تھے لیکن اقتدار مذہبی انتہا پسندوں کو ملا۔ ریاست اپنے شہریوں کی نجی زندگی میں شدت سے دخل انداز ہوئی۔ ان کے لباس تک کا تعین ریاست نے کیا۔

1990 کی بات ہے۔ ہم ایک مغربی یونیورسٹی میں گمراہی کا سبق پڑھ رہے تھے تو وہیں بڑی تعداد میں ایرانی طلبہ بھی ہمارے ساتھ پڑھتے تھے۔ ان دنوں ہر پاکستانی نصاب زدہ نوجوان کی طرح ہمیں بھی پاکستان کے جملہ مسائل کا حل ایک اسلامی انقلاب میں دکھائی دیا کرتا تھا اور ہمیں صدق دل سے اس بات کا یقین تھا کہ پاکستان میں امام خمینی جیسا انقلاب آ گیا جس نے ایرانی سٹائل میں دس بیس ہزار لوگوں کی گردنیں اتار دیں تو پاکستان ہر قسم کی کرپشن سے پاک ہو جائے گا اور دو تین برس کے اندر ہی سپر پاور بن کر فلسطین سے لے کر کشمیر تک ہر مسئلہ اپنی شرائط پر حل کروا لے گا۔

ایک ایرانی دوست کو ہم بھاشن دے کر سمجھا رہے تھے کہ وہ نہایت خوش قسمت ہے کہ اس کے ملک میں گیارہ برس قبل یہ اسلامی انقلاب آ چکا ہے۔ ایرانی اپنے وطن سے دور رہ کر بھی انقلابی حکومت کے خلاف بات کرتے ہوئے ڈرتے تھے کیونکہ حکومتی جاسوس ہر جگہ موجود تھے اور بیرون ملک بھی سزائیں دے دیا کرتے تھے۔ کچھ دیر تو وہ مظلوم سنتا رہا پھر اس نے صرف ایک فقرہ کہا جس کے بعد مجھے ایرانی انقلاب کی حمایت کرنے کی زندگی بھر جرات نہیں ہوئی۔ ”عدنان، تم آدھے بازو والی یہ ٹی شرٹ دیکھ رہے ہو جو میں نے پہن رکھی ہے۔ یہ میں ایران میں نہیں پہن سکتا“۔

جون 2017 میں ایرانی خواتین کی طرف سے ایک مہم چلی۔ وہ اپنے سروں سے وہ سکارف اور چادریں اتار کر ہوا میں لہرا رہی تھیں جو ملا کی ریاست نے ان پر لازم قرار دی تھیں۔ ان چادروں کو سروں سے اتارنے پر ان کو سزا ملتی تھی۔ اب حالیہ حکومت مخالف مظاہرے شروع تو بدترین معاشی صورت حال کی وجہ سے ہوئے ہیں جو ایک شدت پسند ریاست کے مسلسل جنگوں میں مصروف رہنے اور عالمی پابندیوں کی وجہ سے گزشتہ 38 برس سے ایرانی عوام کا مقدر ہے، لیکن اس میں ایرانی لڑکیاں اپنے سروں سے سکارف کو اتار کر ہوا میں لہراتے ہوئے بھی دکھائی دے رہی ہیں۔ یہ اپنی زندگیوں پر ایرانی ریاستی جبر کے خلاف ان کا احتجاج ہے۔

وہ ایرانی حکومت جس نے ایک ایرانی نژاد لڑکی کو ایک والی بال میچ دیکھنے پر قید کی سزا سنا دی تھی اور بین الاقوامی سطح پر خود کو اچھا بھلا بدنام کر لیا تھا، اب یہ اعلان کرنے پر مجبور ہے کہ تہران میں لڑکیاں ننگے سر گھوم سکتی ہیں اور ان کو سزا نہیں دی جائے گی۔

ایرانی حکومت کے خلاف مظاہرے پورے ملک میں پھیل چکے ہیں۔ ان مظاہروں میں اب تک بائیس افراد ہلاک اور سینکڑوں ہو چکے ہیں مگر آگ بجھنے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ مظاہرے خاص طور پر مڈل کلاس اور محنت کش طبقے کی آبادیوں میں نمایاں ہیں۔ ان مظاہروں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ مذہبی شہروں قم اور مشہد سے شروع ہوئے ہیں۔ سرکاری تنصیبات اور تھانوں پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ خطرناک بات یہ ہے کہ ان مظاہروں کی قیادت کوئی شخص یا جماعت نہیں کر رہی ہے۔ ”مرگ بر دیکتاتور“ کے نعرے لگا کر سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی معزولی اور ”اسلامی جمہوریہ“ کے خاتمے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ایک نعرہ یہ ہے کہ ”لیڈر تو خدا بنا بیٹھا ہے اور عوام گداگروں کی طرح رہنے پر مجبور ہیں“۔

ہمارے لئے اس میں سیکھنے کی بات یہ ہے کہ جس طرح مذہبی تنگ نظری یا عوام کی ذاتی زندگی میں مداخلت کے سبب عوام نے امارت اسلامیہ افغانستان، داعش، شام، لیبیا اور دیگر ممالک کی حکومتوں سے جان چھڑانے کی کوشش کی تھی اس کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو اس تنگ نظری سے دور رکھیں۔ سعودی عرب سیانا رہا ہے کہ عوامی مظاہرے شروع ہونے سے پہلے ہی ریاستی تنگ نظری کو ترک کرتے ہوئے لبرل ازم کی طرف قدم بڑھانے لگا ہے۔ ایرانی حکومت کو اس کے عوام یا تو لبرل ازم کی طرف لے آئیں گے، ورنہ حکومت سے ویسے ہی جان چھڑا لیں گے جیسے 1979 میں شاہ سے چھڑائی تھی۔ جب عوام سر ہتھیلی پر رکھ کر سڑکوں پر نکل آئیں تو مشرق وسطی کی طاقتور ترین فوج بھی ان کا سامنا نہیں کر سکتی ہے۔

سعودی عرب کیوں لبرل ہو رہا ہے؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments