درویش خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی


\"usman

کہتے ہیں، جس محفل میں اہل ایران بیٹھے ہوں، وہاں فارسی نہیں بولنی چاہیے ۔ اس گفتگو کے جید شرکا، محترم عامر ہاشم خاکوانی، محترم وجاہت مسعود اور محترم محمد اظہار الحق اس ’’رائٹ“ اور ’’لیفٹ“ کے سوال کے بارے میں مختلف پہلوؤں کو نمایاں کر چکے ہیں، سو خادم کا کچھ کہنا شاید دخل در معقولات کے زمرے میں آئے، مگر ’’غریب شہر سخن ہائے گفتی دارد“ کے مصداق چند بنیادی نکات عرض ہیں۔ امید ہے کہ اہل دانش ان کے حوالے سے رہنمائی فرمائیں گے۔

۔1۔ گزشتہ نصف صدی سے ’’رائٹ“ اور ’’لیفٹ“ کی اصطلاحات دنیا بھر میں اقتصادی سیاسیات کے شعبے میں بحثوں کا محور رہی ہیں۔ مختصراً، ’’رائٹ“ سے وہ لوگ مراد لئے جاتے ہیں جو معیشت میں کم سے کم حکومتی عمل دخل اور آزاد منڈی کے زیادہ سے زیادہ نفوذ کے قائل ہیں، جبکہ ’’لیفٹ“ سے مراد وہ مکتبہ فکر لیا جاتا ہے جو مختلف درجوں میں معیشت پر ریاستی کنٹرول اور عمل دخل کے حامی ہیں۔ ’’رائٹ“ اور ’’لیفٹ“ کو مذہبی اور غیر مذہبی سیاست کا نام دینا کسی بھی اعتبار سے درست نہیں ہے، جیسا کہ اظہار صاحب نے اشارہ کیا ہے۔

۔2۔ پاکستان میں سرگرم عمل اکثر مذہبی سیاسی جماعتیں ’’فلاحی اسلامی مملکت“ کی مؤید ہیں۔ ’’فلاحی“ مملکت واضح طور پر ایک ’’لیفٹسٹ“ تصور ہے جس میں دولت کی تقسیم اور خدمات فراہم کرنا ریاست کی ذمہ واری سمجھا جاتا ہے۔ دوسری جانب ’’لبرل“ جماعتیں، چاہے مسلم لیگ کے دھڑے ہوں یا پیپلز پارٹی، سب ہی دائیں بازو کی خاص پہچان، ’’نج کاری“ کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہیں۔ جو جماعتیں نج کاری سمیت ، خدمات اور روزگار سے حکومت کی دست کشی کی کھلی مخالف ہیں وہ موجودہ سیاسی ڈھانچے کے بالکل حاشیے پر ہیں اور ان کا کسی بھی قانون ساز ادارے میں کوئی نشست حاصل کرنا مستقبل قریب میں محال نظر آتا ہے، مگر ’’لیفٹ“ کی تعریف پر اگر کوئی اس ملک میں پورا اترتا ہے، تو وہ یہی جماعتیں، عوامی ورکرز پارٹی، کمیونسٹ پارٹی، کمیونسٹ مزدور کسان پارٹی وغیرہ ہیں۔

۔3۔ ’’مذہب پسند“ کی غیر واضح اصطلاح کے تحت مختلف الخیال سیاسی قوتوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا بھی درست نہیں ہے۔ مثلا دیو بندی مسلک سے وابستہ جمعیت علمائے اسلام کا مولانا فضل الرحمن کے زیر قیادت دھڑا، ابتدا سے ہی پارلیمانی جمہوریت سے اپنی گہری عملی وابستگی کا ثبوت دیتا آیا ہے جبکہ اسی جماعت کا مولانا سمیع الحق کے زیر نگین دھڑا مختلف ادوار میں فوجی آمروں کی جلی یا خفی حمایت کے حوالے سے معروف ہے۔ یہی حال دیگر مسالک سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں اور ان کے مختلف دھڑوں کا ہے۔

۔4۔ مسالک کے پیروکاروں کی موجودگی سرحدات سے ماورا ہوتی ہے۔ ہر ملک کے اپنے معروضی حالات کے مطابق کسی بھی مسلک سے تعلق رکھنے والے راسخ العقیدہ لوگ بھی جو سیاسی راہ اختیار کرتے ہیں، اس کا ان کے اعتقادات سے تعلق ہونا لازمی نہیں ہے۔ مثلا دیو بندی مسلک کی علم بردار جماعتوں کا بعض بنیادی نکات کے بارے میں پاکستان، بھارت اور افغانستان میں جدا جدا، بلکہ باہم دگر متضاد موقف ہے۔ اگر اس بحث کو حنفی مسلک کے وسیع تر دائرے تک پھیلا کر دنیا بھر میں پھیلے ہوۓ احناف پر منطبق کیا جاے تو اور زیادہ رنگا رنگی نظر آئے گی۔ کیا امریکہ میں ری پبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے حامی اور برطانیہ میں ٹوری اور لیبر پارٹیوں سے علانیہ طور پر وابستہ ائمہ کرام کو کسی بھی مذہبی یا مسلکی تعریف کی رو سے ’’رائٹ“اور ’’لیفٹ“ میں بانٹا جا سکتا ہے؟

خادم کی رائے میں اس خلط مبحث کی جڑیں اس خطے میں جد وجہد آزادی کی صف اول کے مسلم قائدین کی راہ سے روگردانی اور بعد کی موقع پرستانہ سیاسی تاریخ میں پیوست ہیں۔ جمعیت علمائے ہند کے سرخیل ہوں یا سرخ پوش، قائد اعظم ہوں یا امام الہند، قائد ملت ہوں یا ذاکر صاحب، مولانا حسرت موہانی ہوں یا حسین شہید سہروردی، سب نے آخری تجزیے میں، مذہب و مسلک کی بنیاد پر شہریوں کو خانوں میں بانٹنے سے گریز کیا۔ خادم کی رائے میں ان سب اکابر کو، ان کی تقسیم کی حمایت یا مخالفت اور ’’لیفٹ“ یا ’’رائٹ“ کی معیشت سے دل چسپی سے قطع نظر، ان فتنوں کا خوب اندازہ تھا جو مذہب کو سیاست میں دخیل کرنے سے رونما ہوتے ہیں۔ اس صراط مستقیم سے ہٹنے کا نتیجہ ہم ہی نہیں، ہمارے کلمہ گو ہمسائے بھی بھگت رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments